ایران – جی پلس فائیو نیو کلئیر ڈیل – عامر حسینی

poster12

ایران اور دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کے درمیان تاریخی نیوکلئیر ڈیل کے بعد کچھ اور پیش رفت بھی ہوئی ہیں ، جس سے اس ڈیل کے ممکنہ اثرات بارے جاننے میں مدد مل سکتی ہے

امریکی انتظامیہ لگتا ہے کہ ایران سے ڈیل پر مڈل ایسٹ میں اپنی اتحادی عرب ریاستوں کو اعتماد میں لینے کی مربوط کوششوں کا آغاز کرچکی ہے

خلیج عرب تعاون کونسل کے جنرل سیکرٹری عبدالطیف بن راشد الزینی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی سیکرٹری خارجہ جان ایف کیری نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے وزراء خارجہ کو الگ الگ ٹیلی فون کال کیں اور ان کو ایران – جی پلس فائیو ایٹمی ڈیل پر اعتماد میں لیا اور ان کو بتایا کہ ایران سے ڈیل انھی خطوط پر ہوئی ہے جس کا کیمپ ڈیوڈ میں اپنے اتحادی ملکوں کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں جان کیری نے کیا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت جلد امریکہ اپنے عرب اتحادیوں کی ایک علاقائی کانفرنس منعقد کرے گا

امریکی صدر باراک حسین اوباما نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ٹیلی فون کال کی اور معاہدے پر شاہ سعودیہ کو اعتماد میں لیا ، سعودی نیوز ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان نے امریکی صدر اوبامہ کو یقین دلایا کہ اگر ایران کو ایٹم بم بنانے سے روک دیا جاتا ہے تو خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے

عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری نے قاہرہ سے جاری اپنے بیان میں ایران -مغرب ڈیل کو تاریخ ساز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کو امید ہے کہ اب عالمی برادری اسرائیل کو بھی اپنی ایٹمی تنصیبات معائنہ کاری کے لئے کھول دینی چاہئیے

خلیج تعاون کونسل ، سعودی شاہ سلمان اور عرب لیگ کی جانب سے محتاط اور قدرے نرم بیانات اسرائیل کی پوزیشن کے برعکس ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ خلیج عرب تعاون کونسل میں شامل ممالک بشمول سعودی عرب امریکہ سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مشرق وسطی میں خاص طور پر یمن ، شام کے اندر ان کے لئے باوقار اور قابل عمل امن معاہدے کے قیام میں مدد دیں اور اس مقصد کے لئے امریکیوں آنے والے دنوں میں مزید دباو بڑھے گا

اس جانب ایک ہلکا سا اشارہ رابرٹ فسک نے اپنے حالیہ ایک مضمون میں بھی دیا ہے ، رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ جان ایف کیری اور جواد ظریف ایرانی وزیر خارجہ کے درمیان جو بات چیت ویانا میں ہوئی اس میں ایٹمی ڈیل سے ہٹ کر داعش سے نمٹنے کا ایجنڈا بھی زیر بحث آیا

ایران اور امریکی تعلقات اگر ہموار طریقے سے آگے بڑھے تو لا محالہ یمن ، شام ، عراق کے معاملات میں ایران سے مدد طلب کی جائے گی ، ساتھ ساتھ ایران سے بحرین ، لبنان میں بھی درمیان کے راستے کو نکالنے کی امید بھی کی جائے گی اور اس وقت عرب ریاستیں جس سماجی خلفشار کا شکار ہیں ، ان کو داخلی و خارجی سطح پر جس دباو کا سامنا ہے اور اس سے ان کی سوسائٹی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں اور وہاں پر عدم استحکام کا تناسب بڑھتا جارہا ہے ، ایسے میں عرب ریاستوں کو امریکہ کی زیادہ امداد اور تعاون کی ضرورت ہے جبکہ امن کی کنجی ایران کے پاس ہے

ایک طرف تو یہ امکان ہے کہ اب ہوسکتا ہے کہ مڈل ایسٹ میں جاری خلفشار پر غالب پراکسی وارز کا راستہ ثانوی ترجیح ہو جبکہ ڈپلومیسی کے راستے کو اختیار کیا جائے

لیکن سعودی عرب سمیت عرب میڈیا میں اس وقت جو آرٹیکل چھپ رہے ہیں اور جو انفرادی نکتہ نظر سامنے آرہے ہیں وہ اس ڈیل پر عرب سلفی حکمرانوں کی فرسٹریشن کے عکاس ہیں اور ان پر عقابی پن غالب ہے ، مجھے ابھی تک عرب میڈیا میں فاختائی آواز سنائی نہیں دی ، کم از کم عرب انٹیلیجنٹیسیا کی جانب سے ” امن ” کی بات سامنے آنی چاہئیے

