پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، رینجرز کی مثلث اور رینجرز کے اختیارات میں ایک ماہ کی توسیع – خرم زکی
آخر کار، بہت بات چیت، بحث مباحثہ کے بعدقائم علی شاہ کی سابق صدر زرداری سے ملاقاتوں کے بعد، ڈی جی رینجرز بلال اکبر کی ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کے بعد، رینجرز کو ایک مہینے کے لیۓ اختیارات (چھاپے اور گرفتاری) میں توسیع مل گئی وہ بھی اس شرط کے ساتھ کے اب یہ معاملہ سندھ اسمبلی میں جائے گا، وہاں زیر بحث آۓ گا کیوں کہ ١٨ویں ترمیم کے بعد صوبے زیادہ خود مختار ہیں اور امن و امان صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے وفاق کے نہیں. یہ توسیع، جو بالکل آخری وقت میں دی گئی اور صرف ایک مہینے کے لیۓ دی گئی اور اس کے لیۓ سابق صدر زرداری نے سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ کو رات ١١ بجے ہدایات جاری کیں، اپنے اندر کچھ بہت ہی واضح پیغامات رکھتی ہے, جس کا اظہار سابق صدر زرداری کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ “سول ملٹری تعلقات میں بہتری کی ضرورت ہے.” پہلی بات جو بہت واضح ہے وہ یہ کہ معاملہ کو آخری گھنٹے تک طول دے کر زرداری صاحب نے اپنے muscles شو کیۓ ہیں اور یہ جتایا ہے کہ سندھ میں رینجرز کی موجودگی حکومت سندھ کی مرہون منت ہے اور حکومت سندھ رینجرز کی خدمات کے عیوض ہر رینجرز اہلکار و افسر کو اس کی تنخواہ کے برابر اضافی سکیورٹی الاؤنس دے رہی ہے جس کا بوجھ حکومت سندھ کے خزانے پر پڑتا ہے. آخری وقت میں کیۓ جانے والی فیصلے سے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ صوبے کی competent اتھارٹی صوبے کا وزیر اعلی ہے نہ کہ کوئی اور. اس مسلہ کو سندھ اسمبلی میں بھیج کر صوبائی خود مختاری کی بھی بات اٹھا دی گئی ہے اور گویا یہ بتایا گیا ہے کہ وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتا اور ساتھ ہی ساتھ اس توسیع کے معاملے کو یوں لٹکا بھی دیا گیا ہے کہ اگر آگے بات نہیں بنتی اور رینجرز کی اپنے دائرہ کار (یعنی ایم کو ایم کے خلاف آپریشن) سے آگے مداخلت جاری رہتی ہے تو سندھ اسمبلی کو استعمال کر کے اس توسیع کے پر کاٹ دیۓ جائیں
ان تمام چیزوں کو ماضی قریب میں رو نما ہونے والے واقعات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے. زرداری صاحب کو شروع سے یہ احساس تھا کہ بظاہر ایم کو ایم کے خلاف شروع ہونے والا آپریشن ان کی حکومت کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرے گا بلکہ بعض لوگ تو یہ کہتے ہوۓ بھی پاۓ گئے کہ اصل ہدف ہی زرداری ہیں اور اس سے آگے بڑھ کر نواز شریف. اور جیسا کہ ہوتا آیا ہے جب تک آپریسن ایم کیو ایم تک محدود رہا، ایم کو ایم کے کارکنان گھروں سے غائب ہوتے رہے، ٩٠ ٩٠ روز کے ریمانڈ پر بغیر کسی مقدمے کے نظر بند ہوتے رہے اس وقت تک سب اچھا رہا. ایم کیو ایم کو صوبائی حکومت میں شمولیت کی جو پیشکش کی گئی وہ بھی واپس لے لی گئی. لیکن جیسے ہی عزیر بلوچ پر ہاتھ ڈالا گیا اور پھر سب سے بڑھ کر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ پڑا جہاں زرداری صاحب کے منظور نظر عبد القادر عرف کاکا ایک عرصے سے براجمان ہیں تو حکومتی حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور زرداری صاحب کھل کر فوج کے خلاف میدان میں آ گئے. اس سے پہلے جب جنرل بلال اکبر نے ٢٣٠ ارب روپے کی کرپشن کی بات کی تھی اس وقت سے ہی نظر آ رہا تھا کہ رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان