ڈھول کا پول
شیخ سدّو ملک کے ‘مایا ناز’ سرمایہ دار اور دنیا کے سب سے بڑے چھاپے خانے کے مالک نے جب دنیا کے سب سے بڑے ٹی وی ڈھول کا ڈول ڈالا تو ہر طرف واہ واہ واہ واہ کی دھوم مچ گئی ، دنیا کا سب سے بڑا چینل کہ سدّو بھائی کا دعویٰ تھا کہ جب بھی اس کائنات میں موجود کوئی اور حیات ڈھول کے سگنل رسیو کرے گی تو اس کو ایسی دنیا دکھائی دے گے جہاں نہ بھوک ہوگی، نہ غربت، نہ جہالت، نہ فساد، بلکہ دودھ کی نہریں اور شہد کے سمندر دکھائی دیں گے جن میں انسان ادھر ڈوبتے ادھر ابھرتے دکھائی دیں گے اور انسانیت کا ڈھول پوری کائنات میں بجے گا. اس سے پہلے سدّو بھائی دنیا کا سب سے بڑا چھاپہ خانہ قائم کر کے چلا چکے تھے اس لئے کسی کو اس دعوے پر کوئی شک بھی نہیں گزرا خاص کر وہ جو ڈھول میں ملازم ہوئے کہ ڈھول اپنے سے پہلے چھاپے خانے کی طرح سب کو زبردست معاوضے اور سہولتیں دے رہا تھا جو کہ اس صنعت سے وابستہ کوئی ادارہ نہیں دے رہا تھا کہ بقول بھائی خیرو جو کہ ڈھول میں چوکیدار تھے ‘سب سالے چور ہیں ‘ ، لوگوں کو شیخ سدّو دنیا کے سب سے زیادہ ایماندار اور دیانت دار آدمی دکھائی دیتے تھے، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ میاں بھائی دنیا کا کوئی کاروبار بغیر منافع کے نہیں کیا جاتا اور اس کے لئے اخراجات اور کمائی کا توازن دیکھا جاتا ہے ، کیا وجہ تھی کہ باقی سارے چور اپنے خرچے بچا رہے تھے ؟ مگر بھائی خیرو کا خیال کہ وہ تو چور تھے ڈھول کے تمام جہاندیدہ اور دنیا دار ملازمین کا بھی یہی خیال تھا اور چھاپے خانے کہ جس کا نام ہی ‘چھاپ ‘ تھا اس کے ملازمین کا بھی یہی کہنا تھا، چھاپ سے منسلک سب افراد بھی بقول مجید نوٹ چھاپ رہے تھے . شیخ صاحب سے پہلے بھی وطن عزیز میں ایسے ایسے دیدہ ور اور شناور تجارت گزر چکے تھے جن پر عوام کو اندھا اعتماد تھا جیسے صمد دادا بھائی ، سنا ہے کہ کہیں کسی عقیدتمند نے ان کا مزار بھی بنایا ہوا ہے جہاں ان کے ہاتھوں بنے کروڑ پتی اپنی پتنیوں سمیت ہر جعمرات آج بھی قوالی کرتے ہیں اور مرحوم کے درجات میں اضافے کی دعا کرتے ہیں.
