جنید جمشید صاحب کا قران میں خواتین کے ذکر کے حوالے سے مغالطہ۔ خرم زکی

 

محترم جناب جنید جمشید صاحب، آپ کو یہ بات کس نے کہ دی کہ اللہ نے قران میں اگر کسی خاتون کا نام ذکر نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کو یہ پسند نہیں کہ کسی عورت کا نام قران میں آئے ؟ اور آپ کو یہ بات بھی کس نے کہ دی کہ جناب مریم علیہ السلام کا ذکر قران میں صرف حضرت عیسی علیہ السلام کی وجہ سے ہوا ہے ؟ آپ کے یہ دونوں اندازے محض مغالطے ہیں۔

سورہ تحریم کی یہ آیات ملاحظہ فرمائیں

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ

اور مومنوں کے لئے (ایک) مثال (تو) فرعون کی بیوی کی بیان فرمائی کہ اس نے خدا سے التجا کی کہ اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے اعمال (زشت مآل) سے نجات بخش اور ظالم لوگوں کے ہاتھ سے مجھ کو مخلصی عطا فرما

اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریمؑ کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اپنے پروردگار کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرمانبرداروں میں سے تھیں

ان دو آیات میں دو خواتین کا ذکر ہے؛ ایک فرعون کی بیوی (جناب آسیہ علیہ السلام) اور دوسری حضرت مریم علیہ السلام۔ آپ بتائیں کہ کہاں ان آیات میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نام آیا ہے کہ آپ کہ یہ بات مانی جائے کہ حضرت مریم کا ذکر قران میں محض حضرت عیسی کے ذیل میں ہے ؟

اسی طرح سورہ آل عمران میں بھی حضرت مریم کا ذکر بنیادی طور پر ان کی والدہ زوجہ عمران کی نذر کے ضمن میں ہے نہ کہ حضرت عیسی کے حوالے سے۔ حضرت عیسی کا ذکر کافی بعد میں آیا ہے

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

(وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما توتو سننے والا (اور) جاننے والا ہے

جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار! میرے تو لڑکی ہوئی ہے اور (نذر کے لیے) لڑکا (موزوں تھا کہ وہ) لڑکی کی طرح (ناتواں) نہیں ہوتا اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں

تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے

ان مندرجہ بالا آیات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مریم علیہ السلام جناب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ہی مقام ولایت پر فائز ہو چکی تھیں اور اس کا واضح ثبوت قران کی یہ آیت بھی ہے

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ

اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم! خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے

مریم اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا اور سجدہ کرنا اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا

اور آپ جناب کا یہ فرمانا کہ سورہ مریم میں حضرت مریم کو نام کے بجائے ہارون کی بہن کہ کر مخاطب کیا گیا ہے یہ محض آدھا سچ ہے اور آپ کی جانب سے قران کی آیات کی زبردستی من مانی تشریح کرنے کی جسارت ہے ورنہ اگر آپ اگر آنکھیں کھول کر دیکھتے تو اسی آیت سے پچھلی آیت میں اور اسی تسلسل میں حضرت مریم علیہ السلام کو ان کے نام کے ساتھ ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنی وضاحت میں سورہ مریم کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ آیت اور اس سے پچھلی آیت دونوں پیش خدمت ہیں

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا

يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا

پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا

اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی

ان تمام حقائق کے بعد یہ کہنا کہ جناب مریم کا ذکر قران میں محض حضرت عیسی کے حوالے سے ہے بالکل ہی بے بنیاد بات ہے بلکہ قران میں دس جگہ حضرت مریم علیہ السلام کا نام گرامی ابن مریم کے علاوہ استعمال ہوا ہے۔ اگر آپ کے علماء نے آپ کو ایک غلط بات پڑھا دی ہے تو کم از کم اس کی تحقیق کریں نہ کہ بغیر تحقیق اپنے مولویوں کی بات آگے بڑھاتے رہیں

اب آتے ہیں دوسرے نکتے کی طرف اور وہ یہ کہ اللہ کو پسند نہیں کہ وہ خواتین کا نام قران میں ذکر کرے۔ میں محترم جنید جمشید صاحب کی خدمت میں قران سے وہ مقامات و آیات پیش کروں گا جہاں اللہ نے اپنے مردانبیاء و اولیاء کا نام بھی قران میں ان کے تذکرے کے باوجود نقل نہیں کیا

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے

سورہ بقرۃ کی اس آیت میں جس شخص کا ذکر ہوا ہے اور نام ذکر نہیں ہوا وہ قول مشہور کے مطابق اللہ کے نبی حضرت عزیر علیہ السلام ہیں جیسا کہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں

