اور مسند خالی ہوگئی – عامر حسینی
تمہیں میرا دور یاد آئے گا ، مرے اسرار مرے بعد تم پر منکشف ہوں گے تم مجھے اس وقت پہچانوگے ، جب مری مسند خالی ہوجائے گی میری جگہ کوئی اور آجائے گا رات کا آخری پہر تھا-سردی اپنے جوبن پر تھی-کوفہ کی گلیوں میں سناٹا چھایا ہوا تھا-دور کہیں سے کبھی کبھی کتّوں کے بھوں بھوں وقفے وقفے سے سنائی دے جاتی تھی-
ایسے میں کوفہ کے ایک محلے میں ایک سادہ سے بنے مکان کے صحن میں چراغ آخر شب جلتا تھا-اس مکان کے سارے مرد و زن لگتا تھا بہت جلد اٹھنے کے عادی تھے-صحن میں سب سےآگے سیاہ چادر اوڑھے ایک آدمی کھڑا تھا-اس کے پیچھے مرد و عورت صف باندھے کھڑے تھے اور سب سے آگے جو آدمی امامت کررھا تھا وہ کافی شیریں لحن تھا-اس کی آواز میں بہت درد تھا-لے پرسوز تھی اور اس کے لبوں سے یہ الفاظ نکل رہے تھے قل اعوذ بالرب الناس،ملک الناس و الہ الناس و من شرالوسواس الخناس ،الذی یوسوس فی الصدور الناس من الجنّۃ والناس الحمد للہ رب العالمین،الرحمان الرحیم،مالک الیوم الدین،ایاک نعبد و ایاک نستعین،اھدناالصراط المستقیم،صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولاالضالین یسن،والقران الحکیم،انک علی صراط مستقیم۔ جو آدمی تلاوت کررہا تھا اس کی آواز صحن سے باہر نہیں جارہی تھی-
صحن کے اندر ایک سماں بندھا ہوا تھا-تھوڑی دیر تک قیام،تلاوت ،رکوع ،سجود کا عمل چلا اور پھر اس سے فارغ ہوکر سب نے ہاتھ اٹھائے-جس آدمی نے امامت کرائی تھی اس نے یوں دعا کرنی شروع کردی ربنا اتنا فی الدنیا و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار،ربنا اغفرلی ولی والدی وللمومنین یوم الحساب،ربنا تقبل منا و تب علینا انک انت التواب الرحیم۔
دعا جاری تھی اور گریہ بھی-ساتھ ساتھ سب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی بھی جاری تھی-دعا سے فراغت کے بعد ایک عورت اٹھی اور اس نے سامنے پانی کے بھرے گھڑے سے پیالے میں پانی انڈیلا اور دو کجھوریں لیں اور لیکر امامت کرانے والے آدمی کی جانب بڑھی-اس نے پاس جاکر کہا اے میرے والد! یہ پانی اور کچھور لے لیں- مرد جس کی داڑھی میں مہندی کا خضاب تھا جو بہت گھنی تھی-سر سے بال صاف تھے-سفید رنگ کا لباس تھا اور شانوں پر کالے رنگ کی چادر تھی-قد درمیانہ تھا-پیٹ فربہی مائل تھا-آنکھیں کتابی تھیں-گندمی رنگ تھا-اس نے دو کجھور لیں اور ان کو کھالیا-پھر پانی پیا-
اس کے بعد کہنے لگا بیٹی زینب !باقی لوگوں کو بھی سحری کے لیے کھانے اور پینے کو دو- اس طرح سے جس کو زینب کہا گیا تھا بس نے باقی اہل خانہ کو بھی سحری کا سامان تقسیم کیا-سارے گھر نے پانی اور کجھور سے سحری کی-اور پھر سحری کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسی آدمی نے ہاتھ اٹھائے تو سارے اہل خانہ نے تقلید کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا دئے- الحمد للہ رب العالمین علی ہذا الطعام و شرب ۔
آج رمضان کی 19 تاریخ تھی-آہستہ آہستہ پورے کوفہ کے باسی جاگ گئے تھے-سب گھروں میں سحری کی جارہی تھی-کئی گھروں میں نوافل و تلاوت قران کا سلسلہ جاری تھا-جس مکان کےباسیوں کا حال اوپر بیان ہوا-وہ مکان مسلمانوں کے خلیفہ اور امام علی کا مکان تھا-جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم تھے-یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم ریاست کے بہت کم حصّے پر خلیفہ کی عملداری رہ گئی تھی-اکثر علاقے بغاوت کرنے والوں کے قبضے میں آچکے تھے-
یہ گھرانہ اپنے ہی قبیلے کے بہت سارے لوگوں کی حمائت سے محروم ہوچکا تھا-وجہ تھی علی کی اصول پسند زندگی-خلیفہ بننے کے بعد بھی علی نے مال و دولت سے رغبت نہ رکھی اور سب کے لیے معاش میں مساوات کا اصول متعارف کرایا-لوگوں میں طبقاتی خلیج کے خاتمے کے لیے اقدامات کئے اور سادہ طرز زندگی کو اپنا اصول بنالیا-جبکہ دوسری طرف تو مال لوٹانے کی روش تھی-امیر شام ایک محل میں رہتا تھا-اس کے احباب اور رفقاء کے پاس دولت کی ریل پیل تھی-اور اس نے عوام پر ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار کررکھی تھی-
