تکفیری فاشزم – مفہوم ، اصطلاح اور رد- دوسرا حصہ – عامر حسینی
ناھض حتر نے اپنے مضمون فاشیہ الاسلامیہ : المفہوم والمصطلح والردکے آخری حصے میں بہت ہی اہم مباحث کو اٹھایا ہے اور ایک پہلو سے انہوں نے ان لوگوں کو بھی جواب دینے کی کوشش کی ہے جو عصر حاضر کے تکفیریوں کے بارے میں ان کا نام لیکر اور ان کی فکری جہت کو زیر بحث لانے سے انکار کرتے ہیں اور اسے فرقہ واریت یا اسے مسلکی لڑائی کا نام دیتے ہیں
ناھض حتر کہتا ہے کہ مسلم دنیا کی قرون وسطی کی تاریخ میں فکری اعتبار سے صوفیا ، عقلاء اور حقیقت پسند فلاسفہ کے مکاتب فکر سے ھٹ کر جو ظاہری تھے انہوں نے قرآن کے متن کے تاریخی پس منظر ، ان کے خاص سیاق و سباق اور پھر اس متن سے پھوٹنے والی تکثریت کو پس پشت ڈال کر ایک ہی ظاہری معنی یا تعبیر پر اصرار کیا اور انہوں نے قرآن میں کفار ، مشرکین ، منافقین اور باغیوں کے حوالے سے سورہ توبہ کی آیات کے خاص احکام کو مطلق اور یک رخی احکام میں بدل ڈالا اور اسی راستے سے انہوں نے تکفیر المسلمین کا باب بھی کھول لیا اور قرآن کے متن پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی اور اسی اجارہ داری کے تحت انھوں نے اپنے سوا باقی سب کو کافر ، مشرک ، بدعتی ، ضال و مضل اور ان سے قتال کو واجب کرلیا تو عصر حاضر کے تکفیری گروہ اگر مسلم علم کلام کی جدلیات کی رو سے دیکھیں جائیں تو خود مسلم معاشروں کی جو علمی حرکیات ہے اس کے بھی دشمن ہیں ، ناھض حتر نے بین السطور ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ قرآن اور سنت کے متون سے کثیر المعنی اور اس کے تاریخی سیاق وسباق سے ابھرنے والی تعددیت کو مڈل ایسٹ میں سنی مذاھب اربعہ اور جعفری فقہ کی گونا گوں تشریحات کو یک رخی بنانے کی کوشش کی
اور میں یہاں کہتا ہوں کہ برصغیر پاک وھند میں نام نہاد ھجومی جہادی تحریکیں جوکہ غیر مقلد اور دیوبندی مکاتب فکر کے اندر سے پھوٹی تھیں انہوں نے بھی براہ راست برصغیر میں جو تعبیر و تشریحات کا تنوع تھا جسے مذھب حنفی اور مذھب جعفریہ نے یہاں پر موجود دیگر ادیان کے لوگوں کے ساتھ مطابقت پذیری کے لئے تخلیق کیا تھا اسے شرک و بدعت ، غیر اسلامی ، جاھلانہ ، غیر صالح اور دیگر کئی اصطلاحوں کے زریعے سے مطلق ظاہریت پسندی میں بدلنے کی کوشش کی اور اسی کے بطن سے تکفیریت کا ظہور ہوا ، شیخ اسماعیل دھلوی اور سید احمد کی تحریک جہاد اور طریقہ محمدیہ نامی تنظیم نے دھلی ، پنجاب ، سرحدی علاقوں ، بنگال وغیرہ میں یہی کچھ کرنے کی کوشش کی تھی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے
لیکن ناھض اس کلامی مبحاث سے ھٹ کر اسلامی فسطائیت کا ایک اور طرح سے بھی جائزہ لیتا ہے اور وہ جائزہ بہت اہم ترین ہے ، یہاں پر وہ سب سے پہلے اطالوی ، جرمن اور دیگر یوروپی علاقوں سے اٹھنے والی فسطائی تحریکوں کے بارے میں بات کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح سے یہ تحریکیں اصل میں یوروپ کے اندر منڈیوں پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے اور سرمایہ داری کے بحران سے نکلنے کے لئے رنگ ، نسل کے تعصبات اور شاونزم کے استعمال کو سامنے لیکر آئیں اور خود یوروپی سرمایہ دار طبقات نے بھی اس زمانے میں سوشلزم ، مزدور تحریک سے نمٹنے کے لئے فسطائی گروہوں کو پھولنے پھلنے دیا اور اسی کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم بھی سامنے آئی کہ پوری سرمایہ دار دنیا سوویت یونین کو تباہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھی اور ان کو ھٹلر و مسولینی اور ان کے فسطائی نظریات سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورھا تھا لیکن جب فاشزم اپنی پوری خوفناکی کے ساتھ سامنے آگیا اور اس نے پورے مشرقی یورپ کو روند ڈالا اور امریکہ و برطانیہ و فرانس کے دارالحکومتوں کو کھنڈرات میں بدلتا دیکھا تو پھر مغربی یورپ اور امریکہ کو فاشزم کے خلاف ایک عالمی اتحاد ہیومن ازم کی بنیاد پر بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی
ناھض کہتا ہے کہ تکفیریت عصر حاضر کی وہ ایک خاص سماجی ، سیاسی اور تاریخی تناظر رکھتی ہے اور یہ محض کوئی ایک فرقہ نہیں ہے کہ جس کے خلاف کلامی مناظرہ کرکے اور اسے اسلام میں اجنبی پودا قرار دیکر نمٹا جاسکتا ہے بلکہ ناھض حتر کہتا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح کے ایسے اتحاد کی ضرورت ہے جس کی بنیاد انسانیت پر ہو ، وہ کہتا ہے کہ مڈل ایسٹ میں تکفیریت حاضر براہ راست 70ء کے دور سے شروع ہونے والے معاشی -سیاسی بحران کا نتیجہ ہے اور یہ نتیجہ ہے اس گلف عرب کے اندر موجود ریاستی جبر اور ایک مخصوص قسم کی ظاہریت ہر مبنی وھابیت کو فروغ دئے جانے کا جس کی بگڑی شکل ہمیں داعش کی صورت میں نظر آرہی ہے
اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے تو مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں مغرب نے بادشاہوں ، آمروں اور فوج کے ساتھ ملکر مسلم معاشروں میں جمہوری ،سوشلسٹ قوم پرست تحریکوں کا راستہ روکا اور اس کے لئے وھابی آئیڈیالوجی کو استعمال کیا اور ان ممالک میں ھجومی جہادیوں کو پروموٹ کیا یا ان کی جانب سے آنکھیں بند رکھیں اور آج یہ ھجومی جہادی ، تکفیری کرنٹس ایک درندے کی شکل اختیار کرچکے ہیں
حال ہی میں جوڈیشل واچ کو امریکی محمکہ دفاع اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جو سو سے زائد کلاسیفائیڈ دستاویزات فراہم کی ہیں انہوں نے صاف صاف بتایا ہے کہ امریکہ کو علم تھا کہ القائدہ ، اخوان المسلمون اور دیگر کئی ایک تکفیری سلفی گروپوں کے درمیان اتحاد و اشتراک ہوچکا ہے اور وہ نہ صرف لیبیا سے اسلحے کی بہت بڑی کھیپ شام منتقل کرچکے ہیں بلکہ وہ بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا پروگرام بنارہے ہیں جبکہ امریکہ ، یورپ ، ترکی ، گلف ریاستیں باہم ملکر شام میں جس نام نہاد اعتدال پسند اپوزیشن کو اسلحہ اور پیسے دے رہے تھے
