بی بی سی اردو کی رپورٹ: چندے کی تقسیم کا جھگڑا اور ملک اسحاق کے قتل میں لدھیانوی گروپ کا ممکنہ کردار
پاکستان کے اہم ترین شدت پسند رہنماؤں میں سے ایک ملک محمد اسحاق گذشتہ چند برسوں سے ملکی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اپنے ہی ساتھیوں کی مخالفت کے باعث وہ اپنے سیاسی عزائم میں ناکام رہے۔
انھیں بدھ کی صبح جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ کے قریب اپنے درجن بھر ساتھیوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
دہشت گردی کے 50 سے زائد مقدمات کی سماعت کے دوران کئی برس قید میں گزارنے کے بعد جب وہ چار برس قبل کوٹ لکھ پت جیل سے رہا ہوئے تو ملک اسحاق نے مبینہ طور پر تشدد کا راستہ چھوڑ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔
سیاست میں آنے پر انھیں قائل کرنے میں دو شخصیات کا اہم کردار تھا، ملک اسحاق کے دیرینہ ساتھی محمد احمد لدھیانوی اور مسلم لیگ نواز کے ایک اہم صوبائی رہنما۔
محمد احمد لدھیانوی جیل میں ملک اسحاق سے اکثر ملاقاتیں کرتے رہے اور انھیں پنجاب حکومت میں شامل اس مسلم لیگی رہنما کی جانب سے پیغامات اور پیشکشیں پہنچاتے رہے۔
ان رابطوں کے نتیجے میں ملک اسحاق نے تشدد کا راستہ چھوڑنے کا اعلان کیا اور یوں وہ ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔
سیاست میں آنے کے لیے ان کا فطری انتخاب اپنے شدت پسند گروہ کا سیاسی بازو، اہل سنت و الجماعت بنا، جس کی سربراہی مولانا محمد احمد لدھیانوی کر رہے تھے۔
ملک اسحاق نے چند روز کے اندر اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور ایک مضبوط دھڑے کے ساتھ اہل سنت والجماعت کی رکنیت حاصل کی اور اس کی شوریٰ میں شامل ہو گئے۔
اہل سنت و الجماعت کی قیادت کو اس موقع پر دو خدشات پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ ملک اسحاق کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہونے والے بہت سے لوگ ایسے تھے جو دہشت گردی کے واقعات میں پولیس کو مطلوب یا دوسرے لفظوں میں ’اشتہاری‘ تھے۔ دوسرا مسئلہ خاص طور پر محمد احمد لدھیانوی کو یہ درپیش ہوا کہ ملک اسحاق جس شور شرابے اور رعب دبدبے کے ساتھ ان کی جماعت میں شامل ہوئے، اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ان کی جماعت پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت جماعت کی شوریٰ نے بہت جلد ملک اسحاق کو دو تنبیہیں کیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے ’اشتہاری‘ ساتھیوں سے جان چھڑائیں اور دوسرا یہ کہ محمد احمد لدھیانوی کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ’پر امن‘ جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔
ملک اسحاق نے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی، بعض پرانے کارکنوں کو علیحدہ کیا اور اپنی نئی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ملک اسحاق کا خیال تھا کہ وہ بہت جلد اس جماعت میں اپنا مقام حاصل کر لیں گے 2013 کے انتخابات کے دوران وہ خود یا اپنے بیٹوں کو اہل سنت کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ میں بھجوا سکیں گے۔
جلد ہی محمد احمد لدھیانوی گروپ ملک اسحاق کے ان عزائم کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ ان دونوں کے درمیان اس موضوع پر اختلافات پیدا ہوئے اور اگلے چند ماہ تک لدھیانوی اور ملک اسحاق گروپ جماعت کے جلسوں، شوریٰ کے اجلاسوں، چھوٹے بڑے جلوسوں میں ایک دوسرے سے تکرار کرتے رہے اور بلآخر 2012 میں ملک اسحاق کو اہل سنت والجماعت کی شوریٰ سے برطرف کر دیا گیا۔
ملک اسحاق نے انتقاماً لدھیانوی گروپ کو چیلنج کیا اور بہت سے ایسے کارکن اپنے ساتھ شامل کر لیے جو محمد احمد لدھیانوی کے اس فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے تھے کہ اپنے فرقہ وارانہ مقاصد کے حصول کا بہترین راستہ پارلیمنٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔
ملک اسحاق نے اس فلسفے کی کھل کر مخالفت شروع کی، اپنی شوریٰ بنائی اور جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان کو اپنا مرکز قرار دے کر وہاں سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
ملک اسحاق نے سب سے بڑا نقصان اہل سنت کو چندے میں کمی کی شکل میں پہنچایا۔ اہل سنت کی شوریٰ کو اس بات پر بہت تشویش تھی کہ جنوبی پنجاب کے وہ علاقے جہاں سے ان کی جماعت کروڑوں روپے ’چندے‘ کی صورت وصول کرتی تھی، اب ملک اسحاق کے کنٹرول میں تھے۔ اس کے علاوہ ملک اسحاق تیزی کے ساتھ نئے کارکن بھی بھرتی کر رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب ملک اسحاق اور لدھیانوی گروپ کے درمیان جھگڑا شروع ہوا جس میں ایک دوسرے پر قاتلانہ حملے ہوئے اور دونوں طرف کے بعض کارکن مارے گئے۔
اور اب ملک اسحاق اور ان کے قریبی ساتھیوں کے آج بدھ کی صبح مارے جانے کے بعد، سب کے ذہن پر یہ سوال ہے کہ لشکرِ جھنگوی ایک تنظیم یا گروہ کے طور پر کیسے اور کس انداز میں کام کرے گی۔