وہ عوام کی بربادی کی قیمت پر اپنے اقرباء کو خوش رکھے ہوئے تھا-اس کی ساری سخاوت کا منبع عوام سے لوٹی دولت تھی-اور اس سخاوت کو دیکھتے ہوئے خود خلیفہ کے بھائی عقیل نے امیر شام کے دربار میں شرکت کرلی اور دین پر دولت کو ترجیح دے ڈالی- لیکن علی نے اپنی روش نہ بدلی اور وہ اپنے اصولوں پر چلتے رہے-ان کی زندگی کا نچوڑ ان کا تجربہ،مشاہدہ،علم تھا جو انہوں نے آخری رسول محمد علیہ السّلام کی رفاقت میں رہ کر حاصل کیا تھا-ان کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ محمد کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے-
محمد کی پرورش ان کے گھر ہوئی تھی اور ان کی پرورش محمد کے گھر ہوئی تھی-دونوں نے اکٹھے تحریک کا آغاز کیا تھا-علی کا بچپن،لڑکپن،جوانی کا جو عرصہ تھا وہی اسلام کے جنم،بچپنے،لڑکپن اور جوان ہونے کا عرصہ تھا-اور علی اس تحریک کے ہر سنگ میل کا اہم کردار تھا-اس لیے علی کے پاس یہ صلاحیت تھی کہ وہ زندگی کے اصولوں کو مرتب کرسکے اور ایک رول ماڈل پیش کرسکے- علی نے اپنے استاد محمد سے یہ سیکھا تھا کہ تقوی،پرھیز گاری،للہیت ،مذھبیت اور دین داری کا شہود انسان کی دنیاداری میں اگر نہیں ہوتا تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے-
وہ جانتے تھے کہ جب ایک انسان اللہ تعالی کے الہ ہونے کی گواہی سے پہلے باقی الہ کا انکار کرتا ہے تو اس سے مراد مٹی،گارے،پتھر،لکڑی کے الہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس میں نفس کا الہ باطل بھی ہوا کرتا ہے جس کا انکار بہت ضروری ہے-خواہشات نفسانی کے جہنم کو گلزار بناکر دکھانے والا الہ نفس وہ باغی و سرکش ہے جو شرک اکبر کے خاتمے کے بعد بھی سراٹھانے لگتا ہے-اور یہ وہ شرک ہے جس کے عود کرنے کا خطرہ محمد کو اپنے آخری ایام میں بھی تھا مدینہ میں ایک روز محمد کے مرض الموت میں کچھ کمی واقع ہوئی تو آپ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے-
اور اہل مدینہ میں اپنے اصحاب کو جمع کرلیا-اور ان سے کہنے لگے کہ مجھے تمہارے بارے میں یہ فکر نہیں ہے کہ تم میرے بعد پھر سے لات و منات کی پوجا کرنے لگو گے-مجھے یہ بھی ڈر نہیں ہے کہ تم میرے بعد پھر سے خدا کی خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگوگے-مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم میرے بعد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ ہوجاؤ اور ہر امت کے لیے ایک فتنہ یا آزمائش ہوا کرتی ہے-تمہاری آزمائش مال و دولت ہے-میں تمہیں اپنی عترت کے بارے میں خبردار کرتا ہوں-
تم سے اپنی خدمات کا کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں مگر صرف یہ کہ میری عترت سے مودّت سے پیش آنا-تم میں دو بھاری بھرکم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں-ایک میری قران اور دوسرا عترت-تم جب حوض کوثر پر مجھ سے ملو تو ان دونوں سے تمہارا تعلق منقطع نہ ہوا ہو- اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونماء ہوچکے تھے کہ جن سے علی نے یہ خیال کرلیا تھا کہ محمد کے بعد اس تحریک کی رھبری کے فرائض ان کو سرانجام دینے ہیں-اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ رھبری ایک فرض ہے جس سے ان کو تادم مرگ عہدہ براہ ہونا ہے-اس لیے علی کو کسی کی پسند ناپسند کی فکر نہیں تھی اور انہوں نے رھبری کے فرائض کی ادائیگی اپنے اوپر فرض کرلی تھی-
اور جو فہم اسلام اور فہم دین یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ زندگی کو گزارنے کا جو اسلوب اور جو ڈھنگ انہوں نے مکتب نبوی سے سیکھا تھا اس کو بیان کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ان کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تھی-ان کا علم محمد اور قران سے براہ راست تھا-اس میں کوئی واسطہ نہیں تھا-کوئی پردہ نہیں تھا-وہ محمد کی جلوتوں اور خلوتوں دونوں کے گواہ تھے-وہ محض شاہد ہی نہیں تھے بلکہ ان کے پاس تجزیہ،پرکھ،تفقہ،دقیقہ سنجی کا مادہ بی تھا-وہ راوی محض نہ تھے-بلکہ ان کو ہر واقعے اور ہر قول کے سیاق و سباق سے آگہی تھی-وہ قران کے نزول کے عینی شاہد تھے-بلکہ یہ نزول جن واقعات کے تناظر میں ہوتا تھا وہ اس کے مرکزی کردار بھی تھے-