اختلفوا في هذا المار من هو ؟ فروى ابن أبي حاتم عن عصام بن رواد عن آدم بن أبي إياس عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن ناجية بن كعب عن علي بن أبي طالب أنه قال : هو عزير

ورواه ابن جرير عن ناجية نفسه . وحكاه ابن جرير وابن أبي حاتم عن ابن عباس والحسن وقتادة والسدي وسليمان بن بريدة وهذا القول هو المشهور۔

اسی طرح قران کریم کی سورہ نمل کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیں

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

ایک شخص جس کو کتاب الہیٰ کا علم تھا کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کئے دیتا ہوں۔ جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بےپروا (اور) کرم کرنے والا ہے

اب دیکھیں اس آیت میں اللہ نے اپنے اس عظیم الشان بندے کا ذکر کیا ہے جو ولایت کے اس مقام پر فائز ہے کہ اسم اعظم بھی جانتا ہے اور پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس اٹھا کر لے آتا ہے لیکن اس کے ذکر کے باوجود قران نے ان کا نام ذکر نہیں کیا۔ اللہ کے یہ بندے آصف بن برخیاہ تھے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ذکر ہوا ہے

قال الذي عنده علم من الكتاب    قال ابن عباس : وهو آصف كاتب سليمان . وكذا روى محمد بن إسحاق ، عن يزيد بن رومان : أنه آصف بن برخياء ، وكان صديقا يعلم الاسم الأعظم
وقال قتادة : كان مؤمنا من الإنس ، واسمه آصف . وكذا قال أبو صالح ، والضحاك ، وقتادة : إنه كان من الإنس – زاد قتادة : من بني إسرائيل

اسی طرح قران کی ایک اور آیت پیش سورہ کہف سے پیش کرتا ہوں جہاں اللہ نے اپنے ایک اور ولی کامل کا پورا تذکرہ بیان کیا ہے جن کے اتباع کا حکم حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کو دیا گیا ہے لیکن خود اس ولی کامل کا اسم بیان نہیں کیا

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا

قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا

قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا

وہاں  انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا

موسیٰ نے ان سے کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں

انہوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے

اللہ کے یہ ولی کامل حضرت خضر علیہ السلام ہیں جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں صحیح بخاری کے حوالے سے بیان ہوا ہے

 فوجدا عبدا من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علما   وهذا هو الخضر ، عليه السلام ، كما دلت عليه الأحاديث الصحيحة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم

اب اتنے سارے حوالوں کے بعد کیا محترم جنید جمشید یہ کہنا چاہیں گے کہ اللہ کو اپنے ان انبیاء و اولیاء کا نام لینا پسند نہیں تھا اسی لیئے ان کا ذکر تو کیا لیکن نام نہیں لیا (نعوذ باللہ من ذالک) ؟

باقی قران کی کئی آیات میں عظیم الشان خواتین کا تذکرہ موجود ہے

إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ حضرت بلقیس کا تذکرہ

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ حضرت آسیہ کا تذکرہ

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ حضرت حَنّا کا تذکرہ

وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ حضرت موسیٰ کی والدہ کا تذکرہ

اس کے علاوہ بھی قران میں دیگر کئی مقدس خواتین کا تذکرہ ہے جس کے بحث کا یہ مقام نہیں۔

اب یہاں ایک الزامی دلیل بھی نقل کر دوں؛
قران میں صرف ایک صحابی کا نام آیا ہے اور وہ ہیں زید بن حارثہ تو اب کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اللہ کو کسی اور صحابی کا نام لینا پسند نہیں ؟ کیا فرماتے ہیں جنید جمشید صاحب اور ان کے استاد تقی عثمانی صاحب اور طارق جمیل صاحب؟

باقی کوئی اللہ کا بندہ جنید جمشید سے پوچھے کہ یہ بات کہ اللہ قران میں خواتین کا نام لینا پسند نہیں کرتا اس کو کس نے بتائی؟ کیا قران میں خود اللہ نے ایسی کوئی بات کہی ہے کہ اس کو قران میں خواتین کا نام لینا پسند نہیں یا یہ بات کسی حدیث میں نقل ہوئی ہے ؟اور اگر کسی حدیث میں بھی نقل نہیں ہوئی تو کیا اہل البیت اطہار یا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسی کوئی بات کہی ہے؟اور پھر دین کے اصولوں کے مطابق ہر شخص کی کہی ہوئی بات قران و سنت رسول پر پیش کی جاتی ہے اور اگر اس کے مطابق ہو تو قبول ہوتی ہے ۔ اب اگر نہ اللہ نے قران میں کہیں ایسی بات کی اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسی بات کہیں بیان کی تو جنید جمشید کے ان خود ساختہ اندازوں کی دین میں کیا وقعت؟

JJ

Comments

comments