لیکن شیخ صاحب کی تعریف میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے وہ میدان چنا جہاں دور دور تک عام آدمی کی رسائی نہیں، اگر وہ ڈھول کا ڈول نہ ڈالتے تو چھاپ سے چپ چاپ چھاپتے رہتے، مگر ہل من مزید ، غالب وضع دار انسان تھے تمنا کا دوسرا قدم ڈھونڈتے رہے، ہمارے اہل بساط و کشاد ہوس کی انتہا ڈھونڈنے میں لگے ہیں، دو دو ارب تو فقیروں کے گھر سے برآمد ہوتے ہیں. تو ہوا یہ کہ کسی غیر ملکی صحافی کو بھنک پڑ گئی کہ چھاپ میں سچ مچ کے جعلی نوٹ چھپ رہے ہیں اور کمبخت نے یہ کہانی چھاپ دی، چھاپ کی اس پوشیدہ چھپائی کی کہانی کا چھپنا تھا کہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، شیخ سدّو اندر ہو گئے اور چھاپ بند اور ڈھول بجتا رہ گیا ، شیخ سدّو کا موقف تھا کہ بھائی میاں یہ تو بزنس ہے، اب کلائنٹ جو چھاپنے کا کہے گا ہم چھاپیں گے اور جس کوالٹی کا کہے گا چھاپیں گے، یہ ہمارا کاروباری اصول ہے، ہم خود اپنے لئے تھوڑی چھاپ رہے تھے، ہمیں کیا پتہ کہ کس کی کیا غرض ہمیں تو اپنی غرض سے غرض ، آخر دنیا کا سب سے بڑا چھاپہ خانہ ایسے ہی تو نہیں بن گیا نا. کیونکہ معامله اخباروں میں آ گیا اس لئے عوام الناس کو بھی موقع ملا کہ اپنی رائے کا اظہار کریں، دانشور بھی گویا ہوئے ، کسی نے کہا کہ نوٹ چھاپنا کونسا جرم ہے، ہماری آپ کی جیبوں میں جو نوٹ رہتے ہیں کیا یہ بغیر چھپے ہوتے ہیں؟ ایسا ہے تو پاکستان پرنٹنگ پریس بھی مجرم ہے. کسی نے کہا کہ میاں یہ غیر ملکی سازش ہے کہ ڈھول دنیا کا سب سے بڑا چینل نہ بن سکے، امریکی چاہتے ہیں کہ جب مریخی مخلوق زمین پر اترے تو صرف امریکہ امریکہ کرتی اترے. کسی نے کہا کہ بھائی جی یہ غیر ملکی اخبار تو ہر کسی کی خبریں لگا چکے ہیں، ان میں سے تو کسی کو نہ پکڑا ، میں تو جانوں حکومت بھی شامل ہے سازش میں، ایک اور صاحب بولے کہ بھائی باقی چینل کے مالکان کونسے فرشتے ہیں، ون کو کوئی اندر نئی کر ریا اور ایک دانشور نے اپنے انتہائی عالمانہ مضمون میں رائے دی کہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ غنڈے، موالی ، اسمگلر اور نوسر باز اخبار نکالتے اور پرنٹنگ پریس چلاتے اور پبلشر بنتے رہے ہیں، اپنا کالا پیسہ سفید کرنے کے ساتھ ساتھ دیانت دار صحافت کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے دیانت دار صحافی اور مفکر ان اداروں سے وابستہ رہے اس لئے ڈھول اور چھاپ سے منسلک ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں. ان صاحب نے ایسے کچھ لوگوں کے نام بھی دیے ، اور حیرت کی بات ہے کہ کسی نے ان کی تردید بھی نہ کی. یہ سمجھ نہیں آیا کہ مولانا ظفر علی خان سے ظفراللہ خان اور منہاج برنا سے سلیم شہزاد تک صحافی کس وجہ سے سے صاف ستھری، دیانت دار اور بے لاگ صحافت کے لئے کھڑے رہے، قربانیاں دیتے رہے اور کس لئے جان تک سے گئے ؟
بہرحال شیخ سدو کی مثال نے کئی ‘ہنر مند ‘ افراد کو حوصلہ اور نئی روشنی دی ہے، بیگم ستارہ جان ان میں سے ایک ہیں، ڈھول کے ہم پلہ چینل ‘ٹھمکا ‘ لانے کی تیاری کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ٹھمکا وہ دکھائے گا جو کوئی نہیں دکھا سکتا ، وطن عزیز کی وہ تصویر جو بکاؤ چینل نہیں دکھاتے. بیگم ستارہ جان پر بھی جلنے والے الزام لگاتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی بردہ فروشی اور جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہیں، ملک کے بڑے شہروں میں ان کے اڈے ہیں اور دور افتادہ علاقوں میں بازار لگتے ہیں، صرف مقامی نہیں بلکہ پڑوسی ملک اور دوسرے کئی ملکوں سے اغوا شدہ عورتیں ان بازاروں میں بکتی ہیں اور دساور کو بھی بھیجی جاتی ہیں، مگر بیگم ستارہ جان کا کہنا ہے کہ وہ تو انڈسٹریل ہوم چلاتی ہیں جو ان کی والدہ بلکہ ان کی والدہ کی والدہ کی والدہ نے شہر لاہور سے شروع کیا تھا اور پیہم محنت نے ان کو یہ مقام عطا کیا ہے کہ ان کی شاخیں آج ملک کے کونے