زمین زاد – از عمار کاظمی
پارکنگ کا ٹکٹ، انٹری فیس اور پبلک پارک کے اندر کینٹین پر بیس والی پیپسی چالیس روپے کی۔ اتنے ٹیکس لگانے کے باجود پارک میں نہ کوئی واٹر فلٹر نہ ڈسپنسر۔ اگر واٹر فلٹر اور واٹر ڈسپنسر لگے، تو پارک کی کینٹین سے سرمایہ دار کی منرل واٹر بوتلیں کون خریدے گا؟ پاکستان کے جمہوریت پسند غلط کہتے ہیں کہ ہر برائی کی جڑ مُلا ملٹری الائنس ہے۔ نہیں صاحب یہ مُلا، ملٹری، سیاستدان اور سرمایہ دار الائنس ہے۔ یہ ایک مثلث ہے جس میں کبھی فضل الرحمن، احمد لدھیانوی، زرداری اور نواز کے ساتھ ہوتے ہیں، تو کبھی فوج کے ساتھ۔ اسی طرح سے کہیں طالبان، جماعت اسلامی اور عمران خان اتحادی ہوتے ہیں، تو کہیں عمران خان فوج، طاہرالقادری اور وحدت المسلمین ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
کبھی عمران خان کوایمپائر کی انگلی کا انتظار رہتا ہے تو کبھی ن لیگ رات کے اندھیرے میں ایمپائر سے خفیہ ملاقاتیں کرنے جاتی ہے۔ اور کہیں اسے مفاہمت کی سیاست کہا جاتا ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کے نام پر پاکستانی نوجوانوں کے خون کو خوب گرمایا، لیکن جہاں جہانگیر ترین اور خورشید قصوری جیسے سرمایہ دار مرکزی رہنما ہوں وہاں کونسی تبدیلی ممکن ہے؟ تحریک انصاف کے دن بہ دن گھٹتے ووٹ اس بات کی نشاندہی ہیں کہ عمران خان نے گزشتہ چند ماہ میں بہت سی سیاسی غلطیاں کی ہیں۔ عمران خان کو شاید یہ بھی یاد نہیں رہا کہ لوگوں نے ان کا ساتھ کیوں دیا تھا؟ لوگوں نے روایتی اور وراثتی سیاست سے تنگ آ کر ہی ان کا ساتھ دیا تھا۔ لہذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ان کی شادی نے ان کی اہلیہ کی صحافت کے کو خراب کیا اور اب وہ ان کی سیاست خراب کر رہی ہیں۔ بلا شبہ تحریک انصاف کے وہ کارکنان جو دوسری جماعتوں کے جیالوں متوالوں اور عام عادمی کو وراثتی اور خاندانی اثر و رسوخ کی سیاست کا طعنہ دے کر اپنی جماعت کی طرف مائل کرتے تھے اب ان کے پاس جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ جو کہتا تھا کہ وراثتی سیاست کے خاتمے پر عام آدمی کا بچہ بھی مرکزی لیڈر بن سکے گاوہ اپنی بیگم کو ذمہ داریاں دیتے سب قول کرار بھول گیا۔ عام آدمی کی بات کرنے والے خاص لوگ پہلے تو یہ بتائیں کہ کیا وہ خود عام آدمی ہیں؟ میں نے تو ایسا کوئی عام آدمی نہیں سنا جو آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا ہو۔
“وہ میرے درد سے آشنا ہی نہیں اور کہتا ہے کہ میں تیرا غم خوار ہوںدوسری طرف پیپلز پارٹی ہے جو آج وصیت کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے۔ کہتے ہیں “تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا” او بھائی تم نے ہر گھر سے بھٹو نکلنے کب دیا؟ اگر تم ہر گھر سے بھٹو نکلنے دیتے تو بھٹو کا سارا خاندان شہید کیوں ہوتا؟ کاش تم عام آدمی کو بھی بھٹو بننے دیتے۔ سلمان تاثیر کی شہادت کے محض تین دن بعد گورنر ہاوس کے سامنے جو بینرز آویزاں تھے ان میں لطیف کھوسہ، آصف زرداری، بلاول، بے نظیر اور شہید بھٹو کی تصویر تو تھی مگر شہید سلمان تاثیر کی نہ کوئی فوٹو تھی نہ ذکر۔ منظور وٹو جیسے شخص کو بغیر کسی پارٹی الیکشن کے پنجاب کا صدر بناتے ہیں اور کہتے ہیں ہم جمہوری پارٹی ہیں، ہم جمہوریت پسند ہیں، ہم جمہوریت کے وارث ہیں؟ نہیں بھائی تم جمہوریت کے نہیں، وراثتوں کے وارث ہو۔ وصیت والی جمہوریت کون سی نسل کی جمہوریت ہوتی ہے؟
