تکفیری فاشزم – مفہوم ، اصطلاح اور رد- حصہ اول – عامر حسینی
اگر یہ خود ستائشی پر مبنی بات نہ لگے تو مجھے اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں شاید میں وہ پہلا آدمی تھا جس نے سلفی اور دیوبندی مکاتب فکر سے اٹھنے والی تکفیری لہروں کو تکفیری فاشزم یا دیوبندی -سلفی تکفیری فاشزم قرار دیا تھا اور ماڈرن ٹرمنالوجی میں اس اصطلاح کو استعمال کرنے پر زور دیتا آیا تھا
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اب اس اصطلاح کو خود مڈل ایسٹ میں سعودی عرب ، گلف کی دیگر ریاستوں ، ترکی اور مصر کی حکومتوں سے آزاد میڈیا کے اندر بھی اس ٹرمنالوجی کو قبول عام حاصل ہورہا ہے اور دہشت گردی کے فنومنا کو سمجھنے والے اسے خوامخواہ اسلام یا بذات خود مذھب سے جوڑ دینے والے رویوں سے دور ہورہے ہیں
معروف عرب صحافی ، تجزیہ نگار ناھض حتر نے الاخبار بیروت میں اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے
أستخدم، وأدعو لاستخدام مصطلح «الفاشية الإسلامية» في وصف التكفيريين والطائفيين والمتزمتين من أتباع الوهّابية وفروعها والاخونجية وفروعها التابعة للخط الإرهابي الذي بلوره سيد قطب، في كتابه «معالم على الطريق»، كما في تفسيره المعروف «تحت ظلال القرآن». ولا توجد منظمة إرهابية تزعم انتسابها إلى الإسلام، إلا أن تكون وهّابية أو إخونجية في أصولها أو نهجها أو منهجها الحركيّ؛ فحتى المنظمات الشيعية التي مارست الإرهاب، ردحا من الزمن في العراق، كانت تمثّلت منهج الإخونج
ناھض حتر نے الفاشیہ الاسلامیہ کی اصطلاح استعمال کی ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس اصطلاح کو مزید ماڈریٹ کرنے کی ضرورت ہے اور الفاشیہ التکفیریہ زیادہ درست ہے
ناھض حتر کہتا ہے کہ وہ اس اصطلاح کو تکفیریوں ، اب گروہوں اور شاخوں جو وھابیہ کی اتباع کرتے ہیں یا اس کی فروعات ہیں ، اخوانی اور ان کی آگے زیلی شاخیں کے لئے استعمال کرتا اور استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہوں ، یہ وہ تمام گروہ ہیں جو ان خطوط پر تشدد و خون خواری کا استعمال کرتے ہیں جن خطوط کی عکاسئ سید قطب نے اپنی کتاب
معالم فی الطریق
میں کی ہے اور جس طرح سے اس نے اپنی تفسیر قرآن
فی ظلال القرآن میں کی ہے اور ہم جہاد کا وہ تصور جو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے سوائے وھابیہ و اخوانیہ کے اصول و منھاج کے سوا کہیں اور نہیں پاتے یا پھر یہ تصور ہمیں ان چند ایک شیعہ تنظیموں کے ہاں ملتا ہے جن کی تشکیل عراق میں اخوان کے منھج سے مماثل منھج پر ہوئی
ناھض حتر مسلم دنیا کے اندر جہاد کے نام پر ہونے والی عسکریت پسندی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے لکھتا ہے
والفكرة المركزية الحاكمة في جميع الحركات الإسلامية أن الجهاد نوعان: دفاعي يندرج في مفهوم المقاومة الوطنية (كما هو حال حزب الله وحركة الجهاد الإسلامي الفلسطينية وعصائب أهل الحق العراقية وحركة أنصار الله اليمنية) أو جهاد هجومي (كما هو حال المنظمات الإرهابية).
