چند کالم نگاروں کے لیے جو ملک اسحاق کے قتل کی بجائے چاہتے ہیں کے اسے عدالت میں پیش کیا جاتا – بلال قطب

10846234_781884341880439_8567909463446152642_n

ملک اسحاق نے 100افراد کے قتل کا اعتراف تو اکتوبر 1997ءمیں ایک اخباری انٹرویو کے دوران ہی کر لیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 70سے زیادہ مقدمات میں وہ بری ہوتا چلا گیا۔ ہر مقدمے کے گواہ یا تو خود منحرف ہوئے یا انہیں ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا گیا۔ دوکوٹہ فائرنگ کیس (میلسی) کی سماعت کے دوران ملک اسحاق کا ایک جملہ بہت مشہورہوا۔ جب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عینی شاہدین نے اس کی شناخت کی تو اس نے جج سے کہاکہ مُردوں کی گواہی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور ان میں سے کچھ گواہ کچھ عرصے بعدہی ٹھکانے لگادیئے گئے۔

وہ مقدمات کی سماعت کے دوران ججوں اور پولیس والوں کو دھمکیاں بھی دیتا تھا اور وہ محض دھمکیاں نہیں ہوتی تھیں۔ ایسے ہی ایک مقدمے میں اس نے اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی ملتان اشرف مارتھ کو دھمکی دی تھی کہ تمہاری زندگی کے دن گنے جاچکے ہیں تم جہاں بھی جاﺅ گے میں تمہارا تعاقب کروں گا اورپھرکچھ عرصے بعدہی اشرف مارتھ گوجرانوالہ میں دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ وہ اس وقت ایس ایس پی کے عہدے پرتعینات تھے۔

ایک بندہ خود قتل کا اعتراف کر رھا ھے ۔ اس کے بعد جج کے سامنے گواھوں کو قتل کرنے کی دھمکی دے رھا ھے ۔ ایک ایس ایس پی کو قتل کرنے کی دھمکی دیتا ھے ۔ ۔ اگر آپ یہ سمجھتے ھیں کہ پھر بھی اس کو عدالت سے سزا مل سکتی تھی تو پھر آپ کوئی خواب دیکھ رھے ھیں

25

11222167_10153485874124561_388776190773903498_n

Comments

comments