کارکن اور اس کی اولاد کو انھوں نے بانجھ سجھ رکھا ہے۔ آخر ہم عام لوگ ان میں اور ان کے بچوں میں کب تک مسیحا تلاش کرتے رہیں گے؟ کوئی کہتا ہے فاطمہ بھٹو یا زاوالفقار جونیر کو سیاست میں واپس لا کر پیپلز پارٹی کو زندہ کیا جا سکتا ہے، کسی کو بلاول، بختاور اور آصفہ کا انتظار ہے۔ وہ جو جیالوں نے گزشتہ چالیس برس قربانیاں دیں، کوڑے، جیلیں، شہادتیں دیں، اور بھٹو شہید سے محترمہ شہید کی رفاقت تک کا سفر طے کیا، کیا وہ چالیس برس کا سفر اور تربیت قیادت فراہم کرنے کے قابل نہیں تھی؟ اور جو کبھی عام آدمی چنا بھی تو کیا چنا، جہانگیر بدر، صدیق الفاروق اور وہ بے زبان درزی جس کی آواز کسی تک پہنچ ہی نہ سکے؟ ایسے لوگ جن کی اپنی کوئی آواز، کوئی انا، کوئی عزت نفس ہی نہ ہو؟ جو قیادت کے فیصلے کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف کرنے کی ہمت ہی نہ رکھتے ہوں؟
کہیں مریم نواز، نواز کی جانشین تو کہیں ہمزہ شہباز ولی عہد۔ اور اب تبدیلی یہ ہے کہ ریحام خان بھی تحریک انصاف کو متبادل قیادت فراہم کرنے کو تیار بیٹھی ہیں، اور عام آدمی غلام ابن غلام بننے کو تیار۔ کیا تحریک انصاف کی سستر لاکھ کی ممبر شپ میں ایک ایسی عام لڑکی نہیں ملی جو شیریں مزاری جیسی ثابت شدہ اسٹیبلشمنٹ نمائندہ کی جگہ لے سکتی؟ جو کام آج ریحام خان کر رہی ہے کیا یہ کام تحریک انصاف کی کوئی مڈل کلاس کارکن نہیں کر سکتی تھی؟ مڈل کلاس کے بچوں کے سروں میں دماغ نہیں ہوتے یا وہ قیادت کے اہل نہیں ہوتے؟ کیا پاکستان کا حکمران بننے کے لیے آکسفورڈ اور برطانیہ پلٹ ہونا ضروری ہے؟ کیا اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا کلرک، نائب تحصیل دار یا پھر فوجی جرنیل ہونا ضروری ہے؟ یہ جو اٹھارہ میں سے سترہ کروڑ ننانوے لاکھ سے زیادہ لوگ ہیں، یہ کیا ہیں، کس لیے ہیں؟ کیا یہ صرف نعرے مارنے اور امرا کا ظلم سہنے کے لیے دنیا میں آتے ہیں؟
ملا، ملٹری اور سرمایہ دار سیاستدان اتحاد ہی دہشت گردی کی اصل اور بنیادی ترین وجہ ہے۔ وضاحت کرتا چلوں کہ یہ سب کہنے لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ مسلمان گزشتہ چودہ صدیوں میں بھائی بھائی تھے۔ یہ محض آج کی جدید دہشت گردی کا ذکر ہے۔ آج جو ملک کے طول و عرض میں ہر طرف مدرسے ہیں یہ محض جرنل ضیا کی وجہ سے نہیں ہیں۔ اس نے تو جو کرنا تھا کر گیا لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ مدرسوں کی اتنی بڑی تعداد کس کی ناکامی اور کس کی کامیابی ہے؟ اگر روشن خیال قیادت اور اس سے جڑے طبقات اہل ہوتے تو ملا کو یہ کامیابی کبھی نصیب نہ ہوتی۔ جب غریب کے بچے کو روٹی، کپڑا اور مکان کے جھوٹے خواب کی تعبیر نہ ملی تو اسے کہیں تو جانا تھا، جب اسے امرا کے بچوں کی طرح کھیل کے میدان نہ ملے تو اسے کسی کا کھیل تو کھیلنا تھا۔ دو وقت کی روٹی اور مفت تعلیم جب میسر نہ ہوئی تو اسے کہیں تو پیٹ کی آگ بجھانا تھی۔ پھر کیا فرق پڑتا تھا کہ وہ مکتب جائے یا کسی کے مکتب کو مقتل بنائے؟ ملا نے غریب کے بچے کو روٹی، کپڑا مکان دے کر زندگی خریدی اور موت بیچی۔ ریاست نے نہ کبھی کوئی ذمہ داری ادا کی نہ کوئی دانشمندی دکھائی۔ خود نہ لڑی طالبان تیار کر لیے۔ گولف کھیلتے پراکسی وارز کے شوقین جرنیلوں نے غریب کے بچے کو بھی کھیل بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خود آرمی پبلک کے 146 بچے انہی لوگوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے جنھیں کبھی انھوں نے دوسروں کے لیے بنایا تھا۔