اس لیے ان کو قران شناسی کا وہ ملکہ حاصل تھا جو کسی اور کو کہاں تھا-وہ سیرت محمدی کے سب سے ثقہ راوی تھے-کیونکہ سیرت محمدی اور سیرت علوی کے ماہ و سال میں بہت سے ماہ و سال مشترک تھے-وہ قران اور سیرت محمدی دونوں کے سب سے بڑے شناسا بھی تھے اور ان دونوں کے سب سے کامل پرتو بھی تھے-اسی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ اسلام کے اندر عقائد اور اعمال کے درمیان کیسا نامیاتی رشتہ ہے-اور ان کا یہ ماننا تھا کہ “جنت اور جہنم اصل میں انسان کے اعمال سے تشکیل پاتی ہیں-وہ ان کی تخلیق اسی دنیا میں اپنے اعمال سے کرتا ہے-
اور وہ قول کو جب عمل سے متضاد کرلیتا ہے تو ایک طرف واپس شرک کی جانب لوٹتا ہے-اپنے نفس کو الہ ماننے کی طرف قدم بڑھاتا ہے-ایسے میں وہ اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اگر وہ قران کی جانب بھی لوٹے تو اس کا مطلب بھی وہی اخذ کرتا ہے جو اس کا نفس اس کو بتلاتا ہے” علی کو اس وقت اندازا نہیں تھا کہ محمد بار بار جب موقعہ ملتا ہے تو اپنے اصحاب کو جمع کرکے کیوں بار بار قران اور عترت سے وابستہ رہنے اور جرج یعنی خون خرابے سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں-محمد کی اس فکر کے پس منظر سے آگاہی علی کو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ملی اور اس لیے انہوں نے رھبری کے مشکل ترین فریضے کو نبھانے کا فیصلہ کرلیا- تاریخ ہمیں ایک اور واقعے کی خبر بھی دیتی ہے-
اور وہ واقعہ فتح مکّہ کے بعد کاہے-جب محمد مکّہ میں ہیں-اور وہ مولئفۃ قلوب کو اور اہل قریش کو زیادہ مال و دولت دیتے ہيں-ایسے میں انصار کے دلوں میں خدشات ابھرتے ہیں کہ کہیں محمد اب مکّہ میں تو نہیں رہ جائیں گے-اور محمد اہل انصار کی کیفیت کو بھانپ جاتے ہیں اور ان سے خطاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اہل مدینہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ اہل قریش کے پاس دنیا کی دولت رہ جائے اور تم محمد کر لے جاؤ یہ بات سنکر انصار کے چہرے کھل اٹھے تھے-اور محمد ان کے ساتھ واپس آئے اور ان کے درمیان ہی انہوں نے وصال کیا-
اس واقعے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ محمد کا مدینہ واپس آنا اور وہیں پر انصار کے درمیان فوت ہونا اور مدینہ سے نکل کر مسلمانوں کا مکّہ کی جانب جاتے ہوئے نمازوں کو مسافر کی طرح ادا کرناعلامت تھا کہ اسلام کی روح اور مغز کے اول و آخر شناسا وہ ہیں جنہوں نے رفاقت مصطفی میں فتح مکّہ سے پہلے وقت گزارا اور وہ ہر طرح کے حالات میں محمد کے ساتھ رہے-پھر انہی دنوں خود قران نے بھی فتح مکّہ سے پہلے ایمان لانے والوں اور جہاد و انفاق کرنے والوں کو بعد والوں پر فوقیت دی-اسی طرح بدر کی جنگ اول میں شرکت کرنے والوں کو بعد والوں سے زیادہ افضل قرار دیا-اس کلیے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی علی رھبری کے لیے سب سے موضوع آدمی خیال کئے جاتے تھے-
رھبری رفاقت،علم،تقوی،تحریک میں کردار اور صلاحیت جیسے عوامل سے ملکر متشکل ہواکرتی ہے-اور یہ اصول محمد نے بنایا تھا-کیونکہ اہل قریش کے ہاں سن رسیدگی بزرگی کی علامت ہواکرتی تھی-وہ زیادہ عمر والوں کو ندوہ میں بٹھاتے تھے-جبکہ محمد نے اپنے لشکروں کی قیادت نوجوانوں کے سپرد کی-اور انہوں نے منصب گورنری علی اور معاذ کو کم عمری میں دی-انہوں نے مدینہ کا نگران علی کو بنایا-اور پھر حج کے موقعہ پر سورہ برات دےکر علی کو بھیجا-عمر رسیدگی کو انہوں نے نظرانداز کیا-اسامہ کو لشکر کا سپہ سالار بنایا-
ان مواقع پر مہاجرین میں جو مکّہ کے کلچر کے اثرات سے ابھی باہر نہیں آئے تھے انہوں نے وہی طریق اپنانے کی کوشش کی جوکہ اہل قریش کے مکّی سماج میں رائج تھے-مگر محمد نے اس کی اجازت نہ دی-اگر اس سماج کی اجتماعی ذھنیت کے حوالے سے ایک تاریخی مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اسلامی تحریک جس کلچر اور جس فکر کو اجتماعی روح کا حصّہ بنانے جارہی تھی اس کو سب سے بڑا چیلنج ان لوگوں سے تھا جن کی اس تحریک میں شرکت کو کم مدت ہوئی تھی-وہ اپنے ساتھ پرانے طور طریقوں اور رواجوں کو ساتھ لیکر آگئے تھے-