مجموعی طور پر اسلامی تحریکوں کے مرکز فکر میں جہاد کی دو اقسام ہیں
ایک دفاعی جہاد ہے جس کا مطلب اصل میں دافع وطن کے لئے مسلح جدوجہد کرنا ہے جیسے حزب اللہ اور حرکت جہاد اسلامی الفلسطینی ، عصائب اہل الحق العراقیہ اور حرکت الانصار الیمنیہ وغیرہ ہیں اور دوسرا جہاد ، جہاد جارحانہ ہے اور جہاد کی یہ قسم وہ ہے جو ہمیں وھابیہ و اخوانیہ اور ان کی دیگر شاخوں کے ہاں نظر آرہی ہے
ناھض حتر کا کہنا ہے کہ یہ جو دفاعی جہاد ہے یا دفاع وطنی ہے یہ صرف مذھب یا اسلام سے خاص نہیں بلکہ یہ تو اپنے جوہر میں سیکولر ہے فرق صرف اتنا ہے کہ جو مذھب اسلام پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک دفاع وطن دینی فریضہ بھی ہے اور اس حوالے مقاومت کرنا عین دین ہے لیکن دفاع وطن کے لئے مقاومت ساری قوم ملکر کرتی ہے اور اس میں مذھبی بنیاد پر کوئی تمیز یا امتیاز نہیں برتا جاتا
ناھض حتر کہتا ہے جو لوگ ھجومی یا جارحانہ جہاد کے قائل ہیں وہ ایک تو لفظ جہاد یا قتال کے بارے میں اسلامی احکام کو قرآن و حدیث کے اندر بنا کسی تاریخی تناظر کو مدنظر رکھے اور اس حوالے سے کسی تحدید کو خاطر نہ لاتے ہوئے اپنی خواہش کے مطابق جہاد کا تصور گھڑتے ہیں اور اس حوالے سے سورہ توبہ کی آیات کو سیاق و سباق اور تاریخی تباظر سے ہٹ کر اپنی مطلب براری کے لئے من مانے مفہوم کے ساتھ پیش کرتے ہیں
ناھض حتر کا کہنا ہے کہ ھجومی جہاد یا
Offensive Jihad
اس کی نظر میں قرون وسطی میں یا تو یہودیوں کے ہاں رائج تھا یا پھر یہ قدامت پرست عیسائیوں کے ہاں تھا اور اس کو زبردستی مفہوم جہاد کو مسخ کرکے تکفیری فسطائیوں نے مسلم دنیا میں متعارف کروایا ہے
ناھض حتر اس حوالے سے ایک بات بہت پتے کی کرتا ہے کہ ھجومی جہاد فکر اسلامی کا جمہوری اور اکثریت کا منھاج کبھی بھی نہیں رہا اور اسے امت مسلمہ کی اکثریت نے کبھی بھی قبول عام کی سند نہیں دی بلکہ ھجومی جہاد جس کا جوہر قتل و غارت گری ، وحشت ، لوٹ مار وغیرہ ہیں اصل میں بدوی ، قبائلی خصلتیں ہیں اور اس کا مقاومت وطن یا دفاع وطن کے لئے کئے جانے والے جہاد سے کوئی مناسبت نہیں ہے
ناھض حتر نے اپنے موقف کی مزید وضاحت کے لئے مسلم تاریخ سے بھی استفادہ کیا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خوارج سے مقابلے کے موقعہ پر اختیار کی گئی حکمت عملی اور ابن عباس کے خوارج سے مکالمے کا زکر کرتے ہوئے ایک نکتہ یہ نکالا ہے کہ جمہور اسلامی روائت انسانیت پسندی کی روائت تھی جس میں لوگوں کا محض ان کے عقیدے یا خیال کی بنیاد پر قتل جائز نہیں تھا اور یہ روائت انسانیت جمہور اسلامی مدارس کی رہی اور اس روائت کو صوفیاء اور عقلا ، فلاسفہ و حکماء اسلام نے بھی اختیار کیا اور ناھض کا کہنا یہ ہے کہ یہ جو اسلامی انسانیت پسندی کی جمہور کی روائت ہے اس میں تکفیر کی گنجائش نہیں تھی ، ناھض حتر کہتا ہے کہ خوارج کے ہاں تکفیری روائت نے جڑ پکڑی تو بدوی و قبائلی عصبیت بھی ان کے ہاں اپنے عروج پر تھی جبکہ تکفیر ، قتل و غارت گری ، مسلمانوں کو حیلے سے قتل کرنے کی روائت ایک منظم طریقے سے ہمیں شامیوں کے ہاں نظر آئی جسے غلط طور پر شام کے حاکموں نے ” سنی اسلام ” کا نام دیا
