قصیدہ بحضورسیٹھی و بینا و المانہ و دیگر اہل لبرل والجماعت – عامر حسینی
نوٹ : مجھے امید ہے کہ اس قصیدے سے میری نہ صرف دنیا سنورے گی کہ مجھے کسی این جی او میں اچھی نوکری مل سکتی ہے، یا اخبار یا ٹی وی چینل میں بہتر جاب بلکہ میری عاقبت بھی سنور سکتی ہے کہ میں یزید و ابن زیاد و شمر زی الجوشن کے ہاں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگوں گا، یہ قصیدہ مجھے فکری اعتبار سے زندہ رکھے گا اور ابتک مجھے غلطی سے جس کیمپ سے جوڑ کر معتوب رکھا گیا اس سلسلے کا خاتمہ بھی کرے گا پہلے میں یہ خیال کرتا تھا کہ یہ شہرت و ناموری کی ہوس جب کسی پستہ قد والے کے ہاں غلبہ کرتی ہے نا تو ہمیں ایڑیاں اونچی کرکے بڑے قد کا خود کو ثابت کرنے والے نظارے بہت دیکھنے کو ملتے ہیں اور ضمیر کی ارتھیوں کو موقعہ پرستی کے شمشان گھاٹ پر دھڑا دھڑ جلتا دیکھنے کے مناظر بھی ملتے ہیں اور موقعہ پرستی کے دریا میں اشنان کرنے والوں کی دھوتیوں کا ڈھیر کنارے پر جمع ملتا ہے جن سے اٹھنے والی سڑاند اور بوسیدگی سے دماغ پھٹنے لگتا ہے ، ہمیں مردہ شانتی سے بھرے ہوئے دماغوں کے ساتھ اونچے سنگھاسن پر بونے لوگ بیٹھے نظر آتے ہیں جو دربار ابن الوقت میں بیٹھ کر آفتاب پر تھوکنے کا ناٹک کرتے ہیں جس سے ان کے اپنے چہرے خود ان کے اپنے تھوک کی گندگی سے لتھڑجاتے ہیں اور وہ اس گندے لیس دار سیال کو چہرے پر شدت جذبات سے پیدا ہونے والی گرمی کا نام دیتے ہیں گویا زبان حال سے کہتے ہیں کہ ہم سب نابغہ وقت ہیں
لیکن سب سن لیں میں اب اس سے دستبردار ہوتا ہوں میں نے بہت بڑی غلطی کی کہ بڑے قد کاٹھ والوں کو پستہ کہا اور ان کے سچے جذبہ کو ہوس ناموری کا نام دیا اور ان کی قربانی کو ضمیر کی ارتھیاں موقعہ پرستی کے شمشان گھاٹ پر جلتی دکھائیں ، حالانکہ ان کے ضمیر تو بہت بڑے مقصد کے لئے جام شہادت نوش کرگئے تھے اور جس دریا لے کنارے میں نے دھوتیوں کا ڈھیر دیکھا وہ دریا موقعہ پرستی کا نہیں بلکہ ترقی کے امکانات کو وسیع کرنے والا دریا تھا اور سڑاند و بوسیدگی تو کہیں بھی نہیں ہے اور چہرے بھی نور علی نور ہیں ، میں اپنی گمراہی پر سخت شرمندہ و نادم ہوں
ہونے کو تو بھائی مرے ، کچھ بھی ہوسکتا ہے
دودھ بھی کالا ، شہد بھی کڑوا ہوسکتا ہے
نجم و بینا و المانہ و اعجاز حیدر و رومی کے ساتھ
لدھیانوی و فاروقی کے ساتھ تھیلا اشرفی بھی لبرل ہوسکتا ہے
یزید کے دربار پر اک نظر تو ڈالو مرے دوست
ساتھ اس کے کوئی صدر الشریعہ بھی ہوسکتا ہے
آج کے لبرل سیٹھی کے میگزین میں مرے دوست
انٹرویو لدھیانوی کا بھی نمایاں ہوسکتا ہے
اور کسی لبرل کے خود نمائی کے جنوں میں
پروگرام ” میں اور مولانا ” بھی ہوسکتا ہے
25 ہزار شیعہ اور 45 ہزار صوفی سنی مارنے والا
گروہ دیانبہ کیسے تکفیری ہوسکتا ہے
جعلی آئی ڈی بناکر خود کو گالیاں دینے والا نفس ناطقہ
صف شہیداں میں بھی شمار ہوسکتا ہے
گالیوں اور مغلظات سے بھرا کوئی بیان
روشن گر و خرد افروز بھی ہوسکتا ہے
جو بھی ایل یو بی پاک پر لکھے ایک تنقیصی نوٹ
اس کا بھی سر بلند سے بلند تر ہوسکتا ہے
آزادی اظہار کے نام پر روا رکھنے والا تنقیص اہل بیت
لبرل ازم کا امام زماں بھی ہوسکتا ہے
کسی پروجیکٹ کی خاطر یا کسی اخبار میں شایع ہونے کے لئے
عترت اہل بیت ، ناموس عل و فاطمہ کا سودا بھی ہوسکتا ہے
علی عباس تاج گر مذمت کرے تنقیص علی و فاطمہ پر
ایسا جنونی ،فرقہ پرست لبرل کیسے ہوسکتا ہے
یہ جو دیوبندی تکفیری عفریت کو کرتا ہے بے نقاب
ایسا بلاگر سیکولر ، لبرل کیسے ہوسکتا ہے
قاتلوں سے مسیحائی کی رکھیں امید مسلسل
علم لبرل ازم کا یونہی بلند ہوسکتا ہے
تو نے یہ جو لکھا ہے قصیدہ اہل لبرلیان
عامر اب مقام تیرا بلند ہوسکتا ہے
—–
Salman Haider’s Response
اشاروں کنایوں میں تنقید اور تنقیص اردو شاعری میں عام ہے – سلمان حیدر صاحب کی تعمیر پاکستان بلا گ سے دشمنی اور سیٹھی، بینا، ناطق و المانہ سے قربت کی خواہش پوشیدہ نہیں، تعمیر پاکستان بلاگ پر تکفیری ہونے اور المانہ و ناطق کے حوالے سے دیگر جھوٹے الزام بھی لگا چکے ہیں، ان کے کئی جھوٹ پکڑے بھی گئے ہیں اور یہ نیا جھوٹ، کہ نظم کا مخاطب تعمیر پاکستان نہیں، اور گالم گلوچ بھی ان کے دوغلے پن کا اظہار ہے