وھابیت و تکفیری دیوبندیت، سنی اسلام پر زبردستی مسلط کیا جانے والا چہرہ ہے – خالد نورانی

Wahhabism-Zionism

مسلم دنیا پر سب سے مشکل اور کڑا وقت تاتاریوں کی مسلم دنیا پر یلغار کے وقت آیا تھا اور اس زمانے میں بھی اسلامی دنیا کو حیات نو ایک صوفی کے دم قدم سے ملی تھی اور وہ صوفی تھے جمال الدین رحمہ اللہ جن سے ایک تاتاری شہزادے نے پوچھا تھا کہاو میاں یہ بتاؤ کہ تمھاری داڑھی اچھی ہے یا مرے کتے کی دم اللہ کے ولی نے بے اختیار جواب دیا تھا کہ اگر میں انسان اچھا ہوں اور اللہ کا نیک بندہ ہوں تو میری داڑھی اچھی وگرنہ کتے کی دم اس سے بہتر ہے, اس شہزادے نے یہ بات سنی تو جمال دین سے بہت متاثر ہوگیا اور اکثر آپ کی خدمت میں حاضر رھنے لگا اور پھر ایک روز مشرف بااسلام ہی و گیا
یہ صوفی درجہ احسان پر فائز ہونے والے لوگ تھے جنھوں نے تاتاریوں کی وحشت اور خون خواری کے آگے بند باندھا, اور ان کے اندر انسانیت جگائی اور یہی وجہ ہے کہ پورے وسط ایشیا ‘ انڈو چین تک اسلامی تصوف کی روشنی پھیل گئی اور لوگ دیندار ہو گئے

صوفی کے مقابلے میں تاتار کی یورش سے نکلنے کا علم ابن تیمیہ اور ان کی جماعت نے بھی اٹھایا تھا اور پہلے دن سے انھوں نے نہ صرف غیر مسلم تاتاریوں کے خلاف نفرت اور منفی سرگرمیوں کا بازار گرم کیا بلکہ جو تاتاری مسلمان ہو گئے تھے ان کے ایمان کی بھی توھین کرنا شروع کردی اور پھر یہاں تک ہوا کہ ان کے خلاف جہاد بالقتال تک کا فتوی بھی دیا گیا اور تلوار بھی اٹھائی گئی

ابن تیمیہ کٹھ ملائیت کی مکمل تصویر تھا جس کی شدت پسندی نے لوگوں کو اسلام سے دور تو کیا قریب نہیں کیا اور اگر صوفیائے کرام نہ ہوتے تو,اسلام عرب ‘ وسط ایشیا اور انڈوچین میں اجنبی مسافر کی طرح ہوتا شیخ ابن تیمیہ کی فکر ان کے مخصوص حلقہ ارباب تک رہی اور یہ ایک زمانے میں بالکل کمیاب ہو گئی اس کی فکر کو محمد بن عبدالوھاب نے انیسویں صدی میں پھر سے زندہ کیا اور اس مرتبہ اس کا نشانہ جدید کالونیل ازم کے علمبردار نہ تھے بلکہ خود ساری مسلم آبادی تھی جس میں انھوں نےجلی شرک اور بدعت دیکھ لی اور سارے عالم اسلام کو دوبارہ سے پکا اور,سچا موحد بنانے کے لئے جہاد شروع کر دیا گیا اور اس وھابیت نے اپنے تصور اسلام میں تصوف کےلئے کوئی گنجائش نہیں رکھی اور اس زمانے میں ابتک کی پوری مسلم معاشرت پر غیر اسلامی, مشرکانہ زھنیت کو غالب بتایا گیا اور اس طرح سے صدیوں سے مسلمانوں نے مل کر جو معاشرت بنائی اور اس سے جو ثقافت بنی اسے غیر اسلامی, بدعتی اور مشرکانہ ثقافت کہ کر مسترد کر دیا گیا

کتنی بڑی ستم ظریفی کہ چودہ سو سال میں جن اسلاف وصلحائے امت نے مسلم معاشروں کی ثقافتی تشکیل میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا تھا ان کی بجائے امت مسلمہ کے سلف سے مراد ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوھاب ہی رہ گئے اور خود نجد وحجاز و یمن کے بعض علاقوں کو قبضے میں لیکر وہاں پر وھابی نام نہاد اسلام کا اجنبی پودا لگایا گیا اور اس وھابی علم کے نیچے جمع ہو جانے والوں نے امت مسلمہ کے گلے کاٹنے کو عین اسلام سمجھ لیا
آج اسلام دنیا کے تمام. خطوں میں اگر اپنا تشخص رکھتا ہے تو اس کا سبب وھابیت نہیں ہے اور نہ ہی سعودی عرب کے ملاؤں کی جعلی سلفیت بلکہ اس کی وجہ محمد عربی علیہ الصلوات و التسلیم کے مقام حقیقی اور ان سے محبت کو کمال ایمان سمجھنے والے صحابہ کرام , اہل بیت اطہار , تابعین و تبع تابعین اور بعد میں آنے والے صلحائے امت کا کردار اور کام ہے

نام نہاد سلفی دعوت اور داعش جیسی تنظیموں نے یورپ کے چند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اگر وھابی اسلام کی جانب راغب بھی کیا تو یہ خون خوار درندے بنکر شام اور عراق میں مسلمانوں کے گلے کاٹنے اور مساجد میں پھٹ جانے کا کام کررہے ہیں آج یورپ اور امریکہ میں اسلام کے دشمنوں کو پیغمبر اسلام کے توھین آمیز خاکے بنانے اور اسلام کی توھین و تنقیص کو عام کرسچن آبادی کے اندر مقبول بنانے کا موقعہ بھی وھابیت کے بطن سے پھوٹ پڑنے والی تکفیری دیوبندی -جعلی سلفی دہشت گردی نے دیا ہے اور یہ پوری طرح سے دین ملا فی سبیل اللہ فساد کی تصویر بنی ہوئی ہے سنی اسلام کی ترجمانی صوفیاء نے کی جن کا تعلق مزاھب اربعہ سے ہے اور وھابیت سنی اسلام پر زبردستی مسلط کیا,جانے والا چہرہ ہے

Comments

comments