غلط ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے ریڑھی والے سے لے کر قانون کے رکھوالوں تک ہر جگہ کرپشن ہے۔ ملک کا کونسا ایسا ادارہ اور کاروبار ہے جو کرپشن سے پاک ہے؟ جنھیں قوم کی تربیت کرنی تھی وہ خود کوئی مثال نہ بن سکے۔ بیگم کا چھوٹا سا بونڈ نکلا تو پتا چلا کہ سٹیٹ بینک اس پر بھی بیس فیصد ٹیکس کاٹتا ہے، یعنی ریاست نے انعام کا لاچ دے کر افراط زر کنٹرول کرنے کے لیے لوگوں کو اپنا پیسہ ڈی ویلیو کروانے کی ترغیب دی اور پھر انعامی رقم پر بیس فیصد ٹیکس بھی عائد کر دیا۔ میرے چھوٹے بیٹے نے ایک بہت معصوم اور اس ریاست کے منہ پر تھپڑ جیسا سوال کیا کہ “بابا اگر ان لوگوں نے پیسے ہی کاٹنے ہوتے ہیں تو انعام کی رقم ہی کم کردیں”۔ لاکھوں کروڑوں میں سے کسی ایک شہری کا بونڈ نکل آئے تو سٹیٹ بینک کو رقم کی وصولی سے پہلے شناختی کارڈ کی کاپی اور ایک فارم فل کر کے دینا پڑتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے باہر پرائز بانڈ ڈیلرز کی دکانوں پر جاو نہ شناختی کارڈ کی ضرورت نہ فارم فل کرنے کی زحمت، اور کٹوتی بھی سرکار سے کم۔ تو قوم کو بد عنوانی کے لیے کون مجبور کر رہا ہے؟ کیا ریاست لوگوں کو بد عنوانی کی ترغیب نہیں دے رہی؟ نواز، زرداری، عمران میں کون ہے جو ان عام فہم عوامی مسائل واقف ہو؟
کل جب اپنی سیاسی و سماجی تنظیم کا نام عام لوگ رکھا تو پتا چلا کہ اس نام پہلے بھی کوئی جماعت موجود ہے۔ کسی نے کہا کہ نام بدل لو اور نیا نام رکھنے سے پہلے ای سی پی کی ویب سائٹ چیک کر لو۔ اس پر تمام رجسٹرڈ جماعتوں کے نام موجود ہیں۔ ویب سائٹ کھولی تو معلوم ہوا کہ کل 288 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ اور عام لوگ، عام پاکستانی، عام آدمی، عام انسان جیسے ناموں سے کوئی درجن بھر سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ پہلے سوچا کہ بھیڑ چال کا شکار قوم نے شاید انڈیا کی عام آدمی پارٹی کی نقل میں ایسے نام منتخب کیے ہیں۔ تاہم بعد میں خیال آیا کہ اگر ایسا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جماعت فعال سیاسی کردار ادا نہیں کر رہی؟ بڑے بھائی اور صاف ستھری شہرت کے حامل سینیر صحاحفی کے سامنے یہ سوال رکھا تو جواب ملا کہ “جماعت رجسٹرڈ کروانا کونسا مشکل کام ہے۔
کسی کو پیسے دو اور نام رجسٹر کروا لو کہ کوئی عام آدمی اس نام سے سیاسی جماعت رجسٹرڈ نہ کروا سکے”۔ یعنی روایتی جماعتوں، مقتدر حلقوں اور سامراجی طاقتوں کو یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ اس پسے ہوئے معاشرے میں کہیں کوئی نام ہی سٹرائک نہ کر جائے کہ تبدیلی کے ایجنٹ کا کام کر جائے اور عام آدمی سرمایہ دار، وڈیرے جاگیر دار اور ہئیت مقتدرہ کے جال سے نکل نہ جائے۔ اقتدار کہیں عام عادمی، عام شہری، عام انسان کو منتقل نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ عام انسان کی آواز سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصہ داروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ برسوں سے لگی آمدن کو نہ مقتدر حلقے خطرے میں ڈال سکتے ہیں نہ روایتی سیاستدان۔ عوام کی ٹیکس منی اور استحصال میں سب حصہ دار ہیں، شئیر ہولڈر ہیں۔
بس یہی وہ باتیں تھیں کہ جن کی وجہ سے سوچا کہ بہت ہوچکی جیوے جیوے اور بلے بلے۔ ہم اپنی طرح اپنے بچوں کو کسی سرمایہ دار، جاگیر دار سیاستدان یا کسی فوجی آمر کا غلام نہیں بنا سکتے۔ خود کچھ بنیں نہ بنیں مگر اپنے جیسوں سے اپنا لیڈر ضرور تلاش کریں گے۔ کل کسی نے مجھے پوچھا تھا کہ ہم آپ پر یقین کیوں کریں؟ تو میں نے اس سے پوچھا تھا کہ ہم اپنے جیسوں سے ہی یہ سوال کیوں کرتے ہیں؟ آج میں سوچتا ہوں کہ اگر میں کل سوال کرنے والے کی جگہ ہوا تو میں صرف اپنے جیسے پر ہی اعتماد کروں گا۔ کم از کم ایک روایت تو ٹوٹے گی، لا علمی تو ختم ہوگی، برسوں کی غلامی سے کوئی تو نجات پائے گا۔ کچھ تو غلام ابن غلام کی تعداد میں کمی ہوگی۔