بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا انٹرویو – عامر حسینی
تربت میں ھلاک ہونے والے ایف ڈبلیو او کے لئے کام کررہے تھے ، اقتصادی راہداری کا منصوبہ بلوچ قوم کی شناخت کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے ، اس منصوبے پر سرمایہ لگانے کی بجائے چین کہیں اور سرمایہ کافی کرے
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا یہ انٹرویو اور جنرل راحیل شریف کا دورہ پنجگور میں ایف ڈبلیو او کی سڑک کا معائنہ کے دوران بیان بہت سی باتیں اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے – اللہ نذر نے صاف صاف تو نہیں لیکن بین السطور یہ کہہ دیا ہے کہ اگر بلوچ مزاحمت کاروں اور امریکہ و بھارت سمیت کسی کے درمیان بھی کسی ایشو پر ایک جیسی سوچ پائی جائے گی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، اللہ نذر بلوچ کہتے ہیں کہ ان کو بلوچستان میں امریکی و بھارتی ہمدردی کے زرا آثار نظر نہیں آرہے تو اس کے دو مطلب ہیں ایک تو ان ممالک کو آگے بڑھکر مزید اس معاملے میں تیزی لانی چاہئیے ، دوسرا یہ کہ ان کو بھی ان ہر دو ملکوں سے اشتراک پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا
پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ اگر بلوچ مزاحمت کے نظریاتی و قوم پرستانہ پہلو کو چھپاکر صرف غیر ملکی مداخلت کا چورن فروخت کرنے کی خواہاں ہے تو دوسری جانب بلوچ مزاحمت کار اسے علاقائی جیو پالیٹکس اور بین الاقوامی سرمایہ دار طاقتوں کے باہمی کشاکش سے جوڑکر زیادہ سے زیادہ اس علاقے کو گرم کرنے کے خواہاں ہیں
پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ ایک طرف تو ریاستی جابرانہ عسکری مشینری سے بلوچ مزاحمت کو توڑنے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب یہ بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف ” جہادی پراکسی ” اور تکفیری عناصر کو بھی بطور پراکسی کے استعمال کررہی ہے اور اس پر یہ بھی الزام ہے کہ یہ پشتون ، بلوچ ایجنٹوں کو بھی نسلی ثقافتی لڑائی میں استعمال کررہی ہے
پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ سری لنکا میں تامل گوریلوں کے خلاف سری لنکن آرمی کی کاروائی کی کامیابی کو اپنا کریڈٹ قرار دیتی رہی ہے ، کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ نے مشرقی پاکستان ملٹری آپریشن اور پراکسیز کا زیادہ لطیف ورژن تیار کرکے سری لنکن آرمی کو دیا تھا جب کہ بلوچستان میں بھی اس حوالے اپنی حکمت عملی میں بہت سی تبدیلیاں لائی گئیں ہیں
یہ بات اول دن سے بہت واضح ہے کہ چین جس نئے سلک روڈ کی تعمیر کے خواب دیکھ رہا ہے اس کی کم از کم پاکستان کے اندر تعبیر پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے تعاون کے بغیر فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ ترقی کے اس ماڈل میں کم از کم پاکستان کے غریب بلوچ ، پشتون ، سرائیکیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ، زیافہ سے زیافہ چند بلوچ ، پشتون ، سرائیکی سرمایہ دار گروپ اس سے فائدہ اٹھاپائیں گے جو اس وقت محمود اچکزئی ، اسفند یار ولی ، عبدالمالک ، ثناء اللہ زھری وغیرہ کی بغل میں بیٹھے ہیں اور باقی پی پی پی یا مسلم لیگ کے ساتھ ہیں
پاکستان ایک نئی طویل جیو پولیٹیکل وار کے دور میں داخل ہورہا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس مرتبہ اسلام آباد اور عسکری اسٹبلشمنٹ چینی رجیم کے ساتھ ہوگی اور اس کا سامنا علاقائی سطح پر ہندوستان سے ہوگا اور عالمی سطح پر امریکہ اور یورپی بلاک ہوگا
پاکستان میں امریکہ نواز لبرل طبقہ خاصی فرسٹریشن کا شکار ہے ، اس سے امریکی بھی خاصے ناراض ہیں کہ وہ اس کے مفادات کی ٹھیک ٹھیک حفاظت نہیں کرسکا ، یہ لبرل طبقہ خود بلوچ مزاحمت کاروں کے نزدیک بھی انتہائی ناقابل اعتبار ہوچکا ہے اور پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ بھی اس کے اکثر کرداروں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے
اس سارے عرصے میں مجھے ایک قابل اعتماد زریعہ نے بتایا ہے کہ عسکری اسٹبلشمنٹ نے ایک طرف تو بہت سے پرانے چین نواز بائیں بازو کے دانشور اور لکھاریوں سے رابطے کئے ہیں ، ان میں سندھ اور بلوچستان کے کئی ایک لوگ شامل ہیں ، خود چینی رجیم نے بھی اپنے پرانے روابط کی ڈائرکٹری کھولی ہے اور کئی ایک لوگ اس حوالے سے رابطے میں ہیں ، آپ کو اقتصادی کوریڈور کی تعمیر کا جواز مارکسی اصطلاحوں کے زریعے سے بہت جلد ملنا شروع ہوجائے گا ، گویا چین اور پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے لیفٹ کا ایک نیا روپ سامنے آئے گا ، این جی او سیکٹر میں بھی پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی ہے ، مشاہد حسین سئد ، دکھشا سید ، جاوید جبار ، ملیحہ لودھی سمیت کئی ایک نام نے جنھوں نے اس میدان میں ماضی میں بھی فوج کو سہارا دیا تھا اب بھی ملے گا اور یہ لبرل فیس کے ساتھ پاکستانی نیشنل ازم کے پرچارک بنکر سامنے آئیں گے اور اس جنگ کے مالیاتی فوائد سے مستفید ہوں گے
اس ساری مارا ماری میں اور موقعہ پرستانہ گرد میں آزاد ، ترقی پسند مزاحمت کار انقلابی لیفٹ کی تعمیر کیسے کرنی ہے اور محنت کش طبقات کو سامراجی قوتوں کی باہمی لڑائی کا ایندھن بننے اور حقیقی سوشلسٹ متبادل تیار کرنے کے لئے کس راہ کو اختیار کرنا ہے یہ ہے وہ سوال جس سے ہم سب نبرد آزما ہیں