اور ان کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ معاشرے میں بکریاں چرانے والے بنی تمیم کا ایک لڑکا نمایاں مقام کا حامل ہوجائے-وہ اسلام کی تحریک کے اولین کرداروں کے سماجی و معاشی پس منظر سے خاصے بے چین تھے-ان کو یہ اپنی نجابت و نسب و جسب کے خلاف ایک توھین والا عمل لگتا تھا-پھر ان کے ہاں عربیت کے سب سے بہتر ہونے کا جو زعم تھا اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں تھی-لیکن وہ تو عراق،ایران،یمن،وسط ایشیا،مصر سے اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے-پھر ان کو برابری،مساوات اور انسانیت کے مشترکہ وصف کا ادراک تک نہ تھا-اصل میں تحریک کی بنیاد نہ تو قبیلے کی شناخت پر تھی-نہ نسب پر،نہ ہی حسب پر،نہ خون یہاں بنیاد تھا-نہ جنس بنیاد تھی-
نہ ذات تھی،نہ نسل تھی-نہ خطہّ تھا-یہ جو قبیل داری سماج کے سب سے مراعات یافتہ طبقات تھے اور قبیل داری نظام سے فائدہ اٹھانے والے تھے ان کو یہ تحریک اول دن سے سمجھ نہیں آرہی تھی-ان کو محمد پر غصّہ تھا-کہ وہ غلام،یتیم،بیوہ،غریب،اپنے قبیلے اور وطن سے بے وطن ہونے والوں اور اشراف سے آنے والوں کو ایک شناخت اور اخوت کے رشتہ میں پیروتا ہے-اخوت تو قبیل داری سماج میں ایک قبیلے کے لوگوں یا دو حلیف قبیلوں کے درمیان ہوسکتی تھی-مگر محمد نے اخوت اور برادری کے معنی ہی تقسیم کرڈالے تھے-اہل قریش نے محمد کو بطور ایک مسیحا اور ایک نجات دھندہ کی شکل میں دیکھنے کی بجائے ان کو ایک قریشی اور اس سے نیچے آکر ایک ہاشمی اور اس سے بھی نیچے آکر آل عبدالمطلب کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی-اور ان کو محمد کے طور طریفے الگ محسوس ہوئے-انہوں نے بنو ہاشم سے اپنی چتقلش کو محمد کے اندر بھی دیکھنے کی کوشش کی-بنو امیہ کے سرداروں کی اس روش سے ہم اندازا لگاسکتے ہیں کہ انہوں نے بعد از وفات محمد کیوں وہ راستہ اختیار کیا جس کے خلاف اسلام کی تحریک کا ظہور ہوا تھا-
علی نے تحریک کی روح کو بچانے کے لیے رھبری کے فریضہ کو اپنایا-اور انہوں نے مکّی سرداروں کے چلن اور ان کی سوچ کا بخوبی اندازا لگالیا تھا-اور وہ تحریک کے بعض پرانے سپاہیوں کے اندر پرانے مرض کے عود کرآنے کے خطرے سے بھی آگاہ تھے-اسی لیے ان کی جانب سے احتجاج اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رہا-اور انکو حالات نے مجبور کیا کہ وہ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں- علی نے اقتدار اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ وہ پہلے سے موجود ایک مراعات یافتہ طبقے( جس کا جنم حضرت عثمان کے دور میں ہوا تھا اور اس کے مقابلے میں احتساب کی تحریک کھڑی ہوگئی تھی-)کے مقابلے میں اپنا ساتھ دینے والوں کے اندر ایک نیا مراعات یافتہ طبقہ تیارکردیں-
اور ان کو لوگوں کے استحصال کی کھلی چھٹی دے ڈالیں-نہ ہی وہ اپنے عمال اور گورنروں کو شتر بے مہار بنا سکتے تھے-وہ اس کے برعکس پورے سماج سے اقرباء پروری کے کلچر کا خاتمہ کرنے پر تل گئے تھے-مساوات ان کے ہاں ایسا اصول تھا جس کی رو سے وہ فضیلت کو میعار نہیں ٹھہراتے تھے-
یہاں معاش کی ضرورتیں معیار تھیں اور اس میں ایرانی،مصری و خراسانی و عربی میں کوئی فرق نہیں تھا-جبکہ بہت سارے عراقی،مصری،ایرانی،مدنی و مکی ایسے تھے جو یہ سوچ رہے تھے کہ اقتدار ان کی حمائت سے علی کے پاس رہا تو وہ بھی مراعات یافتہ ہوجائیں گے-لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا-علی نے گورنر اور عمال مقرر کرنے کا سخت معیار طے کیا-اور پھر انہوں نے وسائل کی بندر بانٹ کو بھی سختی سے بندکرڈالا-لیکن پرورے سماج میں دولت اور نفسانی خواہشات کی پیروی کا کلچر عام ہوچکا تھا-ایسے میں علی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بنتی چلی گئی-
اور ان کی تنہائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا-علی اور ان کے اہل خانہ بے گانگی اور تنہائی کی منزل سے پہلی مرتبہ آشنا نہیں ہورہے تھے-ایک زمانہ تھا جب علی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کیسے محمد،آل ابی طالب و دیگر رفیقان و ہمدردان محمد کو شعب ابی طالب میں قید کردیا گیا تھا-اور یہاں مصائب کا شکار ہوکر ابی طالب و خدیجہ چل بسے تھے-پھر علی نے دیکھا تھا کہ کیسے ان پر اور ان کے خاندان سے وفات محمد کے بعد اہل مدینہ کی اکثریت نے سلام دعا ترک کرڈالی تھی-اور ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا-