کونے میں ہیں اور ضرورت مند خواتین اور قوم کی خدمت ہو رہی ہے، ان کارخانوں کا مال ملک میں ہی نہیں ملک سے باہر بھی جاتا ہے جس کو جلنے والے بد نام کرتے رہتے ہیں، مگر جس طرح ان انڈسٹریل ہومز کا کچھ نہیں بگڑا اسی طرح ٹھمکا بھی چل کر رہے گا، کئی بڑے فنکار اور ہنر مند اب ٹھمکا سے وابستہ ہو چکے ہیں اور ٹھمکا آگے ہی بڑھے گا، ایک وقت آئے گا کہ سارا ملک ٹھمکا ٹھمکا کرے گا اور تو اور ٹھمکا کو آب پارہ والے پیر کی دعا بھی ملی ہے جس کا وسیلہ بیگم کے جاننے والے ایک ریٹائر بریگیڈئر صاحب ہیں جو پیر صاحب کے مرید ہیں اور انہوں نے ٹھمکا کو پیر صاحب کے دست شفقت تلے جگہ دلوائی ہے، کہتے ہیں کہ جس چینل کو آب پارے والے پیر صاحب کی شفقت مل جائے وہ چلے ہی چلے. بیگم ستارہ جان کی بھانجی ملکہ جان نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر ٹھمکا چلا تو وہ بھی جھمکا چینل لے کر میدان میں اتریں گی، اصل میں تو یہ سب ان کی ماں اور ستارہ جان کی بڑی بہن زھرا جان کا تھا جس پر ستارہ نے چالاکی سے قبضہ کر لیا اور ان کی ماں کو اپنے چیلے شریف بھائی کی محبت میں الجھوا کر انڈسٹریل ہوم سے علحیدہ کر دیا، ملکہ جان نے بڑی محنت سے اسلاف کی عظمت کو دوبارہ حاصل کیا ہے اور وہ ستارہ جان کا مقابلہ کریں گی، ان کو بھی آب پارے والے پیر تک اپنے ایک مربی کے واسطے سے رسائی مل گئی ہے اور پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ جھمکا بھی آ کر رہے گا.
ملک کے نامور ڈاکو جناب جانو پھلواری کے صاحب زادے گلو پھلواری عرف شفاعت صدیقی بھی ایک اخبار ‘تاوان’ نکال رہے ہیں جو اغوا برائے تاوان کی ملک گیرصنعت کے فروغ کے لئے کام کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ دیانت، صداقت اور شجاعت کے اصولوں کے تحت صحافت کو بھی فروغ دے گا، جناب انقلاب خیر آبادی نے اس کی ادارت کے فرائض سنبھال لئے ہیں اور کئی بڑے صحافیوں کو قائل کر رہے ہیں کہ نیک کام میں ساتھ دیں اور ساتھ ہی خطیر مشاہرے سے بھی لطف اندوز ہوں.
جناب ملک خیر آبادی جنہوں نے اتنی بستیاں بسائی ہیں کہ اب وطن عزیز میں خالی پلاٹوں کا کال پڑ گیا ہے اور جنہوں نے ہمارے وردی والے بھائیوں کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پر سکون اور پر آسائش ملازمتوں کا اہتمام کیا ہوا ہے، ان کو بھی ایک چینل کی تلاش ہے، ان کا کہنا ہے کہ نیا چینل بنانے اور نیا اخبار نکالنے کے بجائے وہ کسی خالی پلاٹ یعنی بکنے کے لئے تیار ادارے کو خریدنے میں زیادہ دلچسپی لیں گے، بھائی سدّو کے لئے صلاح ہے کہ اگر ڈھول زیادہ عرصے نہ بجا سکیں تو ملک صاحب کو یاد رکھیں ، ملک صاحب اس پلاٹ معاف کیجئے گا چینل کو بھی پہلی نشریات سے پہلے ہی کروڑوں کا مالک بنا دیں گے، ان کے اس گر پر کسی کو کوئی شک نہیں.
ان کے علاوہ بھی کئی نیک نام ، مخیر اور اہل افراد جیسے شاہد لنگڑا اور جمی ٹنڈا جنہوں نے بھتے بازی، نوسر بازی، پلاٹوں پر قبضے سے آغاز کر کے آج اپنی سلطنت بنا لی ہے کہ بڑے بڑے بھائی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کسی نے صحیح نوٹ چھاپے ہیں اور اب شاہد غوری اور جمال انصاری کہلاتے ہیں، انہوں نے بھی سوچا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ پہلے سے چلتے چینلز سے اپنا پیسہ نکال کر ایک نئے چینل ‘پاکستان زندہ باد’ کی بنیاد رکھیں کہ ان کا ایسا عروج یہیں ممکن تھا اور اب وقت ہے کہ جو کچھ لیا ہے وہ لوٹایا جائے ، ان کو بھی کئی دانشوروں اور محب وطن اہل کمال نے اپنی پوری سپورٹ کی یقین دہانی کروائی ہے کہ اسی طرح پہلے سے جمے چوروں اور وطن دشمن چینلز کا خاتمہ ہوگا ، خاص کر پیؤ ، ٹیکپریس اور زیڈ آر وائی جو وطن دشمنی میں ہمارے (آب پارہ سے مصدقہ) دشمنوں سے بھی آگے ہیں. ‘پاکستان زندہ باد ‘ سچائی اور محب الوطنی کا علمبردار ہوگا، آخر کو اس کے مالک بھی انتہائی نیکو کار اور محب وطن ہیں، کوئی چور تھوڑی ہیں.
