نام نہاد اسلامی لیفٹ پر ندیم فاروق پراچہ کا تفصیلی مضمون – عامر حسینی

55b0abcf90dbb

نے نام نہاد اسلامی لیفٹ پر جامع اور تفصیلی مضمون لکھا ہے ، لیکن ندیم نے اس موضوع پر لکھتے ہوئے زیادہ تر پاپولر رائٹرز پر انحصار کیا ہے جو عمومی طور پر یا تو لبرل لیفٹ سے تعلق رکھتے ہیں یا ایسے لوگ ہیں جنھوں نے نام نہاد اسلامی لیفٹ کی تشکیل ، اس کے ابھار اور اس کے زوال کے پس پردہ کارفرما سوشو اکنامک کنڈیشنز کا سائنسی بنیادوں پر سراغ نہیں لگایا ، بعث ازم ، قومی آزادی و خود مختاری پوسٹ کالونیل دور اور برٹس ، فرنچ و امریکی سامراجیت کے خلاف ابھرنے والی پاپولسٹ سیاست اور اس کے نظریہ سازوں کے بارے میں وہ سمیر امین ، گلبرٹ آشکار ، ابو خلیل اسد ، ڈاکٹر فیروز احمد ، حمزہ علوی وغیرہ کے کام کو یکسر نظر انداز کرگئے ہیں

اس مضمون میں انھوں نے جہاں غلام احمد پرویز کا زکر کیا تو وہ یہ بتانا بھی بھول گئے کہ پرویز کے

Ahistorical and Iranian -Ajami Phobia

سے ایک اور طرح کی تکفیریت نے جنم لیا اور پرویز کی تصوف ، تفسیر ، حدیث اور تاریخ کی ثقاہت پر جو تنقید ہے وہ ساری کی ساری اپنے جوہر کے اعتبار سے اسلام کے خلاف ایک عجمی ، ایرانی سازش بنکر رہ گئی اور اس سلسلے میں پرویز صوفی مسالک ، مذاھب اربعہ کے ماننے والوں اور شیعہ فرق بشمول اثنا ء عشری و اسماعیلی و نصیری سب کو اسلام کے خلاف گہری سازش کے زمہ دار اور ان میں سے بعض کی اصل کو وہ یہودیت میں تلاش کرتے ہیں ، مصر میں ان کی طرح کا ماوراء التاریخ لغوی معنویت پر زیادہ زور دینے والا گروہ احمد امین مصری وغیرہ کی صورت ابھر کر سامنے آیا تھا اور اگر اس فکر کا زیادہ گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے پرویز ایک طرح سے عربوں کے اندر قرون وسطی میں پائی جانے والی عرب شعوبیت کی تحریک سے متاثر تھے اور یہ عرب شعوبیت کی تحریک نئی ابھرنے والی مسلم سلطنت میں بتدریج غیر عرب گروہوں کا بڑھتے ہوئے اثر سے زور پکڑی تھی ،

اس ضمن میں پرویز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے عربوں کے ایرانیوں سے نکاح نہ کرنے کی پابندی کا زکر کرتا ہے اور پرویز سمیت کئی ایک سکالرز کی تنقید میں بنو امیہ اصل اسلام کے زیادہ قریب دکھائے جاتے ہیں اور بنو عباس کے دور میں تاریخ ، تفسیر ، فقہ ، حدیث کی جو تدوین ہوئی اسے عجمیت قرار دیا جاتا ہے ، پرویز نے تدوین حدیث و تاریخ کو سرے سے مشکوک ٹھہرانے کے لئے جو تحریریں لکھیں ان میں مدونین کے ایرانی پس منظر کو بار بار بیان کرکے بالواسطہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے یہ سب کسی منظم سازش کے تحت ہوا تھا

عبیداللہ سندھی اپنی تشریحات کے معاملے میں بہت سے مقامات پر انتہائی روشن خیال ، ترقی پسند ، سامراج دشمن اور سچے ہندوستانی تھے لیکن انہوں نے شاہ ولی اللہ کی فکر کو زبردستی روشن خیالی کا پہناوا پہنایا جوکہ اس کو پہنایا نہیں جاسکتا تھا ، شاہ ولی اللہ اورنگ زیب کی میراث کے احیاء کے سوا کچھ نہیں چاھتے تھے ، شاہ ولی اللہ اس زمانے میں جب پورا ہندوستان ایک طرح سے طوائف الملوکی کا شکار تھا اور ان کے زمانے میں ایک طرف تو روھیلہ تھے ، دوسری طرف بچی کھچی مغلیہ سلطنت تھی ، تیسری طرف سکھ تھے اور چوتھی طرف انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی تھی اور پانچویں طرف افغان لٹیرے احمد شاہ ابدالی کی قیادت میں تھے ،