لیکن علی اور ان کے اہل خانہ حق پر قائم رہے-اور پھر جب مدینہ سے کوفہ آئے تو رفتہ رفتہ یہاں بھی تنہائی کا عمل شروع ہوگیا-لیکن علی نے اپنا راستہ ترک نہ کیا-انہوں نے انحراف کو ناگزیر قرار دینے اور حرام رستوں سے حلال مقصد کو حاصل کرنے کے مشورے کو سرے سے رد کرڈالا- اصل میں علی کی تنہائی کا سبب منافقت کو رد کرنا تھا-انہوں نے موقعہ پرستی کے کلچر کو لات ماردی-میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ علی کو اپنے وقت کے ترمیم پسندوں اور نام نہاد سوشل ڈیموکریٹس کا سامنا تھا-ان کو کہا جارہا تھا کہ انقلاب کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کردیا جائے اور ایسا رستہ اپنالیا جائے کہ جس میں اجتماعیت اور سب سے عدل پر زور نہ ہو-
گویا اسلامی تحریک سے جس سماجیات نے جنم لیا تھا اس کو بالغ ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے- ان اپنی عمل داری میں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو ایک طرف تو امیر شام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے-وہ ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ امیر شام کی جانب سے تحریک بس چند ایک مطالبات پر مبنی ہے-اگر کوشش کی جائے تو یہ لڑائی ختم ہوسکتی ہے-وہ بنا لڑے جیت جانے اور آرام سے بیٹھکر ثمرات لینے کے خواہاں تھے-جبکہ علی امیر شام کو بھی جانتے تھے،اہل قریش کو بھی-وہ ان سارے کرداروں سے واقف تھے جو عثمان کے کرتے کو پہننے کی جلدی میں تھے اور ان پر حملے کے وقت گھروں میں بیٹھے رہے اور بعد میں قصاص کے نعرے بھی لگانے لگے تھے-
وہ ان تمام کرداروں سے شناسا تھے جو “نفس “کو الہ مان بیٹھے تھے-یہی وجہ ہے کہ علی نے ان کو باور کرایا کہ وہ فریب میں مبتلاء ہیں-امن ایسے نہیں آئے گا-وہ چاہتے تھے کہ اہل شام سے چھوٹی چھوٹی جھڑپیں کرنے کے فیصلہ کن معرکہ لڑا جائے-اور اسی کے لیے وہ اہل عراق کو تیار کررہے تھے- اس قدر خراب حالات میں بھی جبکہ علی خود ان کا زکر بار بار کرتے تھے انہوں نے بڑے لشکر کی تیاری شروع کردی تھی-اور یہ لشکر ترتیب پانے کے قریب تھا-وہ ایک فیصلہ کن جنگ امیر شام سے لڑنے کے خواہاں تھے-انہوں نے رجب سے اپنے خطبات کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا-
اور اب رمضان کی 21 تاریخ آگئی تھی-وہ پرامید تھے کہ اب کی بار جو معرکہ ہوگا وہ فیصلہ کن ہوگا-باطل کی جڑ کٹ کر رہے گی- وہ سحری کے بعد اذان کی آواز سنکر گھر سے نکلے-اور جامع مسجد کوفہ میں پہنچ گئے-فجر کی نماز کے لیے اقامت کہی گئی-اور انہوں نے امامت کرانا شروع کی-دوران نماز ہی ابن ملجم خارجی نے زھر سے بنی تلوار کا وار آپ کے سر پر کیا-اور رھبری کرنے والے امام کی زندگی کے سفر کو اپنی طرف سے حد تمام کی جانب روانہ کرڈالا- علی شدید ضرب کے باوجود ہوش میں تھے-اور آپ نے اپنے آپ کو مکمل کنٹرول کررکھا تھا-ان کا آحری وقت آن پہنچا تھا-اور میں نے بہت عرق ریزی سے یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ وہ آخری وقت میں سکر موت طاری ہونے سے قبل کیا کررہے تھے-
ان کو کس چیز کی فکر تھی-اور کیا خیالات ان پر غلبہ کئے ہوئے تھے؟تاریخ کی تمام کتب بتاتی ہیں کہ علی نے اپنے قاتل سے بھی انصاف کرنے کی تلقین کی-اور ابن ملجم کے قاتلانہ حملے کے بعد وفات سے کچھ دیر پہلے انہوں نے اپنے گرد لوگوں سے ایک گفتگو بھی کی-جس کو میں یہاں درج کررہا ہوں اے لوگو!ہر آدمی موت سے فرار اختیار تو کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسی مہمان ہے جس سے ملاقات کرنی پڑتی ہے-ہم جس مدت زندگی کو آگے کا سفر خیال کرتے ہیں وہ تو ہمیں موت کی جانب لیجارہا ہوتا ہے-ہم زندگی کی رسی کو جتنی بھی دراز کرلیں موت نفس کے فریب ترہوتی جاتی ہے-
میں نے زندگی کے کتنے دن اس راز کو پانے میں صرف کرڈالے-لیکن میں نے یہ جان لیا کہ خدا نے اس راز کو یعنی موت کے دن اور وقت کو تم سے راز ہی رکھا ہے-یہ علم مخزون ہے-تو میری تم سب کو یہ وصیت ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ،اور محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کی کسی بھی سنت کو ضايع مت کرو،ان دونوں ستونوں کو یعنی توحید اور سنت کو قائم رکھو-یہ دونوں چراغ ہمیشہ روشن رکھو،جب تک تم ان دونوں سے دور نہ ہوں اور اس بارے گمراہ نہ ہوں تو کسی کو تم پر سرذنش کرنے کا حق نہیں ہے-تمہارا رب بہت رحیم ہے-اس نے ہر کسی کو اس کی استعداد کے مطابق مکلّف کیا ہے-اور نادان پر اس نے کم بوجھ ڈالا ہے-تمہارا دین بہت سیدھا ہے-اور تمہارا امام علیم ہے-کل تک میں تمہارا ساتھی تھا-