اس سارے قصّے میں کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ یہ پوچھیں کہ بھائی سب باتیں اپنی جگہ اور قابل بحث ، مگر ایک غلط کیا دوسرے غلط کی توجیح بن سکتا ہے؟ کیا اس بنا پر ہم خود کو غلط اور حرام کی طرف مائل کر سکتے ہیں کہ دوسرے بھی یہی کر رہے ہیں، حالانکہ یہ رجحان ہمارے معاشرے میں عام ہے، یہاں تک کہ ایک جماعت نے یہ فتویٰ بھی حاصل کیا تھا کہ صحیح کام کے لئے رشوت دینا اور سفارش کروانا جائز ہے کیونکہ اور کسی راستے سے کام ہو ہی نہیں سکتا، معاشرتی گراوٹ اپنی جگہ مگر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا بھی چھوڑ دیں؟ اگر ہر دفع پیچھے ہی ہٹنا ہے تو پھر بہتری کی امید بھی چھوڑ دیں، کہہ دیں اپنی اولاد کو کہ بچوں طاقت صحیح اور پیسہ سب کچھ ہے ، جیسے چاہو کماؤ اور جو چاہو بناؤ ، بس قانون کی گرفت میں نہ آنا، ضمیر اور ایمان قسم کی بکواس بھول جاؤ . اگر جعلی کام کرنا اس لئے درست ہو سکتا ہے کہ قانون اس سے نہیں روک رہا یا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے، تو پھر ایمان دھرم کی باتیں، سچائی و راستی کی عظمت، حق اور حلال کا ذکر سب چھوڑ دیں.
شیخ سدّو نے ایک پینترا اور بھرا کہ خود کو محب الوطن اور مجاہد قرار دے دیا ، ہر بات میں وطن اور خدا کا ذکر ایسے کرنے لگے جیسے وہ راہ حق پر ڈٹے ہوں اور باطل ان کے درپے ہو، یار لوگ یہاں بھی ان کے نثار ہونا شروع ہو گئے یہ بھول کر کہ الزام جعلی نوٹ چھاپنے کا تھا، کسی ہوشو شیدی ، سردار احمد خان کھرل، فقیر ایپی ، تانیتا توپے ، یا بخت خان کی بغاوت نہیں تھی ، جرم ثابت نہیں ہوا تھا مگر اس کی تردید بھی نہیں ثابت ہوئی تھی. اگر محض زر مبادلہ کمانا ہی مقصود ہو اور عظمت کی نشانی تو پھر دہشت گرد، اسمگلر ، منشیات فروش، خرکار بھی یہی کر رہے تھے. اگر سوال یہ تھا کہ اور بھی لوگ ہیں جو یہی سب کر رہے ہیں، جیسا ایک صاحب نے ہمیں کہا کہ جناب آپ کو اور کچھ نظر نہیں آتا کیا؟ اس ملک میں کون ہے جو سیدھی طرح دولت کما رہا ہے؟ کون ہے جو غیر اخلاقی کام نہیں کر رہا؟ قرضے لے کر معاف کروانے والوں سے لے کر، جائداد پر قبضہ کرنے والے، رشوت دے کر ٹھیکے لینے والے ، اختیارات سے فائدہ اٹھانے والے ، بھتہ خوری کرنے والے ، کون ہے جو بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو رہا، پھر ایک ڈھول ہی کیوں؟ صاف بات ہے کہ اصل مسئلہ مسابقت ہے جو پہلے سے موجود لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث اور صرف اس لئے ڈھول کے پول کا ڈھول بج رہا ہے، آپ جو کہیں ہم تو ڈھول کے ساتھ ہیں، ساتھ بھی ہیں اور کام بھی کریں گے ، اچھا مستقبل ہمارا بھی حق ہے. ہم نے کہا تو بھی بات یہی ہے کہ پھر سچ، راستی، دیانت ، اصول ، نیکی، ایمان یہ سب باتیں رہنے دیں، جنّت کے دعویدار بھی نہ بنیں، جواب ملا بھائی صاحب جب اپنی اولاد کا مستقبل نظر میں ہو تو یہ سب ویسے بھی پیچھے رہ جاتا ہے. ان کی بات عملاً درست تھی، حقیقت یہی ہے کہ زندگی کی ایسی