یہ جو شام سے مجموعی طور پر سیاسی ، معاشی ، ثقافتی اور عسکری روائت سامنے آئی اگر ہم اس کا جائزہ لیں تو اس روائت کے خلاف ہمیں عراق ، مصر ، حجاز ، یمن اور ایران غرض کہ جتنے بھی مسلم روائت کے ثقہ مراکز تھے سب کی طرف سے مزاحمت اور مخالفت ہوتی نظر آئی اور ان سب مراکز کو شام کے حاکموں نے زبردست جبر و ستم اور خون خوار فوجی چڑھائیوں کے زریعے سے اپنے ماتحت کیا اور اسلامی دنیا کے سب سے بدترین سانحے اور المئے بھی اسی شامی روائت کے تحت وقوع پذیر ہوئے ، جید اصحاب رسول ، اہل بیت اطہار ، تابعین ، تبع تابعین ، شیر خوار بچے ، عورتیں غرض کہ کوئی محفوظ نہ رہا ، شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، شہادت امام حسن ، شہادت امام حسین ، واقعی کربلا ، شہادت عبداللہ بن زبیر ، واقعہ حرہ اور اس دوران ایک ھزار مہاجر و انصار کی عورتوں سے زنا اور ان سے ناجائز بچوں کی پیدائش جیسے شرمناک واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے اور یہ وہ سب کچھ تھا جس کے بارے میں ہمیں کتب حدیث میں ابواب الفتن میں درجنوں احادیث ملتی ہیں ، ابوھریرہ 60 ھ سے پہلے پہلے موت کی دعا مانگا کرتے تھے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کہا کرتے تھے کہ مرے بعد جو حوادث اہل عراق و حجاز نے دیکھنے ہیں ان کا تصور بھی محال ہے
ناھض حتر نے جس بدوی ، قبائلی اور عصبیت پر مبنی روائت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شامی اور خارجی فکر کے جوہر کی نشاندھی کی وہ بہت اہم ہے اور دور حاضر کی تکفیری روائت اور تکفیری فاشزم کو سمجھنے سمجھانے میں ممد ومعاون ہے اور اگر ہم محمد بن عبدالوھاب تمیمی کی 1895 کے شروع میں تحریک وھابیت کے ارتقاء کو دیکھیں اور اس سے پہلے شیخ ابن تیمیہ کی تحریک اور فکر کو دیکھ لیں تو ہمیں ان تحریکوں کی خارجی اور شامی روایات سے مماثلت کے بہت سے ثبوت میسر آجائیں گے ، اسی طرح سے ناھض کی ھجومی جہاد کی اصطلاح کو اگر ہم برصغیر پاک وہند میں شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد پر منطبق کریں تو ہمیں یہ جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ یہ تحریک جہاد ھجومی جہاد کی ایک قسم تھی جس میں تکفیر ، بدوی ، قبائلی عصبیت بدرجہ اتم موجود تھی اور شیخ اسماعیل و سید احمد کی تحریک جہاد کے مقابلے میں 1857ء کی جو جنگ آزادی تھی وہ بہت واضح مقاومت وطن اور دفاعی جہاد کے زمرے میں آتی ہے ، اسی لئے یہ آزادی کی جنگ ہندو ، مسلم ، سکھ ، بدھسٹ ، پنجابی ، سندھی ، بلوچ ، پشتون ، ہندی ، اور دیگر اقوام نے ملکر مشترکہ طور پر لڑی تھی اور تحریک جہاد کی ھجومی جہادیت اور اس کے جمہور اسلامی روائت سے کٹے ہوئے ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس کی مخالفت مولانا فضل حق خیرآبادی ، مولانا فضل رسول بدایونی ، مفتی صدر الدین آزردہ سمیت جمہور اہلسنت نے کی اور اس تحریک کو وھابی ، تکفیری تحریک بھی کہا گیا اور اسے خود پٹھانوں کی اکثریت نے رد کردیا اور ان سے جنگ کی