سعودی گزٹ کے ایڈیٹر خالد معینیا کا ایک آرٹیکل العربیہ نیوز نیٹ ورک میں شایع ہوا ہے ، یہ سعودی گزٹ خاصا پاپولر اخبار ہے سعودی عرب کا ، اس اخبار کا مدیر عربوں کو امریکہ سے مزید دور ہونے کا مشورہ دیا ہے اور اس نے بین السطور اس پر ھرجائی پن کا الزام عائد کیا ہے ، دبے لفظوں میں چینی کیمپ کی جانب جانے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے لیکن یہ محض یوٹوپیا ہے ، سعودی عرب امریکہ اور برطانیہ سے دور ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا

http://urdu.alarabiya.net/…/%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D8%AF%D9%86…

ایران – مغرب معایدے پر سعودی عرب کے سرکاری نیوز نیٹ ورک العربیہ کی ویب سائٹ پر خبر شایع ہوئی کہ سعودی عرب نے تہران کو نکیل ڈالنے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے ” نکیل ڈالنے ” والے لفظ پر غور کیجئے ، اسے کہتے ہیں رسی جل گئی بل نہ گیا اور پھر سعودی عرب کے حوالے سے العربیہ نے لکھا
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے اندرونی وسائل کو ایرانی قوم کی ترقی وخوش حال اور فلاح عامہ پر صرف ہونا چاہیے نہ کہ ایرانی حکومتیں قومی وسائل کو خطے کے ممالک کو ڈرانے دھمکانے اور شورش پھیلانے کے لیے استعمال کریں جس کے بعد خطے کے ممالک کو منہ توڑ جواب دینے پر مجبور ہونا پڑے۔

سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران ایک پڑوسی ملک ہے اور ریاض تہران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کے قیام کا خواہاں ہے لیکن تعلقات کی بنیاد اچھے پڑوسی کے حسن سلوک اور دوسروں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں پر ہونی چاہیے۔
اور اس میں ایران کو یہ بھی مشورہ مفت میں دیا گیا کہ وہ اپنے وسائل عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرے نہ کہ اسلحہ و بارود پر اور دوسرے ممالک میں شورش برپا نہیں کرنی چاہئیے یقین کریں ایک تو یہ مفت مشورے پڑھکر خوب ہنسی آئی اور ساتھ ہی یہ کہاوت بھی یاد آئی کہ خود میاں فضحیت اور دوسروں کے لئے میاں نصحیت

العربیہ نیوز نیٹ ورک ، الجزیرہ ، الوطن ، شرق الاوسط سمیت کئی ایک سعودی نواز اور دیگر گلف سٹیٹ نواز میڈیا نے ایرانی خود ساختہ جلاوطن اپوزیشن رہنماء مریم رجوی کے اس بیان کو تزک و احتشام کے ساتھ شایع کیا ہے ایران کی جلاوطن خاتون اپوزیشن رہ نما مریم رجوی نے تہران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کی شکل میں ایران رجیم کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کا ایک نیا موقع دے دیا گیا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق تہران اور گروپ چھ کے درمیان ویانا میں طے پانے والے سجھوتے کے بعد رجوی کے ایک بیان میں کہا ہے کہ “سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں سے معاہدہ کر کے ‘ایٹمی زہر’ کا پیالہ منہ کو لگا لیا ہے”۔

یاد رہے کہ “زہرکا پیالہ” منہ کو لگانے کی اصطلاح ایران میں ولایت فقیہ کے انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی نے عراق ایران جنگ کی سے متعلق ہونے والے سیز فائر کے بارے میں استعمال کی تھی۔

مریم رجوی کے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو وصولہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے کے لیے سلامتی کونسل نے چھ قراردادیں منظور کیں مگر تہران کی جانب سے ان پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ گروپ چھ اور تہران کے درمیان ہونے والے نئے معاہدے پر ایرانی حکومت اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ویانا میں ہونے والے سمجھوتے میں ایران کے سامنے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا راستہ کھلا رکھا گیا حالانکہ ایران کو جوہری بم بنانے سے ہر صورت میں روکا جانا چاہیے تھا۔

مسز رجوی کا کہنا ہے کہ جوہری زہر اور خامنی ای کا سرخ لکیروں سے پسپائی ہی ان کی اجارہ داری کو ختم کرنے کا موجب بنے گے اور جلد ہی ولایت فقیہ میں ایک نیا ارتعاش پیدا ہو گا جو اس کی تباہی کا موجب بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ گروپ چھ نے ایران کے ساتھ موجودہ شرائط کے تحت معاہدہ کر کے ایک طرف ایران پر عاید پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا ہے تو دوسری جانب خامنی ای اور ان کے ٹولے کو معاہدے کی سابقہ خلاف ورزیوں پر کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔

اپوزیشن کو ان شرائط پر ایرانی حکومت اور مغرب کے درمیان معاہدہ قبول نہیں ہے کیونکہ یہ معاہدہ تہران کو جوہری بم بنانے سے نہیں روک سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوہری ہتھیاروں کا حصول ایرانی قوم کی ضرورت نہیں۔ یہ ڈرامہ صرف موجودہ ملائیت کی حکومت کی طرف سے رچایا گیا ہے جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ایمٹی ہتھیار حاصل کرنا چاہتی ہے “

شرق الاوسط جریدہ جو سعودی عرب کا ایک اور مضبوط ہروپیگنڈا آرگن ہے ، اس کے ایڈیٹر خالد الدوسیری نے اپنے آرٹیکل میں ایران -مغرب ڈیل کو امریکہ اور مغرب کے لئے ونڈرفل ڈیل قرار دیا ہے لیکن وہ ایران کے لئے اس ڈیل میں کوئی خاص کامیابی نہیں دیکھتا ، اس کے خیال میں اس ڈیل سے ایرانیوں کے ایٹم بم بنانے کا دروازہ اگر بند ہوا ہے تو برائی کے کئی اور دروازے کھل گئے ہیں ، اس کے نزدیک ایران اس معاہدے کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرے گا ، مدیر مذکور سابق ڈائریکٹر سی آئی اے جنرل پٹریاس کا بیان کوٹ کرتا ہے جس کے مطابق ایرانی میلیشائیں القائدہ و داعش سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں

Saudi Arabia and the Gulf states can only welcome the nuclear deal, which in itself is supposed to close the gates of evil that Iran had opened in the region. However, the real concern is that the deal will open other gates of evil, gates which Iran mastered knocking at for years even while Western sanctions were still in place.

http://www.aawsat.net/…/opinion-iran-nuclear-deal-opens-the…

پندرہ جولائی کو جب شرق الاوسط کے ایڈیٹر کا ڈیل ہوجانے پر آرٹیکل شایع ہوا تو ساتھ ہی شرق الاوسط نے 1987ء سے اپنے ساتھ جڑنے والے شاہ ایران نواز مجلے کہیان کے سابق مدیر امیر طاہری کا ایک آرٹیکل شایع کیا ، جس میں اس نے کہا کہ ابھی کوئی ڈیل نہیں ہوئی ، یہ آرٹیکل بغض اور کینے کی اپنی مثال آپ ہے اور مجھے غالب یاد آئے کہ
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

http://www.aawsat.net/…/analysis-iran-nuclear-saga-no-deal-…

مصر کا معروف اخبار الاھرام ویکلی نے اپنی ویب سائٹ پر ایران -مغرب ڈیل کے حوالے سے سعودی میڈیا کے ردعمل بارے ایک خبر پوسٹ کی جس کے مطابق مذکورہ ڈیل کو عربوں کے مفادات کے خلاف قرار دیا جارہا ہے ، الجزیرہ ٹی وی کے کالمسٹ الجسیر نے اس ڈیل کے بعد ایٹمی ایران کی بجائے دہشت گرد ایران کے ظہور کی کہانی سنائی ہے ، اس جریدے کے مطابق سعودی اعلانیہ ، پبلک میں تو اس مبینہ ڈیل کا خیر مقدم کررہے ہیں ساتھ ساتھ وہ غیر سرکاری اور خفیہ سطح پر اس کے خلاف شدید ردعمل دے رہے ہیں

http://english.ahram.org.eg/…/Saudi-media-attack-Iran-deal-…

مجھے ابتک کے سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں کے اس مبینہ ڈیل پر آنے والے ردعمل سے لگتا ہے کہ عرب ریاستوں کی حکومتیں اس ڈیل کے بارے میں زیادہ تر فرقہ وارانہ اصطلاحوں میں اپنے پروپیگنڈا ونگ کو متحرک رکھیں گی اور اور زیادہ تیزی سے خون ریزی کو بڑھائیں گی تاکہ امریکہ اور مغرب پر دباو بڑھاکر ایران سے گلف ریاستوں کے سیاسی استحکام کی مانگ کی جاسکے
ویسے سعودی میڈیا کا ایک سرسری سا جائزہ یہ دکھانے کے لئے کافی ہے کہ سعودی عرب عراق میں داعش کے خلاف ایرانی -عراقی عسکری کاروائی اور اس کے لئے امریکیوں کی اشیر باد پر سخت پریشان ہے اور وہ امریکہ و مغرب کا مڈل ایسٹ میں اپنے مفادات کے لئے ایران کو بتدریج ایک قابل اعتماد ساتھی کا درجہ دینے کی روش سے بھی خائف ہیں اور وہ جیسے ہوسکے اس پروسس کو الٹنے کے خواہاں ہیں
ویسے بھی سلفی ازم کے بطن سے نکلنے والے عفریت نے پورے مغرب کو خوفزدہ کررکھا ہے اور اس کے آگے اگر کوئی ڈھال بنا ہے تو وہ ایران ، کرد ، عراقی ملیشیاز ہیں یہ وہ حقیقت ہے اس کا انکار سعودی عرب بھی نہیں کرتا

Comments

comments