کئی حقیقتیں ہیں جو منطق اور سچائی کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں مگر آپ کھوٹے کو کھوٹا ہی کہیں، کھرا تو نہ کہیں. جھوٹے کو سچائی کا علمبردار بنا کر سچ کو شرمندہ تو نہ کریں، ایسی روایتوں کی بنیاد تو نہ ڈالیں کہ جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیں، ہم اسی طرح سمجھوتے کرتے کرتے معاشرے کو یہاں لے آئے ہیں کہ جہاں طاقتور اور بے ایمان شتر بے مہار کی طرح دوڑتے پھر رہے ہیں، قانون اور انصاف کا نام نہیں ہے، طاقت کو سلام ہے اور کمزور خوار ہے، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس معاشرے کی شکایت کرتے ہم تھکتے نہیں وہ خود ہماری کم ہمت اور سمجھوتوں کا نتیجہ ہے، جب جھوٹ کو اس لئے برداشت کریں گے کہ پیٹ کا سوال ہے، جب جھوٹے اور بے ایمان لوگوں کو اپنا رکھوالا بنائیں گے، جب جرم کو اس لئے مباح سمجھیں گے کہ قانون نہیں ہے تو یہ سب لوٹ کر آپ کے آگے تو آئے گا.
جن معاشروں میں انصاف کا بول بالا ہے وہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ قانون کی عملداری ہے، وہ اس لئے بھی ہے کہ فرد اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے، اس لئے جرم کرنا اتنا آسان نہیں اور مجرم معاشرے میں عزت نہیں پاتے، اور بقول جالب پتھر کو گہر،دیوار کو در،کرگس کو ہما نہیں لکھا جاتا . حسن ناصر سے شہباز بھٹی تک لوگوں کا خواب کیا تھا؟ جمہور کو شعور دینا کہ وہ تبدیلی لا سکتے ہیں، ایک اکیلا ہار سکتا ہے مگر اکثریت کھڑی ہو تو اس کو ہرانا مشکل ہے، اس لئے طاقت، جرم، نا انصافی کو اپنا مقدر نہ سمجھیں بلکہ اس کے خلاف ایک ہو کر کھڑے ہوں ، تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی مگر تبدیلی آئے گی، اگر امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے. آپ کو حق حاصل ہے کہ کسی چور کو نہ بخشیں ، سوال کریں ، لکھیں، عدالتوں میں کیس کریں، اپنے منتخب نمائندوں پر زور دیں کہ وہ قانون ساز اداروں میں یہ سوال اٹھائیں، وہ وہاں سیر کرنے تو نہیں گئے ایک ہو کر اپنے مفادات سے او پر اٹھ کر ہر مظلوم کا ساتھ دیں، یہ باتیں دہرائی ہوئی لگیں تو وجہ آپ کی نا کارکردگی ہے، لکھنے والے کا قصور نہیں، فیض نے کہا تھا کہ ‘ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے ، مقتل سے گزر کر جاتی ہے’ تو راستے میں ہر طرح کا خطرہ تو ہوگا مگر جو ان خطروں سے نہ گزرے اس کے نصیب میں سدّو میاں ہی رہ جاتے ہیں ، بنتے رہو الو اور کرتے رہو پیٹ پوجا ، وہ لوگ جو خاموش بیٹھے ہیں ان کے طوفان اٹھانے تک ایک کے بعد ایک شیخ سدّو آتا رہے گا، اور ڈھول ، ٹھمکا، جھمکا اور تاوان ان کا مقدر اور یہی روایت کہ شیخ سدو، بیگم ستارہ جان، ملکہ جان، جانو پھلواری، گلو پھلواری، ملک خیر آبادی ، شاہد لنگڑا اور جمی ٹنڈا کو کسی نہ کسی طرح عظیم محب وطن قرار دلوا دیا جائے اور جالب ایک طرف کھڑا یہی کہتا رہ جائے کہ
‘ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا ؟’ .