آج جن تحریکوں کو ناھض حتر ھجومی جہادی تحریک کا نام دے رہا ہے اگر آپ ان تحریکوں کے فکری آدرش اور ان کے آئیڈیل شخصیات کا جائزہ لیں تو ایک طرف تو ان پر شامی روائت سے جڑے لوگ بہت اثر کرتے نظر آئیں گے ، دوسری طرف ان پر خوارج اور بدوی و قبائلی عصبی شدت پسندی کا اثر نظر آئے گا ، ساتھ ہی ان کے فکری رہنماوں میں ہمیں شیخ ابن تیمیہ ، حافظ ابن قیم ، عبدالھادی اور دیگر تلامذہ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوھاب ، شیخ صالح العثمین ، ابن باز ، شیخ اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی کا اثر بہت زیادہ نظر آئے گا
ہندوستان کے اندر ابوالکلام آزاد جب تک کانگریس کے رنگ میں رنگے نہ گئے اور انہوں نے جدیدیت کو قبول نہ کیا اس وقت تک ابوالکلام آزاد پر شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوھاب نجدی ، شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کا پورا پورا اثر تھا بلکہ بقول سلیمان شاہجہانپوری دیوبندی کے مطابق تو ابوالکلام آزاد خود کو ہندوستان کا ابن تیمیہ شمار کرتے تھے اور ان کا رسالہ ترجمان القرآن انہی خیالات و اثرات کے زیر اثر ہندوستان کی اشرافیہ اور متوسط زمیندار طبقے کی نوجوان نسل کے اندر ھجومی جہاد کو پروان چڑھا رہا تھا اور ان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے حیدر آباد مودودی چشتی گھرانے کے چشم و چراغ سید ابوالاعلی مودودی تھے اور ان کے قلم سے ابوالکلام آزاد کے خیالات کے زیر اثر ایک کتاب لکھی گئی جسے
الجہاد فی الاسلام
کہا جاتا ہے اور سید مودودی نے اس کتاب میں ھجومی جہاد کو ہی اسلام کا جوہر ثابت کرنے اور آیات و احادیث کو سیاق و سباق اور تحدید تاریخ سے آزاد کرکے اپنا من مانا مفہوم پہناڈالا اور پھر ہمیں سید مودودی کی سب ہی کتابوں میں تکفیر عام نظر آئی اگرچہ انہوں نے چالاکی کے ساتھ کام لیتے ہوئے جاھلیت اور عصبیت جاھلیہ جیسی ا صطلاحوں کے پردے میں اپنی تکفیری زھنیت کو چھپا لیا تھا لیکن سید مودودی نے اپنی کتابوں میں شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوھاب نجدی ، شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کی کھل کر تحسین کی اور مجھے لگتا ہے کہ ان کو خوارج کا پیورٹن ازم اسقدر عزیز تھا کہ انہوں نے اپنی تنقیدی دھار پر شامی روائت کو ہی نہیں ادھیڑا بلکہ انہوں نے جید اصحاب کی روش پر بھی کھلکر تنقید کرڈالی اور یہی بنیادی وجہ ان کی دیوبند کی پیورٹن ازم کے حامیوں سے اختلاف کی نظر بھی آتی ہے ،