کسی بھی وقت کشیدگی آخری حدوں کو چھو لے گی(یاد رہے کہ ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ بلوچستان میں موجود ایف سی اہلکاروں سے ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اس کو روکنا خود وفاقی اداروں کا کام ہے نہ کہ صوبائی حکومت کا). ایپکس کمیٹی کی میٹنگ کی جو روئیداد سامنے آئ تھی اس سے بھی پتہ چلتا تھا کہ زرداری صاحب کراچی آپریشن کی تازہ ترین جہت سے خوش نہیں. کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپے کی وجہ سندھ حکومت نے یہ بیان کی کہ فوج سندھ حکومت سے اندرون سندھ ہزاروں ایکڑ زمین کا مطالبہ کر رہی ہے اور چوں کہ سندھ حکومت اس حوالے سے پس و پیش کر رہی تھی اس لیۓ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو نشانہ بنایا گیا، گویا دونوں طرف سے زمین کا تنازعہ ہے. زرداری صاحب کے سخت بیان کے اگلے ہی روز قائم علی شاہ نے فوج کی طرف سے مانگی جانے والی زمین فوج کو دینے کے احکامات جاری کر دی جاۓ. اچھا ہوتا کہ فوج یہ زمین اس صورتحال میں لینے سے انکار کر دیتی
اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں کہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کرپشن کا گڑھ ہے اور عبد القادر عرف کاکا اس کرپشن کا رنگ لیڈر لیکن مجھے اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ کرپشن اور چائنا کٹنگ جیسے دیگر معاملات رینجرز کے دائرے کار سے باہر ہیں اور یہ پلی لینا کہ کرپشن کی یہ ساری رقم کالعدم دہشتگرد گروہ دہشتگردی میں استمعال کر رہے ہیں مجھے over stretched لگتا ہے. ایسی کرپشن لاہور پشاور اور پاکستان کے ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں ہوتی ہے. ظاہر بات ہے کہ کالعدم دہشتگرد گروہ طالبان، لشکر جھنگوی، بی ایل اے، اہل سنت والجماعت (سابقہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ) وغیرہ کی فنڈنگ پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم نہیں کر رہے اور جو مدارس، مولوی، مساجد اور با اثر افراد ان کالعدم دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی میں ملوث ہیں رینجرز ابھی تک ان کو پکڑنے کی جرات نہیں کر سکی ہے. میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اس حرام کی کمائی کا کوئی حصہ بھی مجرمانہ سرگرمیوں کو فنڈ کرنے کے لیۓ استعمال نہیں ہوتا ہو گا، ضرور ہوتا ہو گا لیکن نیشنل ایکشن پلان جس قسم کی دہشتگردی سے نبٹنے کے لینے منظور ہوا تھا اس کا کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور چائنا کٹنگ سے دور کا تعلق بھی نظر نہیں آتا. اگر رینجرز کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم تحریک طالبان اور کالعدم دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت کو فنڈ کر رہی ہیں تو ان شواہد کو سامنے آنا چاہیۓ. ویسے مفتی نعیم، جو کھلے عام ان کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کرتا رہا ہے، مالی غبن اور فراڈ میں بھی ملوث رہا ہے، سنی بریلوی، آغا خانی اور شیعہ مسلمانوں کو مشرک کافر مرتد قرار دیتا رہا ہے، منظور مینگل جیسے دہشتگرد کو (جو کھلے عام شیعہ مسلمانوں کے قتل عام پر لوگوں کو اکساتا رہا ہو، شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کو جہاد کہتا رہا ہو، قائد اعظم کو گالیاں دیتا رہا ہو) رینجرز کی گرفت سے آزاد کرواتا رہا ہے، کے ساتھ تو جنرل بلال فوٹو سیشن کرواتے رہے ہیں
