امریکہ، یورپ، آسٹریلیا میں آباد ہونے والے پاکستانی تارکین وطن کے لئے ایک تجویز – مبارک حیدر

mob

وہ پاکستانی تارکین وطن جو مغربی ملکوں میں آباد ہو گئے ہیں ، پاکستان کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں – اگر اور نہیں تو وہ اپنے مستقبل اور اپنی اولادوں کے مستقبل کے لئے ایسا تو کر سکتے ہیں کہ خود کو پاکستان میں پھیلنے والے نفرتی نظریات سے الگ کر لیں – اگر ہمارے یہ تارکین وطن اس بات کا اعلان کریں کہ دین سب کا اپنے اپنے خدا سے معاملہ ہے – کہ ہم دین کو فرد کا ذاتی عقیدہ مانتے ہیں ، یعنی مولوی اور امام کو حاکم نہیں مانتے – کہ ہم طالبان اور داعش جیسی خلافت اور قتال کی تحریکوں سے الگ ہیں، تو وہ پاکستان میں نئے تعمیری افکار کو ابھرنے میں مدد دے سکتے ہیں

امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں ایک ایسی تحریک کی اشد ضرورت ہے جو پاکستانی مسلمانوں کو ان معاشروں کے ساتھ جوڑ کر ان معاشروں میں موثر بنا سکے

اول بات یہ کہ امریکہ ، یورپ اور آسٹریلیا میں ایک ایسی تحریک کی اشد ضرورت ہے جو پاکستانی مسلمانوں کو ان معاشروں کے ساتھ جوڑ کر ان معاشروں میں موثر بنا سکے – اگر یہ عمل شروع ہو جاۓ تو پاکستانی تارکین وطن پاکستان کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں

بھارت اور لاطینی امریکہ کے تارکین وطن نے اس اصول کو بھرپور طریقے سے اپنا کر اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے ، جس کی وجہ سے ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں بہتر سنی جاتی ہے

اس کے برعکس پاکستانی تارکین وطن تین طرح کے کردار ادا کر رہے ہیں

ان میں سے کچھ تو پاکستان کے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے نمایندے بنے ہوئے ہیں

کچھ ہشیار پاکستانی ایسے ہیں جو “بڑے لوگوں” کے ساتھ ذاتی مراسم بنانے کے چکر میں ہیں

اور کچھ بد نصیب ایسے بھی ہیں جو اسلام کے نام پر چلنے والی خطرناک تحریکوں کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں

لیکن زیادہ ترپاکستانی مسلمان اپنے دینی جذبات کی وجہ سے مسجدوں اور کمونٹی سنٹروں میں اپنے بچوں سمیت حاضری دیتے ہیں جہاں عربی امام مسجد ان کا اسلامی تشخص بڑھا کر “مغربی تھذیب” سے نفرت میں مبتلا کرتے ہیں – اور یوں جدید انسانی معاشروں سے ہماری دوری کا عمل شروع ہوتا ہے جو آخر ہماری بیٹیوں کو حجابی اور بیٹوں کو جہادی بنا کر نفرت کے سفر پر روانہ کر دیتا ہے

دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی شناخت اور شریعت کے نام پر اکثرمسلمانوں کو اتنا اکسایا گیا ہے کہ وہ ان جدید معاشروں میں تیزی سے ناپسندیدہ بنتے جا رہے ہیں – مذھب کے نام پر ہونے والی اس جارحانہ سرگرمی کا ایک نہایت مکروہ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ معاشرے جو کل تک بے حد روادار تھے ، اب تیزی سے تعصب والی عیسائیت کی طرف پلٹ رہے ہیں – اور اس بات کا خطرہ بڑھ رہا ہے کہ شاید یہاں کا دایاں بازو بالاخر پاکستانی تارکین کے خلاف نئے قوانین کا مطالبہ کرے گا

عرب امپیریلزم کے منصوبہ سازوں کا ٹارگٹ یہی ہے کہ ایسے تصادم کے نتیجہ میں دنیا بھر کے مسلم عوام شدید نفرت کے بخار میں مبتلا ہو کر پکار اٹھیں کہ یہودونصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے – تاکہ جہاد آسان ہو جاۓ اور دنیا صلیبی جنگوں کے دور کو پلٹ جاۓ – یہ واحد رستہ ہے ، جس سے یہ جبّوں والے پسماندہ شکاری اپنی مسلم رعایا کو ، خاص طور پر ممسلم عورتوں کو ، جدید دور کے انسانی حقوق سے الگ کر سکیں گے

اپنے مستقبل اور اپنی اولادوں کے مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قدم کے طور پر ہم خود کو پاکستان میں پھیلنے والے نفرتی نظریات سے الگ کر لیں – ضروری ہے کہ ہم اس بات کا اعلان کریں کہ دین سب کا اپنے اپنے خدا سے معاملہ ہے ، کہ ہم دین کو فرد کا ذاتی عقیدہ مانتے ہیں ، یعنی مولوی اور امام کو اپنا رہبر و استاد نہیں مانتے – کہ طالبان اور داعش جیسی خلافت و قتال کی تحریکوں سے ہم الگ ہیں

جدید انسانی معاشرے جائز طور پر ہمارے معاشرے ہیں ، اور ہم نے اپنی خوشی سے انہیں چنا ہے – ان معاشروں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہمارا فرض ہے – یہاں موثر ہو کر شاید ہم پاکستان میں بھی نئے تعمیری افکار کو ابھرنے میں مدد دے سکیں

Comments

comments