حضرت عثمان مروندی لال شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک – از خالد نورانی

sadae

حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کا 571 واں عرس مبارک شعبان کی اٹھارہ تاریخ سے سہیون شریف میں شروع ہوچکا ہے , سندھ کی تاریخ میں بالعموم اور پاک و ہند کی تاریخ میں بالخصوص عرس لال شہباز قلندر بہت بڑی ثقافتی , مذھبی اور سماجی سرگرمی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال شریک ہوتے ہیں , یہ عرس مبارک پاکستان بھر میں قلندری صوفی سلسلے سے وابستہ درویشوں اور فقیروں کے باہم میل ملاقات کا سبب بھی بنتا ہے

حضرت شیخ عثمان مروندی کے آباء و اجداد بغداد سے ہجرت کرکے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد محترم شیخ کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشایخ میں شمار ہوتے تھے خود حضرت شیخ عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے

شیخ عثمان مروندی شہباز قلندر 1196 کے آس پاس افغانستان سے ہندوستان آئے اور انہوں نے اس دوران سہیون میں قیام کیا اور یہ زمانہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے خاندانوں کی حکمرانی کا زمانہ تھا

شیخ عثمان مروندی صاحب جذب و وجدان تھے اور انہوں نے سندھ میں قیام کے ساتھ ہی سندھ کی عوام کے درمیان محبت , امن ,آشتی , ملجلکر رھنے اور صلح کل کا پیغام عام کیا

شیخ عثمان مروندی لال شہباز قلندر کو سندھ میں صوفیانہ شاعری , صوفی کلچر اور سندھ کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کرنے والے وہ صوفی تھے جن کی وجہ سے سندھی کلچر ایک واضح شکل وصورت اختیار کرپایا , ان کے شاگردوں مخدوم بلاول , شاہ لطیف بھٹائی اور سچل  سرمست شامل تھے جن کے بنا سندھی ثقافت و صوفی  شاعری کے وہ خدوخال نہیں ترتیب نہیں پاسکتے تھے

شیخ عثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ نے 1214  کے درمیان ہی کسی سال ملتان , اچ شریف اور پاکپتن کا دورہ کیا اور اس دوران اپنے زمانے کے تین بڑے ہم عصر صوفیوں سے ملاقات کی جن حضرت سید جلال بخاری اچ شریف . حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی اور  حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سے  ملتان میں

ملاقات کی  اور یہ ملاقات بعد ازاں گہری  دوستی میں بدل گئی

شیخ عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے  تھے , جس کیبوجہ ان کا نام لال شہباز قلندر پڑگیا

لال شہباز قلندر اپنی زندگی ہی میں بے پناہ شہرت اور مقبولت پاگئے تھے اور یہ شہرت ان کی وفات کے بعد  بتدریج بڑھتی جانے لگی اور امیر خسرو نے ان پر یہ قوالی لکھی

پت مری رکھیو بھلا جھولے لالن ….. سندھڑی دا سہیون , سخی شہباز قلندر

اور اس کو پھر بلھے شاہ نے مزید تراشہ اور خراشا

صوفی کلچر پاک و ہند کے اندربقائے باہمی کا ایک ایسا معاہدہ عمرانی ہے جس نے پاک و ہند کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ بنا ہوا  ہے اور اس کلچر نے ہر طرح کی خارجیت و تکفیریت کا ماضی میں مقابلہ کرنے کا باعث بنا ہے

معروف آرکیٹیکچر سہیل بھیانوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وادی سندھ ہو یا وادی گنگ و جمنان دونوں وادیوں میں تصوف نے علامات , امیجز اور کیلی گرافی کے ساتھ کام لیتے ہوئے کٹھ ملائیت کا مقابلہ کیا اور عوامی بولی کے اندر لوگوں کو خدا کے قریب کیا اور وہ سندھو وادی میں لال شہباز قلندر کو اس حوالے سے بذات خود ایک نئے مکتب کی بنیاد رکھنے والا بتاتے ہیں اور اسی بات کو رضا رومی معروف کالمسٹ بھی اپنے ایک مضمون میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لال شہباز قلندر بجا طور پر سندھ وادی کے اندر صلح کلیت کو عروج پر لیجانے والے صوفی کے طور پر سامنے آئے

میں یہ کہتا ہوں کہ شمالی ہندوستان ہو کہ جنوبی ہندوستان سب کی روح اور مغز یہی صوفی کا صلح کل کلچر ہے جس کی پیروی آج بھی برصغیر کی اکثریت کرتی ہے اور مسلم سماج کی اکثریت کا بھی یہی مسلک ہے

اس صوفی کلچر کو آج سندھ میں سب سے بڑا چیلنج سعودی عرب کے زیر اثر پروان چڑھنے والے متوازی و متصادم سلفی اور دیوبندی ازم سے ہے اور خاص طور پر دیوبندی ازم کے اندر جو دیوبندی تکفیری ,انتہاپسند رجحان سپاہ صحابہ پاکستان کے بینر تلے ابھرا ہے جو اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت کا نام دیتا ہے سندھ کی پوری تہذیب کے لئے خطرے کا سبب بن گیا  ہے اور یہ ایک مکمل طور پر اجنبی رجحان ہے جس کو ماضی میں سندھ کے اندر خود دیوبند سے تعلق رکھنے والے کئی ایک نامی گرامی مولوی بھی متعارف نہیں  کراسکے تھے  لیکن آج یہ اپنی جڑیں سندھ کے سماج کے اندر بناچکا ہے اور سندھ میں تکفیریت اب بہت نمایاں مسلک کے طور پر سامنے ہے

افسوس کا مقام یہ ہے کہ سندھ کے اندر ابھی تک دانشوروں کے ہاں دیوبندی تکفیریت کے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آنے کو تسلیم نہیں کیا جارھا اور ہماری انٹیلیجنٹسیا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آج کا دیوبندی ازم سنّی حنفیت کے پردے میں پاکستان , بنگلہ دیش اور بھارت کے صوفی ہند اسلامی تہذیبی کلچر کو تکفیری کلچر سے بدلنے کی کوشش کررہا ہے

اگر ہماری سرکاری اور غیرسرکاری تاریخ کی کتابوں کا جائزہ لیا جائے اور میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ہمارے ھیروز اور ہمارے ثقافتی اظہار کے نمائیندے شیخ اسماعیل دھلوی , سید احمد , محمد بن عبدالوھاب نجدی اور دارالعلوم دیوبند کے کجی والے لوگ بنائے جارہے ہیں جبکہ لال شہباز قلندر , شاہ عبدالطیف بھٹائی , سچل سرمست وغیرہ کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش ہے , لیکن اس دھرتی کی عوام نے اکثریتی طور پر تکفیری دھشت گردوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا ہے اور مزارات اولیاء اللہ پر بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے باوجود عوام کی حاضری اور رش کم ہونے میں نہیں آیا

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

shehbaz

Comments

comments