آج تمہارے لیے پندوعبرت ہوں-اور آنے والے کل میں تم سے جدا ہوجاؤں گا-اللہ میری بھی مغفرت فرمائے اور تمہاری بھی-اس لغزش گاہ میں اگر میرے قدم ثابت رہے تو یہ تمہاری منزل ہے اور اگر میرے قدم لڑکھڑا گئے (اگر زندہ رہا تو یہ تمہاری تمنا ہے،مرگیا تو کوئی بات نہیں)تو کوئی بات نہیں- کیونکہ ہمارا سفر زندگی ایسے ہے جیسے ہم شاخوں کے سایوں میں رہتے ہوں-جو کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں-ہم تو ہواؤں کی گزر گاہ میں تھے-جن کے جھونکے ادھر ادھر ہوتے رہتے ہیں-اور ایسے ابر کے سائے میں تھے کہ جو فضاء میں پھٹ گئےاور زمین پر جن کا نقش مٹ گیا- میں تمہارا ہمسایہ تھا ،میرا بدن کچھ عرصہ تمہارا ساتھی رہا-بہت جلد تم میرے بدن کو بے حس و حرکت دیکھو گے جبو پہلے حرکت کرتا تھا-
پہلے گویا تھا اب خاموش ہے-کتنا اچھا ہو اگر تم میری خاموشی اور میرے اعضاء کے سکون سے نصحیت حاصل کرو کیونکہ یہ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے اچھا وعظ اور بلیغ منطق ہے-اور سننے والے کے یے موثر تقریر ہے- میرا تم سے فراق اس شخص کی طرح کا فراق ہے جو کل پھر تم سے ملاقات کا منتظر ہوگا-آنے والے کل میں تم میرے عہد کو یاد کروگے-اور میرا باطن اور میرا راز تم پر منکشف ہوگا(جب بنو امیہ کی سختیاں جھیلوگے)جب میری جگہ دوسرا آجائے گا-اور میری مسند خالی ہوجائیگی تب تم مجھے پہچانوگے-
علی یہ وصیت کرنے کے تھوڑی دیر بعد خالق حقیقی سے جاملے تھے-اور ایسے میں پاس ایک مرتبہ پھر زینب تھی-زینب کو یاد آرہا تھا کہ کیسے وہ ننھی سی تھی جب اس کے نانا فوت ہوئے تھے اور سارے مدینہ والے ثقیفہ میں چلے گئے تھے-یہ محمد کے گھر والے تھے اور علی و فاطمہ تھے جنہوں نے تجہيز و تکفین کی تھی-اور پھر اماں فاطمہ کی وفات ہوئی تو ان کی تدفین بھی رات کے اندھیرے میں خاموشی سے کی گئی تھی-اور آج بابا علی تھے جو کوفہ میں مدینہ سے سینکڑوں کوس دور فوت ہوگئے تھے-جنازہ گھر میں موجود تھا-تدفین پر مشورے ہورہے تھے-
دو بڑے خطرات تھے-ایک خارجی اور دوسرا اہل شام کے ہرکارے-جن سے خطرہ تھا کہ قبر کھود نہ ڈالیں اور لاش کی بے حرمتی نہ کریں-تاریخ کہتی ہے کہ رھبر اسلام اور امام الائمہ کی قبر کو اہل بیت نے چھپاکررکھا-اور یہ راز سینہ بسینہ یونہی آگے منتقل ہوتا رہا-صرف امام علی کی قبر ہی نہیں بلکہ ایک زمانے تک اہل بیت کی قبروں کو ایک سربستہ راز رکھا گیا- یہ قبروں کی حفاظت سے کہیں زیادہ ایک تاریخ،ایک ورثہ اور ایک علامت کی حفاظت تھی-
ایک ایسا جادوئی منتر ان علامتوں سے جڑا ہوا تھا کہ جس سے آشنا ہونے والے تاریخ کے مسخ کرنے والوں کے چہرے فوری طور پر پہچان لیتے ہیں- علی ،محمد کے بعد اسلامی تحریک کے سب سے بڑے گواہ اور شناسا تھے-اور انہوں نے اپنی گواہی اور شناسائی کو کبھی مصلحتوں کی نظر نہیں ہونے دیا-انہوں نے معاشرے میں عدل اور انصاف و مساوات کو عقیدے کا جزو قرار دیا-اور عدل،انصاف اور مساوات کو ایک عالمگیر سچائی اور اصول بنایا-اس کا مطلب تھا کہ ان اقدار کے نفاز کا مطلب ان کے ثمرات سب تک پہنچانے ہیں چاہے وہ کسی مذھب،کسی عقیدے،کسی رنگ،کسی نسل،کسی ذات،کسی فرقہ اور کسی خون سے تعلق رکھنے والے ہوں-یہ ایک ایسی سچائی تھی جو عربی و عجمی ،قریشی غیر قریشی ،اموی و تمیمی کا فرق کرنے والوں کو کبھی ہضم نہ ہوئی-لیکن یہ سچائی اپنی جگہ موجود ہے-
آج المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو آل سعود ،صہیونیت اور سامراجیت نے ملکر اسلام کی اس سچائی کو پراگندہ کرڈالا ہے-وہ سرمایہ دارانہ بربریت کے ساتھ اس سچائی کو اپنی خون خواری سے گدلا کرچکے ہیں-جبکہ دوسری طرف ایسے مہاجنی شیعہ بھی ہیں جن کے ہاں سیم و زر ہی سچائی کے پیمانے ہیں-وہ علی اور مکتب اسلام کے نام پر سیاہ حاشئے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں-دیکھا جائے تو سچائی کے قاتلوں نے سچے ہونے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے-
