کیا فرق پڑتا ہے ؟

index

ہر کام کبھی نہ کبھی پہلی دفع ہوتا ہے، آدم سے بھی غلطی کبھی پہلی دفع ہوئی تھی ، پھر اس کے بعد انسان نے غلطی کا پتلا بن کر دکھایا. لیکن کیسی دلچسپ بات ہے کہ خدا نے فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی ساتھ ہی دے دی کہ میاں سوچو ، غور کرو ، فیصلہ تمہارے ہاتھ کہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہو، اس صلاحیت نے انسان کو کیسے کیسے دوراہوں پر لا کھڑا کیا ، کہیں میر صادق  پیدا ہوا تو کہیں فتح علی خان ٹیپو سلطان ، سب فیصلے کا کمال تھا، کسی نے سر کو سینے پر ایسا جمایا کہ بھولے سے بھی نا اٹھے تو کسی نے ایسے سر اٹھایا کہ اب کٹ کر ہی جھکے گا.

اب سوچیں تو کسی نہ کسی نے کبھی نہ کبھی ایسا فیصلہ بھی لیا ہوگا جو نہ لیتے تو بہتر ہوتا، کسی نے پہلی دفع اپنی بیٹی کسی راشی سے بیاہی ہوگی، لوگوں نے کہا ہوگا کہ میاں لڑکا راشی مشہور ہے ، رشوت کھاتا ہے اور انہوں نے جواب دیا ہوگا کہ کیا فرق پڑتا ہے ، کسی نے پہلی دفع رشوت بھی یہی سوچ کر دی ہوگی کہ کیا فرق پڑتا ہے ، پتہ نہیں ان کو فرق پڑا ہو کہ نہیں مگر رشوت خوروں کو یہ سوچ کر برداشت کرنے سے کہ کیا فرق پڑتا ہے ، پورا معاشرہ کہاں سے کہاں آن پنہچا کہ آج سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد ، آج شریف آدمی اپنی عزت کے بھرم میں نہیں بلکہ عزت دار ہونے سے رسوا ہے ، کہیں پھنس جائے تو نکلنے کا راستہ نہ ملے کہ جنگل تیرے ، بستی تیری ، پربت تیرے، صحرا تیرا.

یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی طبقاتی تضادات بڑھتے جا رہے ہیں وہاں اخلاقیات اور اصول، قانون اور ریاست کمزور پڑتے جا رہے ہیں، یعنی معاشرے میں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر ہر دو سمتوں میں انحطاط کا عمل جاری ہے، نہ شہری اس قابل ہیں کہ حقوق اور فرائض کو سمجھ سکیں اور نہ ریاست اس قابل ہے کہ قانون کی پاسداری ممکن بنا سکے. اس کا فائدہ براہ راست اعلیٰ طبقات کو ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی کمزور اکثریت سے خوفزدہ هوئے بغیر لوٹ مار میں لگے رہتے ہیں، سیاسی اور نظریاتی تحریکیں ایسے میں ضروری ہوتی ہیں، مگر یہ تحریکیں ان افراد کی مرہون منت ہوتی ہیں کہ جو یہ فیصلہ کر سکیں کہ کرنا کیا ہے؟ الٹے ہو کر لیٹ جانا ہے کہ کھڑے رہنا ہے، بنیادی فیصلہ پھر صحیح اور غلط کا آ جاتا ہے. جو یہ فیصلہ نہ کر سکے یا جو اپنا وزن کسی بھی خوف جیسے بھوک، غربت، گھر، خاندان، عزت کی بنا پر غلط پلڑے میں ڈال دے. ظلم پر چپ رہنا بھی تو ظلم کا ساتھ دینا ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ایسے لوگ اکثریت میں رہے ہیں جو چپ رہے . سہتے رہے، پھر کسی واقعے یا شخص نے ان کی آنکھیں کھولیں یا وہ مجبور ہو گئے کہ کوئی چارہ ہی نہ رہا سواۓ بغاوت کے اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بڑے بڑے نظام، بڑے بڑے بادشاہ اور شہنشاہ، ریت کی طرح آندھیوں میں اڑ گئے ، غور کرنے والوں کے لئے بے شک نشانیاں ہیں، ایک بیبرس عین الجالوت پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو منگولوں کے بڑھتے طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے، اگر وہ ڈر کے بھاگ جاتا تو کیا ہوتا؟ نیلسن منڈیلا پچیس سال سلاخوں کے پیچھے گزرتا ہے مگر پیچھے نہیں ہٹتا اور اس کے ساتھی بھی ڈٹے رہتے ہیں، نہیں کرتے یہ لوگ جدوجہد کہ کیا فرق پڑتا مگر ہم سب کو پتا ہے کہ کیا فرق پڑتا. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ظالم کا اصل ہتھیار کیا ہے؟ اس کی قوت ، اس کی درندگی، ظلم، بربریت، یا پھرعام آدمی کا خوف یا اس کی خاموشی اور خود غرضی ؟