دیوبند میں تکفیری لہر کبھی ابھر کر غالب اور کبھی دبی نظر آئی ، جس وقت ھندوستان میں تحریک آزادی اپنے عروج پر تھی اور دارالعلوم دیوبند کی قیادت خود کو سامراج دشمن قیادت کے طور پر پیش کررہی تھی اور مولوی قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوھی ، مفتی محمود حسن برٹش سامراج کے مقابلے میں آنے کے دعوے دار تھے اس زمانےمیں بھی دارالعلوم دیوبند کا زور شیعہ کی تکفیر ، تصوف کی ہیومن ٹیرین اور صلح کل کی روائت کی مخالفت تھا اور دارالعلوم دیوبند کے تاریخ دان اس بات پر مصر تھے کہ وہ شاہ اسماعیل و سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد اور جنگ آزادی 1857 ء کو ایک ہی تحریک کے دو سنگ میل قرار دیں اور پھر دارالعلوم دیوبند کو بھی اس کی توسیع قرار دیں ،
جمعیت العلمائے ہند جو اول اول 1857ء کی جنگ آزادی کے ورثاء جیسے علمائے فرنگی محل و علمائے بدایوں و رام پور اور تحریک جہاد سید احمد بریلوی کے وارثین جیسے علمائے دیوبند وغیرہ کی مشترکہ جماعت تھی اسی لئے آخر میں صرف دیوبندی مولویوں کی تنظیم ہوکر رہ گئی اور اس کے اندر سے بھی اس سے بھی زیادہ متشدد جماعت مجلس احرار کا جنم ہوا تو یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو ہم نے دیکھا کہ اس زمانے میں بھی دارالعلوم دیوبند سے وابستہ مدارس کے اندر سے ایک تحریک سامنے آئی اور لکھنئو میں اس نے باقاعدہ شیعہ -دیوبندی جھگڑے کی شکل اختیار کرلی
اور اس زمانے کی سپاہ صحابہ ” دیوبندی مولوی عبدالشکور لکھنئوی کی تنظیم ” تحریک مدح صحابہ ” تھی اور اس سارے معاملے کو صرف آل انڈیا مسلم لیگ کی مخالفت میں مجلس احرار ، جمعیت العلمائے ہند نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں ہر ھنگامے کا زریعہ بنالیا کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ جناح ، جنرل سیکرٹری خان لیاقت علی خان ، آفس سیکرٹری وزیر حسن ، ورکنگ کمیٹی کے درجنوں ممبر یا شیعہ تھے یا سنی صوفی عرف عام میں بریلوی اور یہ سب آل انڈیا مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کے لئے کیا گیا ، قائد اعظم کو کافر اعظم کا خطاب دیا گیا ، سید مودودی نےلیگ کے امام سے لیکر مقتدی تک سب کی زھنیت غیر اسلامی قرار دے ڈالی اور آج پھر ہم نے دارالعلوم دیوبند کی روائت سے وابستہ مدرسہ جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم اور جامعہ فاروقیہ کے سابق استاد مفتی منظور مینگل سے قائداعظم کی تحقیر و تضحیک ہوتے دیکھی ،
کیا یہ اتفاق محض ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام کا قائد مفتی محمود پاکستان ٹوٹ جانے پر پاکستان بنانے کو گناہ سے تعبیر کرتا اور اس کے بنانے میں اپنے اکابرین کے شریک نہ ہونے پر شکر ادا کرتا ہے اور پھر مفتی منظور مینگل کے بقول ایک مرتبہ جب اس سے قائد اعظم کے ایمان بارے سوال ہوتا ہے تو وہ اس کو کافر کہتا ہے اور شبیر عثمانی کے قائد اعظم کے جنازہ کو پڑھانے کے عمل سے برات کا اظہار کرتا ہے ، یہ وہی مفتی محمود ہے جو صوبہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں 70ء میں اقتدار کے لئے کمیونسٹوں ، قوم پرستوں ، دھریوں ، ملحدوں ، لبرلز ، سیکولرز کے مشترکہ اتحاد نیشنل عوامی پارٹی سے اتحاد کرکے حکومت بناتا ہے