اس کے اندر موجود غالب پوزیشن میں تکفیری سلفی دیوبندی دہشت گرد گروپوں کے بارے میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان کو پہلے ہی پتہ چل چکا تھا اور عراق کے اندر داعش کے ظہور کا بھی قبل از وقت پتہ چلایا جاچکا تھا لیکن اوبامہ انتظامیہ نے صدارتی انتخاب جیتنے اور یہ چھپانے کے لئے کہ اوبامہ ایڈمنسٹریشن کی عراق ، شام میں پالیسیاں ناکامی کی طرف جارہی ہیں ان سب چیزوں کو چھپالیا گیا اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ ، یورپ نے گلف ریاستوں کے ساتھ ملکر داعش کے خلاف جو کولیشن بنایا اس کی کاوشیں ابتک ناکامی سے عبارت ہیں یہ کولیشن داعش کو شام میں پسپا کرنے میں ناکام رہا اور داعش اب شام اور عراق کی سرحد کے سارے علاقے پر قابض ہے جبکہ رمادی و انبار پر بھی داعش کا قبضہ ہے اور یمن پر حملے کی صورت نے یمن میں القائدہ کو پھر سے مضبوط کردیا ہے
ناھض حتر کہتا ہے کہ مغرب اور امریکی سرمایہ دار دانشور مڈل ایسٹ ، نارتھ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے اندر اسلامی فسطائیت یا تکفیری فاشزم کو تہذیبوں کے تصادم اور اسے اخلاقی و غیراخلاقی کے درمیان تصادم کی صورت میں دیکھتے ہیں جبکہ تکفیری فاشزم کو ایسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی ، معاشی اور سماجی ، تاریخی تناظر کو پیش نظر رکھنا چاہئیے تبھی عصر حاضر کی تکفیریت کی تفہیم پوری طرح سے سمجھ میں آسکے گی ، ناھض کہتا ہے کہ تکفیری فاشزم کو سمجھنے کے لئے یہ بات بھی سمجھنا چاہئیے کہ عرب ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے مسلم ممالک ڈویلپمنٹ ، ماڈرنائزیشن سے جڑے بہت سے بنیادی ایشوز کو تاحال حل کرنے میں ناکام رہے ہیں
جبکہ وہ کالونیل دور کے بعد ایک لمبے عرصے سے پوروپی سرمایہ داری کی تابعداری میں مصروف ہیں ، عرب ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں ڈویلپمنٹ اور ماڈرنائزیشن کے ساتھ جڑے مسائل کے حل میں ناکامی کے جواب میں عصر حاضر کی اسلامی فسطائیت اور اس کے بطن سے جنم لینے والی تکفیری فسطائیت خلافت کے قیام کا نعرہ لگاتی ہے اور خلافت کے احیاء کی بات کرتی ہے اور ناھض کے نزدیک یہ ویسا ہی آدرش ہے جیسا نازی آدرش یا نصب العین تھا کہ وہ قرون وسطی میں سلطنت روما کی طرح کی سلطنت کا احیاء چاہتے تھے اور آج کے تکفیری خلافت کے احیاء کی بات کرتے ہیں اور اس لے بطن سے فاشزم جنم لے رہا ہے جس سے مقابلے کے لئے بڑے وسیع پیمانے پر اتحاد کی ضرورت ہے
مجھے تو یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں میں آج بھی جس طرح سے ھجومی جہادیوں کو بطور پراکسی استعمال کرنے کی روش جاری و ساری ہے اور سلفی و دیوبندی مکاتب فکر کے اندر سے ھجومی جہادیوں کی پیٹھ تھپکنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن بہت جلد وہ وقت آئے گا جب یہ ریاستیں اور مکاتب فکر خود اس درندے کی درندگی سے دوچار ہوں گے اور پھر ان کو پوری طاقت سے ان کے خاتمے کی فکر ستائے گی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی جس میں کم از کم گلف ریاستوں کی بادشاہتوں کا بکھرنا تو نوشتہ دیوار ہوگ