میرے خیال میں رینجرز کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. بظاہر جو آپریشن دہشتگردوں کے خلاف شروع ہوا تھا اب وہ فطرہ جمع کرنے والوں کے خلاف موڑ دیا گیا ہے. آپریشن جس کو مکمل طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ دکھنا چاہیۓ تھا وہ مکمل طور پر سیاسی اور جانبدارانہ دکھائی دے رہا ہے. رینجرز دہشتگردوں کے خلاف بلائی گئی ہے اور یہ عمل ١٦ دسمبر کو پشاور میں کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ کے ہاتھوں ١٥٠ سے زائد معصوم طلبہ کے قتل عام کے بعد شروع ہوا ہے. اس آپریشن کا بنیادی ہدف یہی کالعدم دہشتگرد گروہ ہونے چاہیۓ اور اس کو سیاسی جماعتوں کے خلاف آپریشن میں تبدیل نہیں ہونا چاہیۓ. میں یہ نہیں کہتا کہ گویا پھر سیاسی جماعتوں کو دہشتگردی کی چھوٹ مل جانی چاہیۓ. اگر سیاسی جماعت کا کوئی کارکن کسی دہشتگردی میں ملوث ہو تو اس کو بھی گرفتار ہونا چاہیۓ اس کے خلاف FIR کٹنی چاہیۓ مقدمہ چلنا چاہیۓ اور سزا ہونی چاہیۓ. میں قطعی نہیں کہتا کہ ١٢ مئی جیسے واقعات پر رینجرز کو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا چاہیۓ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن کا چندہ اور فطرہ جمع کرنا یا مثال کے طور پر کسی سیاسی پارٹی کا کرپشن میں ملوث ہونا ایک بات ہے اور ایک کالعدم دہشتگرد گروہ کا ریاست، فوج اور عوام کے خلاف اعلان جنگ کر دینا اور مسلمانوں، پاکستانیوں کو کافر مرتد قرار دے کر ذبح کرنا بالکل دووسری بات ہے. اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود یہ بات تسلیم کی جانی چاہیۓ کہ یہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کارکن (جن کو را کا ایجنٹ کہنے کا فیشن بھی چل پڑا ہے) نہیں جو ہمارے فوجی جوانوں کے گلے کاٹتے آ رہے ہیں بلکہ ہمارے فوجی جوانوں سے لے کر عام عوام تک سب کو دہشتگرد حملوں میں شہید اور ذبح کرنے والے وہی لوگ اور گروہ ہیں جن کی کئی دھائیوں تک فوج اور انٹیلیجنس ادارے پشت پناہی کرتے رہے ہیں. جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کام کرنے والی فوج سے یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کا کام کرے گی. یہ ایم کیو ایم سے بھی ١٢ مئی کا کام ایک فوجی جرنیل ہی نے کروایا تھا اگر یاد ہو تو. سو بہترین راستہ یہ ہے کہ یہ بغیر مقدمات سیاسی کارکنوں کو تین تین ماہ کے لیۓ نظر بند اور ان پر بہیمانہ تشدد کا سلسلہ بند ہونا چاہیۓ. وہ سیاسی کارکن جو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں ان کو ضرور گرفتار کیا جاۓ اور قانون کے مطابق مقدمات چلاۓ جائیں اور سزا دی جاۓ لیکن انسانی حقوق کی پاسداری کی جاۓ تاکہ عام عوام میں بے چینی اور نفرت پیدا نہ ہو بلکہ عام عوام رینجرز کو دوست اور محافظ کے طور پر دیکھیں نہ کہ یہ لگے کہ رینجرز کے لیۓ سندھ کوئی مفتوحہ علاقہ ہے اور وہ سندھ میں کوئی سیاسی تبدیلی لانے کی خواہشمند ہے. یہ سب پاکستان کے شہری ہیں، چاہے کوئی مجرم بھی ہو لیکن یہاں کوئی پاکستان کا باغی اور غدار نہیں، اپنے شہریوں سے جو محبت والا سلوک ہونا چاہیۓ وہی ہو. سیاسی قیدیوں پر تھرڈ ڈگری ٹارچر نہ ہو، اگر گرفتار کیا جاۓ تو گھر والوں کو بتایا جاۓ اور قانون کے مطابق ملاقات کروائی جاۓ. رینجرز اپنا فوکس کالعدم دہشتگرد گروہوں کی طرف مبذول رکھے جو اس کی موجودگی اور آپریشن کے باوجود سانحہ صفورا جیسے واقعات کرنے میں کامیاب رہے. جی ہاں میں اسی سانحہ صفورا کی بات کر رہا ہوں جس میں سعد عزیز سے لے کر سعدیہ جلال تک جماعت اسلامی کے دہشتگرد ملوث ہیں لیکن رینجرز ہیڈ کوارٹر کے پڑوس میں موجود ادارہ نور حق کے خلاف کسی کاروائی کی رینجرز میں ہمت نہیں.