کئی سال پہلے یہ قصہ کہیں پڑھا تھا کہ ایک مولوی صاحب کے گھر پڑوس سے مرغی آ گئی ، ان کی بیوی نے پکڑی، حلال کی اور پکا لی، شام میں مولوی صاحب گھر آئے ، کھانا کھانے تو پتہ چلا کہ مرغی پکی ہے اور کیونکر پکی ہے، بڑا طیش میں آئے ، بیوی کو خوب ڈانٹا ، اسی اثنا میں ہانڈی کی خوشبو سے پریشان بھی ہوتے رہے، بولے کہ ہم صرف روکھی روٹی کھائیں گے، ہانڈی کو پھینک دو، بیوی نے دو روٹیاں میاں کے آگے رکھیں اور ہانڈی اٹھا کر کھڑی ہوئیں کہ پھینک آئیں، تو مولوی صاحب بولے ٹہرو ، مرغی چوری کی ہے پر مسالحہ، تیل، اور لکڑی تو اپنی تھی، چلو مجھے صرف شوربہ دے دو، بیوی بولیں ہاں یہ تو ہے، بیٹھ گئیں اور ہانڈی سے شوربہ نکالنے لگیں، پہلی دفع میں ایک بوٹی بھی آ گئی ، انہوں نے اس واپس ہانڈی میں ڈال دیا، پھر شوربہ نکالا پھر ایک بوٹی چلی آئی ، پھر واپس ڈال دی. مولوی صاحب بیٹھے دیکھ رہے تھے، بولے یہ بوٹی تم نکالتی ہو کہ آپ سے آ جاتی ہے، وہ بولیں آپ سے آ جاتی ہے، بولے اچھا مرغی بھی آپ سے آئی تھی کہ تم پکڑ لائیں تھیں، وہ بولیں آپ سے آئی تھی، تو مولوی صاحب بولے پھر یہ ہمارا تو قصور نہ ہوا نا ، آپ سے آئے تو آنے دو.  کسی نہ کسی نے اسی طرح کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ کیا ہوگا اور ہم سب کرتے ہیں جو نہ کیا جاتا تو بہتر ہوتا. آخر کار اپنے ہر قدم کے ذمّہ دار ہم خود ہیں ، یہ فیصلے کی گھڑی ہے جو آنے والے وقت کا تعین کرتی ہے، اور فیصلہ کسی اور کو نہیں بلکہ ہر انسان کو ہر پیش آنے والی  آزمائش کے وقت  خود کرنا ہوتا ہے. اور آزمائش کی اس گھڑی سے گزر کر صرف وہ لوگ امر ہوتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف نہ جائیں ، باقی سب وقت کی دھول بن جاتے ہیں، مفاد پرستی سے سانس تو چل جاتی ہے مگر زندگی نہیں، کہ زندہ رہنا محض سانس لینا نہیں. اور یہ حیرت کی بات نہیں کہ فرانس ہو یا چین، روس ہو یا امریکہ، بھارت ہو یا جنوبی افریقہ، وینزویلا ہو یا مصر، جب عام آدمی اٹھتا ہے تو اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور بڑے بڑے بت گر جاتے ہیں، جو نا ممکن نظر آئے وہ ہو جاتا ہے اور انسان کو سوچنا پڑتا ہے کہ اس کا نجات دہندہ اسی میں چھپا ہے.

Comments

comments