اور ہماری عوام کی اکثریت ابھی تک ان ڈھونگیوں کے ڈھونگ کو سچ خیال کررہی ہے امام علی کے زمانے میں بھی ایسے ڈھونگیوں کو کامیاب ، زیرک و دانا خیال کئے جانے کا رجحان ترقی پکڑ گیا تھا ، امیر شام جس طرح سے لالچ و فریب دے کر لوگوں کو ساتھ ملاتا تھا ، اسے لوگ زیرکی اور دانائی خیال کیا کرتے تھے اور امام کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اس زیرکی کو جانتے نہیں ہیں ، امام نے اس حوالے سے ایک خطبے میں کہا تھا کہ لوگو! تم امیر شام کو مجھ سے زیادہ زیرک خیال مت کرو ، مگر اس کی زیرکی ہے کیا ؟ فجور اور غداری –
یہ بے وفائی ہے جس سے فجور نکلتا ہے اور یہ فجور ہے جو کفر ظاہری کی طرف لیجاتا ہے اور یہ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے پوتے امام سجاد تھے جنھوں نے کہا تھا کہ کوفہ کسی شہر کا نام نہیں بلکہ ایک ذھنیت کا نام ہے علی کا یہ سچ عالم گیر سچ ثابت ہورہا ہے کہ جب سچائی کا علمبردار مسند خالی کرجاتا ہے تو اس کو پہچانا جاتا ہے سماج سے ایک ایک کرکے سچائی بیان کرنے والے رخصت ہوتے جاتے ہیں-
اور سب کی تنہائی کا زمہ دار یہ سماج ہے –عجب بات ہے کہ تنہا کردئے جانے والوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی روش سے تنہا ہوئے-اور قتل ہونے پر سچے آدمیوں کے لیے اب یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ برے کام کا برا انجام اب بھلا سچ بولتے ہوئے اور اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانا ایسے ہی جیسے کوئی اسمگلنک کرتا ،ڈاکہ ڈالتا مڈ بھیڑہونے سے مارا جائے- آج کے زمانے میں علی شناسی کا مطلب آخر میں ایک سوال جو میں نے اپنے آپ سے علی شناسی کے موضوع پر یہ مقالہ تحریر کرتے ہوئے کیا تھا اور اب اس کو بھی یہاں درج کرتا جاتا ہوں- سوال یہ ہے کا آج کے زمانے میں علی شناسی کا مطلب کیا ہے؟
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ماضی میں آج سے کئی صدیاں پہلے کے امویوں کی مذمت کریں-ان پر لعنت کریں-اور اس زمانے کے طالموں اور استحصال کرنے والوں کے خلاف بولتے رہیں-کیا علی شناسی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس زمانے کے مظلوموں کے لیے آہ و بکاء کریں-اور ان مظلوموں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتیں رہیں-جبکہ جو آج کے ملوک ہوں-استحصال کرنے والے ہوں-آج کے ظالم ہوں ان کے بارے میں کوئی بات نہ کریں-نہ تو مزاحمت کریں-
نہ لڑیں-بلکہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے نہ ہونے کے بہانے تراشیں-تو ایسے رویوں کے حامل گروہ یا افراد کو علی شناس کہا جاسکتا ہے؟میرا جواب نفی میں ہے-میرے نزدیک ایسے لوگ علی شناس نہیں بلکہ موقعہ شناس ہیں-اور وہ انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام درج کرانا چاہتے ہیں-جبکہ علی شناسی کا مطلب یہ ہے کہ آپ عصر حاضر کے استحصالی کی پہچان کریں اور اس کے خلاف کمربستہ ہوجائیں تبھی ماضی کے علی کرم اللہ وجہہ کے دشمنوں سے آپ کی نفرت معنی رکھے گی اور علی سے آپ کی محبت میں خلوص نظر آئے گا
میں یہ مضمون لکھ چکا تو کچھ اور مضامین بھی زھن میں آگئے اور سوچا کہ ان کو بھی اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ضرور شئیر کروں رمضان المبارک کی رات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت ہوئی اور یہ رات صوفیاء کرام کے نظریہ کو اگر ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ان سے محبت اور نسبت رکھنے والوں کے لئے دکھ اور غم کی رات تھی تو ان کے لئے یہ ” عرس ” کا لمحہ تھا ، وصال یار کا لمحہ تھا ، مجھے یہاں پر خود جناب علی المرتضی کی حضرت فاطمہ کے وصال کے فوری تدفین کے موقعہ پر آپ نے جو فرمایا اس کے بارے میں راوی کہتا ہے کہ روی عنہ انّہ قالہ : عند دفن سیدۃ النساء فاطمۃ علیھا السلام : کالمناجی بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عند قبرہ آپ سے روایت کیا گیا کہ آپ نے عورتوں کی سردار فاطمہ سلام اللہ علیھا کی تدفین کے موقعہ پر ارشادات ایسے فرمائے جیسے آپ رسول اللہ سے ان کی قبر انور پر کھڑے ہوکر مناجات کررہے ہوں السلام علیک یارسول اللہ عنّی و عن ابنتک النّازلۃ فی جوارک و السّریعۃ اللحاق بک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری اور اپنی بیٹی کی جانب سے سلام قبول فرمائیے جو آپ کے جوار میں آگئی ہیں اور بہت جلد ہی آپ کے ساتھ آملی ہیں