پاکستان پہلے ہی بلوچستان میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے جہاں امن و امان کی موجودہ صورتحال اور احساس محرومی کی ذمہ داری ہمارے بلوچ بھائیوں پر نہیں بلکہ ماضی کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے. اب براہ مہربانی سندھ کو بلوچستان بنانے سے گریز کیا جاۓ. صرف پنجاب پاکستان نہیں سو تمام صوبے کے لوگوں سے پاکستانی والا ہی برتاؤ کیا جاۓ. ہماری فوج ایک نیشنل آرمی ہے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے. اگر رینجرز یہ طرز عمل اختیار کرے گی تو پھر سیاسی جماعتوں کے لیۓ بھی اپنے صفوں میں موجود مجرم کرداروں کا تحفظ کرنا مشکل ہو جاۓ گا. یہ بات سمجھ لینی چاہیۓ کہ باوجود یہ کہ میں اور میرے جیسے کتنے ہی لوگ پیپلز پارٹی اور ایم کو ایم کو شدید ناپسند کرتے ہیں لیکن سندھ کے کروڑوں عوام انہی دو جماعتوں کے حامی ہیں، انہی کو ووٹ دیتے ہیں. حقیقی سیاسی تبدیلیاں صرف جمہوری طریقوں سے ممکن ہیں بزور قوت وجبر نہیں. بزور قوت و جبر تبدیلی لانے کی خواہش کا نتیجہ قومی اسمبلی کے حلقے ٢٤٦ کے نتائج کی صورت میں سب کے سامنے آ چکا. اس سے پہلے ١٩٩٢ کا فوجی آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف اور ١٩٨٣ میں پیپلز پارٹی کو فوجی جوتوں سے دبانے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی. اور پھر اگر ایسی کوئی کوشش دوبارہ کی گئی تو اس کا فائدہ صرف کالعدم دہشتگرد اور انتہا پسند مذھبی جماعتیں ہی اٹھائیں گی
جہاں تک رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا سوال ہے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی سے منظوری والی بات کو بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کرے گی اور رینجرز سے کہا جاۓ گا وہ اپنی سرگرمیاں ایم کیو ایم تک محدوود رکھیں (گو اس سے رینجرز کی credibility باقی نہیں رہے گی). دوسری صورت یہ ہے کہ عزیر بلوچ کے انکشافات، ایان علی کیس اور دیگر کرپشن اسکینڈلز کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ گول کر دیا جاۓ. گورنر سندھ سے جنرل بلال کی ملاقات خاصی دلچسپی کی حامل تھی کیوں کہ ڈاکٹر عشرت العباد پر صولت مرزا اور دیگر کیسز میں دہستگردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ان کو منصب سے ہٹانے کی بات بھی ہو چکی ہے. کیا ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کسی مہم جوئی کی صورت میں فوج کا ساتھ دے سکتی ہے؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے
پی پی پی اور ایم کیو ایم کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیۓ جمہوریت اور قوم پرستی کی دہائی دے دے کر مجرمانہ سرگرمیوں اور کرپشن کی سرپرستی کا دور چلا گیا. رینجرز آپریشن کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے گو کالعدم دہشتگرد مذھبی گروہ ابھی بھی آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوۓ ہیں. عوام امن و امان، انصاف اور کرپشن سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں. یہ نمائندہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو کرپشن اور جرائم سے پاک کر کے دکھائیں. ہر چیز کا الزام فوج پر لگا دینا یا ہر معاشرتی برائی کا سبب فوج کو قرار دینا بھی کھلی زیادتی ہے. سیاستدان اپنے حصے کی صلیب خود اٹھانا سیکھیں