ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بلوچستان میں نسل کشی کا شکار ہونے والوں کی شیعہ اور قاتلوں کی تکفیری دیوبندی شناخت کو چھپا کر کس کی خدمت کر رہا ہے – عامر حسینی
آج یوم شہادت علی ہے اور میں کل اس موضوع پر ایک تفصیلی بلاگ لکھ چکا اور آج بھی ساڑھے نو بجے مجھے یوم شہادت علی کی مناسبت سے منعقدہ ایک جلسے میں جانا ہے لیکن ابھی ابھی میری نظر سے انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ نظر سے گزری ہے جس میں اس نے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کی لہر میں اضافے کو خطرے کا نشان قرار دیتے ہوئے اسے
Sectarian and ethnic killing
قرار دیا ہے لیکن اس نے اپنی اس رپورٹ میں کسی بھی جگہ ہزارہ کمیونٹی کے قتل ہونے والوں کی شیعہ شناخت کا زکر بھولے سے بھی نہ کیا جبکہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے زمہ داروں کی شناخت پر ایک لفظ بھی لکھنے سے کمیشن ہمیشہ سے خاموش رہا ہے
اس رپورٹ میں کمیشن نے بھولے سے بھی تکفیری ، خارجی دہشت گردوں کو بطور عسکری اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے بھی زکر نہ کیا جس کا شور فیک لبرل بہت زور و شور سے اٹھاتے رہتے ہیں لیکن کمیشن کی جانب سے ایک گول مول بیان جاری کرنے کا نوٹس کسی جانب سے نہیں لیا گیا تو مجھے اس کا نوٹس لینا پڑا ہے
زرا سوچئے کہ آج کے دن کوئی کوفہ کا زکر کرے ، مسجد کوفہ کا زکر بھی کرے ، تلوار کا زکر کرے ، سر مبارک پر اس کے پڑنے کا زکر کرے ، محراب و منبر کے لہولہان ہونے کا زکر کرے ، آپ پر گریہ کرنے والوں کا نام لے ، آپ کے قتل کی مذمت کرے ، آپ کے دفن و کفن کی تفصیل بیان کرے لیکن اس سارے بیان میں وہ ابن ملجم کا زکر نہ کرے ، خوارج کا نام نہ لے ، ان کی آئیڈیالوجی کو بے نقاب نہ کرے ، وہ علی کے قتل کو عرب مسلم بزرگ کے قتل کے طور پر زکر کرے اور اس قتل کو فرقہ واریت کا نتیجہ قرار دے اور بھولے سے بھی قاتلوں کی شناخت کا تذکرہ نہ کرے اور ان قاتلوں کا نام لینے سے شرمائے تو کیا اسے علی دوست بیانیہ کہا جائے گا کیا ؟
بس یہی سوال ہے جو مرے زھن میں گردش کررہا ہے ، یاد رکھئے کوفہ شہر کا نام نہیں یہ زھنیت کا نام ہے اور یہ کوفی زھنیت ہے جو اپنے عروج پر ہے