ان کے زمانے میں ہم نے دیکھا کہ سلطنت مغلیہ کے چند درباریوں ، سنی قدامت پرست تھیوکریسی ، روھیلہ سرداروں نے مرہٹہ ، سکھ اور اودھ کے اندر شیعہ نواب کی بڑھتی ہوئی قوت کو کمزور کرنے کے لئے احمد شاہ درانی کی جانب دیکھا اور ایک طرح سے شاہ ولی اللہ نے اپنی فکر کی بنیاد ہی بنیادی طور پر صلح کل وحدت الوجودی تکثیریت پسند رجحان کے خلاف رکھی جو اس وقت شمالی ہندوستان کے اندر بھگتی و ملامتی تصوف کی شکل میں تیزی سے عوام میں مقبول ہورہا تھا اور ملائیت کے خلاف کھڑا تھا ، شاہ ولی اللہ ایک طرح سے شیخ احمد سرہندی کی اس تحریک کو دوبارہ سے زندہ کرنے کے علمبردار بن گئے تھے جو اورنگ زیب کے زمانے میں ریاستی آئیڈیالوجی میں بدل گئی تھی اور اس کے سب سے زیادہ متاثرہ صوفی ، بھگت ،سادھو ، شیعہ ، سکھ اور کئی ایک ہندو گروہ تھے یہ سب اورنگ زیب اور اس کے اتحادی ملاوں کے کوڈ فتاوی عالمگیری کے مرتبین 1000 سے زائد ملاوں کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے اور انہوں نے کئی ایک کامیابیاں بھی حاصل کیں ، شجاع الدولہ کے خلاف روھیلہ کی لڑائی میں اودھ میں ملاوں کا یہ گروہ روھیلہ کے ساتھ تھا اور حافظ رحمت اللہ ان سب کا ھیرو بھی اسی لئے قرار پایا تھا

بہرحال عبیداللہ سندھی نے جس نظام افکار کو مکتب شاہ ولی اللہ کا نام دیا تھا ، وہ شاہ ولی اللہ کی بجائے ان کی اپنی اجتہادی کاوش کا نتیجہ تھا جس میں انھوں نے متن قرآن ، حدیث اور کئی ایک تعبیرات شاہ ولی اللہ کی پیوند کاری مارکسی خیالات کے ساتھ کردی تھی ، عبیداللہ سندھی یہی وجہ تھی کہ شاہ ولی اللہ کی فکر میں موجود شیعی و وحدت الوجودی ملامتی صوفی مخالف مواد کو چھپاگئے لیکن وہ شاہ اسماعیل و سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد میں کھل کر نمایاں ہونے والے اس پہلو کو نہ چھپاسکے اور اس پر سخت نالاں بھی دکھائی دیتے تھے ، عبیداللہ سندھی نے بہت مہارت کا مظاہرہ یہ کیا کہ دارالعلوم دیوبند کی جو

Sectarian and Shia -Sufi phobic orientation

تھی اس سے جان چھڑانے کے لئے ” وحدت ادیان ” کے تصور کو اپنی تحریک کا جزو لاینفک قرار دیا ، بالکل ویسے ہی جیسے ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کے کمیونل کیوسچن سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا تھا عبیداللہ سندھی اس مقام پر اپنے استاد مفتی محمود حسن بانی ریشمی رومال تحریک سے بھی بہت آگے کی چیز نظر آتے ہیں ، ان کے استاد ہندوستان میں مسلم -ہندو اتحاد کے ساتھ انگریز سامراج سے جدوجہد کے قائل تھے لیکن نجانے کیوں ان کی لغت میں مسلمان سے مراد صرف غیر شیعہ تھے اس کی شاید ایک وجہ ان کا ترک عثمانیوں کے قریب ہونا تھا جوکہ ایرانی صفویوں کے ساتھ تصادم میں تھی اور ان کی سلطنت میں شیعہ ویسے ہی زیر عتاب تھے جیسے صفویوں کے ہاں سنی ، اور یہی رجعت پسندی اور

Sectarian dimension of Daruloom Deoband then we saw dominating in those parties which were established by Deobandi clergy in Indian subcontinent like JH , Ahrar etc.

http://www.dawn.com/news/1195863/the-volatile-fusion-origins-rise-demise-of-the-islamic-left

Comments

comments