اور خود خیبرپختون خوا کا چیف منسٹر بنتا ہے اور جب نیپ کی بلوچستان میں حکومت ختم ہوتی ہے تو خود بھی مستعفی ہوجاتا ہے ، اسی دیوبندی مکتبہ فکر کا ایک دوسرا مولوی غلام غوث ھزاروی بھٹو کا رائٹ ہینڈ بنتا ہے اور وہ اس زمانے میں بھی ہزارہ ڈویژن کے اندر شیعہ کے خلاف زبردست تکفیری مہم چلاتا ہے اور جبکہ اسی کی سفارشات پر بھٹو صاحب وزرات حج و اوقاف میں دیوبندی مکتبہ فکر کو اس کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ نوکریاں دیتے ہیں اور اس زمانے میں سعودی شاہ فیصل سے بھٹو صاحب کے یارانے کی وجہ سے سعودی سفارت خانہ وزرات حج ، اوقاف اور وزرات مذھبی امور پر بہت حاوی ہوتا ہے اور ضیاء دور میں تو یہ وزراتیں ہی نہیں بلکہ تعلیم کی وزرات بھی سعودی سفارت خانے کی لونڈی بن جاتی ہے
تاریخ میں انگریز سامراج کی دشمنی میں پیش پیش مفتی محمود حسن اسیر مالٹا صرف ترکی پاشا اور سلطان کو خوش کرنے کے لئے شیعہ کے خلاف تکفیری روش اپنائے نظر آتے ہیں اور جب حجاز و نجد پر آل سعود قابض ہوئے تو ہم رشید گنگوہی خو صاف صاف پرو آل سعود پالیسی اختیار کرتے دیکھتے ہیں اور اب نشانہ صرف شیعہ ہی نہیں رہتے بلکہ صوفی سنی بھی ہوجاتے ہیں اور جب ابن سعود کو برٹش سامراج نے سعودی عرب نامی ریاست کا تحفہ دیا اور سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہوگئے تو ہم نے جمعیت علمائے ہند ، مجلس احرار سمیت ساری دیوبندی قیادت کو تحریک خلافت کو بھول کر ابن سعود کے آگے سجدہ ریز یوتے اور راتوں رات المھند علی المفند میں عثمانی دور میں حجاز میں براجمان مذاھب اربعہ اہل سنت و جماعت کے علماء کے سامنے تحریک وھابیت کے مثل خوارج ہونے کا مشترکہ فتوی دیتے ہوئےخود کو صوفی سنی حنفی ظاہر کرنے والے پکے موحد ، عامل بالکتاب والسنہ بن گئے
اور اگر کسی نے علمائے آل سعود کے حضور دیوبندی علماء کی سجدہ ریزی کی داستان پڑھنی ہو تو وہ خطبات عثمانی کی جلد اول میں ابن سعود کی 1925 ء میں بلائی گئی پہلی موتمر الاسلامی کی روداد پڑھ لے اور اس غداری از مقاصد تحریک خلافت کی روداد آپ کو مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد اخبار کے اداریوں اور مضامین میں مل جائے گی ، کیا مقام حیرت ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند جو خود کو سامراج دشمن سیاست کا امین بتلاتا ہے وہ مڈل ایسٹ میں عثمانی خلافت کے خاتمے اور نجد و حجاز پر ابن سعود کے قبضے کے ساتھ ہی قلابازی لیتا ہے اور آل سعود سے وفاداری کا حلف اٹھالیتا ہے جس کی برٹش سامراج سے دوستی کا احوال سب کو معلوم تھا اور پھر جب تقسیم ہند ہوئی تو دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کی مذھبی اور سیاسی قیادت آل سعود کی بے دام غلام بن گئی اور پھر 90ء میں اگر ہمیں آل سعود کی حمائت یامخالفت پر دارالعلوم دیوبند کے ارشد مدنی اور ندوہ کے سلیمان ندوی کے درمیان جو اختلاف نظر آیا تو وہ اصل میں تکفیر کے دائرے میں آل سعود کو شامل کرنے نہ کرنے کا تھا بات بہت دور نکل گئی ، ابھی ناھض حتر کے مضمون فاشیہ الاسلامیہ : المفھوم ، مصطلح والرد کا انتہائی اہم دوسرا حصہ باقی ہے جسے میں اس مضمون کے دوسرے حصے میں زیر بحث لاوں گا