قلّ یارسول اللہ عن صفیّتک صبری و رقّ عنھا تجلدی الّا آنّ لی فی التّاسی بعظیم فرقتک و فادح مصیبتک موضع تعزّ یارسول اللہ میرا صبر آپ کی بیٹی کی جدائی سے کم ہوگیا ہے اور میری طاقت و توانائی ان کی جدائی کے سبب جاتی رہی ہے ، اور میں نے آپ کی جدائی پر بھی صبر سے کام لیا تھا اس خطبے میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون لیکن جب آپ کو ابن ملجم تلوار کے وار سے زخمی کرتا ہے تو آپ مسرت کے ساتھ پکارتے ہیں کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا
نہج البلاغہ اور دیگر کئی کتب میں درج ہے کہ 19 رمضان المبارک صبح کی نماز سےتھزری دیر پہلے آپ کے ساتھ کیا ہوا خود ان کی زبانی سن لیں ملکتنی عینی و انا جالس فسنح لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم فقلت یارسول اللہ مازالقیت من امتک من الاود واللداد فقال ادع علیھم ، فقلت ابدلنی اللہ بھم خیرا منھم و ابدلھم بی شرّا لھم منی میں بیٹھا ہوا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی تو رسول کریم کی زیارت ہوگئی ،
تو میں نے ان سے عرض کی یارسول اللہ ! میں نے آپ کی امت کی اپنے سے کجی و عدوات دیکھ لی رسول اللہ نے فرمايا ان کے لئے بدعا کرو ميں نے کہا کہ اللہ ان کے بدلے میں مجھے خیر والے لوگ اور مرے بدلے ان کو شریر ترین لوگ دے ڈال آپ نے ایک جگہ فرمایا واللہ ما امیر الشّام بادھی منّی ولکنّہ یغدر و یفجر اللہ کی قسم امیر شام مجھ سے زیادہ زیرک نہیں لیکن وہ بے وفا و نافرمان ہے ولولا کراھیۃ الغدر لکنت ادھی النّاس اور اگر بے وفائی مکروہ نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زیادہ زیرک ہوتا ولکن کل غدرۃ فجرۃ لیکن بے وفائی فجور کا نام ہے و کلّ فجرۃ کفرۃ اور ہر فجور اصل میں کفر مجازی ہے و لکلّ غادر لواء یعرف بہ یوم القیامۃ اور ہر ایک بے وفاء و غدار کے لئے قیامت کے روز ایک خاص جھنڈا ہوگا
اور وہ اس سے ہی پہچانا جائے گا واللہ ما استغفل بالمکیدۃ ، ولا استغمز بالشدیدۃ امام علی کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ انھوں نے سخت بے اصولی اور بے راہروی کے طوفان میں بھی بے اصولی سے کام لینے سے انکار کیا اور جب اعصاب پر بے پناہ دباؤ ڈالا گیا کہ کسی طرح سے آپ بلند اقدار سے منحرف ہوکر اپنے مخالفین کی بے اصولی کا کلچر اپنالیں لیکن آپ نے بے پناہ حوصلے اور صبر کے ساتھ اپنے اعصاب کو شکستہ ہونے سے بچایا اور پہاڑ کی طرح سختی سے اپنے کوڈ آف لائف کے ساتھ جڑے رہے کتنا ہی بے اصولی ، اخلاقیات کا جنازہ آپ کے مخالفین نکالتے رہے لیکن آپ نے ان جیسا ” زیرک پن : اپنانے کی کبھی کوشش نہ کی ،
اسی لئے آپ نے بہت واضح کیا ہے کہ حق کا راستہ باطل زرایع سے اختیار نہیں کیا جاسکتا وقد سمع قوما من اصحابہ یسّبون اھل الشام ایاّم حربھم بصفین ، آپ نے صفین کی جنگ کے زمانے میں اپنے ساتھیوں کے ايک گروہ کو اہل شام کو گالی دیتے سنا قال علی المرتضی للاصحابہ انّی اکرہ لکم ان تکونوا اسّبابین میں تمہارے لئے اسے پسند نہیں کرتا کہ تم اہل شام کو گالی دینے والوں میں شمار ہوں ولکنّھم لو وصفتم اعمالھم و وکرتم حالھم کان اصوب فی القول و ابلغ فی العذر مگر تم ان کے اعمال کا بیان کرو اور ان کی حالت بے نقاب کرو تو یہ قول ٹھیک ہے اور مقام عذر میں یہ سب سے زیادہ بلیغ تر ہے و قلتم مکان سبکم ایّاھم
اور ان کو سب و شتم کی بجائے ان سے سے یہ کہو اللھم احقن دماءناء و دماھم اے اللہ ہمارا اور اور ان کا خون بہانے سے رک جانے کی سبیل پیدا کر واصلح زات بنینا و بینھم اور ان کے اور ہمارے درمیان صلح کرادے و اھدھم من ضلالتھم حتّی یعرف الحقّ من جھلہ و یرعوی عن الغّی و العدوان من لھج بہ آپ پر جب ابن ملجم نے حملہ کرکے آپ کو شدید زخمی کردیا تو سکرات موت طاری ہونے سے پہلے آپ نے ایک وصیت فرمائی اور اس وصیت کے آخری الفاظ یہ تھے داع امریء مرصد للتلاقی مری تم سے جدائی اس شخص کی طرح ہے جو کل پھر تم سے ملنے کا منتظر ہو غدا ترون ایّامی آنے والے دنوں میں تمہیں میرا دور یاد آئے گا یکشف لکم عن سرائری مرے اسرار تم پر منکشف ہوں گے تعرفوننی بعد خدّو مکانی و قیام غیری مقامی تم مجھے اس وقت پہچانوگے جب میری مسند خالی ہوجائے گی اور دوسرا میری جگہ لے گا
Source:
http://voiceofaamir.blogspot.de/2015/07/blog-post_8.html