حضرت حجر ابن عدی کے مقلدین بمقابلہ المانہ فصیح دیوبندی کے طرفداران – خرم زکی
کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ صحابی رسول حضرت حجر بن عدی رض کو ان کے ساتھیوں سمیت مقام عذراء پر امیر شام نے کیوں قتل کروا دیا تھا ؟ کس جرم کی پاداش میں ؟ کیوں کہ جب زیاد کوفہ کے منبر پر بیٹھ کر امام کو سب و شتم کرتا تھا تو حجر بن عدی جیسے جری ان حالات میں بھی زیاد کی خباثت کے خلاف احتجاج کرتے تھے، اس کو کنکر مارتے تھے۔ امام کو گالیاں دینے والوں کے خلاف احتجاج کرنا ہی حجر بن عدی کا وہ جرم تھا جس کی پاداش میں وہ شہید کر دیئے گئے ۔ آج علی ناطق صاحب کے ساتھی یہ سوال کرتے ہیں ہم سے کہ جب 90 سال امام پر سب و شتم ہوتا رہا تو تم لوگوں کی یہ حرمت بریگیڈ کہاں غائب تھی تو سوچا اس “بینا سرور بریگیڈ” کو تاریخ کے جھروکوں سے ایک سنہری باب پڑھ کر سنا دوں۔ اگر یہ کمرشل لبرل بینا سرور بریگیڈ اور علی ناطق بھائی وہاں موجود ہوتے تو شائد زیاد کے گالیاں دینے کے حق کا دفاع کر رہے ہوتے اور حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کے خلاف گواہیاں دیتے پھرتے۔
اور علی ناطق بھائی کے ان ساتھیوں کو معلوم ہو کہ حضرت حجر بن عدی کی یہ پوری نہضت اور احتجاج صلح امام حسن کے بعد ہے۔ یہ اس لیئے لکھ دے رہا ہوں کہ بعض جہلاء سے توقع ہے کہ وہ یہ نہ کہ دیں کے صلح امام حسن کے بعد اس طرح کا کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ حضرت حجر یہ کنکریاں صلح امام حسن کے بعد مارا کرتے تھے۔
کیا کسی صحیح العقل انسان سے جو تاریخ کا ذرہ برابر بھی مطالعہ کر چکا ہو، امام حسین علیہ السلام کا نام لیوا بھی بنتا ہو، اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ یہ کہے کہ گزشتہ 1400 سال کی تاریخ میں اہل بیت اطہار، رسول ﷲ کی آل، ان کے محبین اور پیروکاروں کا قتل عام نہیں ہوا، ان کو اذیتیں نہیں دی گئیں، ان کو پرسیکیوٹ نہیں کیا گیا ؟ کوئی تاریخ نابلد شخص بھی ایسا دعوی نہیں کر سکتا کیوں کہ کچھ نہیں تو واقعہ کربلا ہر ایک کے سامنے ہے کہ کس طرح خاندان رسالت کا خون بہایا گیا۔ مگر جی ہاں ایک انگلستان میں بیٹھی ایک دانشور، جن کا پیشہ ان مقدس ہستیوں کے خون کو فروخت کرنا ہے اور اس کے عیوض برطانوی ہاؤس آف لارڈز اور دیگر امراء سے تعلقات پیدا کرنا ہے، اپنے فیس بک پروفائل پر فرماتی ہیں کہ خاندان رسالت اور ان کے پیروکاروں کی پرسیکیوشن نہیں ہوئی، ان پر ظلم و ستم نہیں ہوا، ان کی آزار دہی نہیں ہوئی۔ ان خاتون کو ادب و شائستگی چھو کر بھی نہیں گزری کیوں کہ یہ خانوادہ رسالت سے محبت کرنے والے ہر اس فرد کو اپنے پروفائل سے ننگی گالی دیتے ہوئے مخاطب کرتی ہیں جو اہل بیت اطہار کو گالم گلوچ کرنے والے کی مذمت کرنے کی جرات کرتا ہے۔ سارا سال امام حسین کے نام پر کھانے والی یہ خاتون جب مقام اہل بیت کے دفاع کی بات آتی ہے تو الحاد اور لادینیت کی داعی بن جاتی ہے اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کے معاملے کو آزادی اظہار رائے کا معاملہ بتاتی ہیں جبکہ اس گالم گلوچ کے خلاف احتجاج کو قاتلانہ کیمپین کہتی ہیں۔
جناب کوئی ان پاک ہستیوں کا دفاع کرنے کے لیئے کھڑا ہو یا نہ ہو۔ میں اور میرے ساتھی ایل یو بی پی پر یہ کام کرتے رہیں گے۔ ہم دنیاوی مفاد کے لیئے، کسی رے کی گورنری کے لیئے، اپنے نظریات کا سودا نہیں کریں گے۔