کراچی یونیورسٹی کے استاد سید وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی کے قتل کا کھرا کہاں جاتا ہے ؟ – عامر حسینی
سید وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی جوکہ کراچی یونیورسٹی میں ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے کو دیوبندی تکفیری دہشت گردوں نے شہید کردیا ، سید وحید الرحمان سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن کو بریلوی بھی کہتے ہیں ، ان کی نماز جنازہ مسجد غفران میں ادا کی گئی ، جوکہ بریلوی مسلک کی مسجد ہے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی پولیس کے ایک ڈی ایس پی نے روزنامہ ڈان کے بقول یہ دعوی کہ پروفیسر وحید الرحمان شیعہ تھے کیوں کیا ؟ اور خود ڈان کے رپورٹر نے اپنی خبر میں یہ لکھا کہ سید وحید الرحمان کا تعلق کس مسلک سے تھا اس بارے میں بتانا مشکل ہے لیکن سید وحید الرحمان کے سبھی قریبی لوگ جانتے تھے کہ وحید الرحمان صوفی سنی تھے اور وہ دیوبندی -سلفی تکفیریت اور وھابیت کے سخت خلاف تھے ، وہ جماعت اسلامی کے سخت مخالف تھے اور کہا کرتے تھے کہ جماعت والوں سے ان کا اختلاف بہت پرانا ہے ، ان کی نماز جنازہ سنی طریقہ سے ہوئی ، نماز جنازہ کے بعد دعا بھی مانگی گئی جبکہ دیوبندی اور غیر مقلد بعد از نماز جنازہ دعا نہیں مانگتے
یہ بہت واضح دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے ھاتھوں صوفی سنی نسل کشی کا کیس ہے جس کو خواہمخواہ دوسرا رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے
پولیس زرایع کا کہنا ہے کہ یاسر رضوی کا قتل بالکل اس انداز میں ہوا جس انداز میں کراچی یونیورسٹی کے صوفی سنی استاد ہروفیسر شکیل اوج کا قتل ہوا تھا اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس قتل میں بھی القاعدہ برصغیر الہند کے ملوث ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں جبکہ پولیس و انٹیلی جنس زرایع کا کہنا ہے کہ امریکی نژاد میڈیکل کالج کی پرنسپل پر حملہ بھی اسی القاعدہ برصغیر الھند کی واردات لگتی ہے ، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے حسن عبداللہ جو سیکورٹی ایکسپرٹ ہیں نے کہا ہے کہ القاعدہ ہند کراچی کے اندر کئی ایک دیوبندی دیشت گرد تنظیموں کے درمیان سٹریٹیجک الائنس کا نتیجہ ہے اور کیماڑی میں القاعدہ کے جو پانچ ارکان مارے گئے تھے وہ سب کے سب سپاہ صحابہ کے رکن نکلے اور اس میں رینجرز وین پر حملے کا ماسٹر مائینڈ بھی مارا گیا جس کا تعلق جامعہ بنوریہ کراچی سے تھا اور خود کش حملہ آور کی شناخت وہاں سے ملنے والے لیپ ٹاپ میں موجود وڈیو دے بطور جامعہ بنوریہ کے طالب علم اور گورنگی بلال کالونی کے رہائشی کے طور پر ہوگئی تھی
پاکستان میں دیوبندی تکفیری دہشت گردی ایک کینسر کے طور پر موجود ہے جس کا نشانہ صرف شیعہ کمیونٹی ہی نہیں بلکہ صوفی سنی المعروف بریلوی بھی بن رہے ہیں اور ابتک 45 ہزار سے زائد صوفی سنی دیوبندی تکفیری دہشت گردی ، خود کش حملوں کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شیعہ کمیونٹی کے اس دہشت گردی کے ھاتھوں 22 ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں ، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے پاکستان میں سب سے بڑے متاثرین تو صوفی سنی ہیں اور یہ دہشت گردی شیعہ -سنی تاریخی تقسیم کا نتیجہ نہیں ہے ، کراچی سمیت پورے پاکستان کے اندر اس وقت 99 فیصدی دہشت گردوں کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے
ان میں سے سب کے سب کی مدر پارٹی سپاہ صحابہ پاکستان رہی ہے اور یہ سب کے سب پاکستان میں مین سٹریم اسلام جس کا جوہر تصوف ہے کے ماننے والوں پر حملہ آور ہے دیوبندی تکفیری دہشت گردی اور اس دہشت گرد فسطائی گروہ کے بارے میں یہ بات بھی زھن نشین رہنی چاہئیے کہ ان کو صرف پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر عقابی لابی کی پراکسی سمجھنا اس کے وجود کی کماحقہ واقفیت سے نابلد ہونے کی نشانی ہے ، اس دیوبندی تکفیری دہشت گرد ٹولے کے بعض سیکشن اگر ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہیں تو کئی ایک سیکشن القائدہ ، تحریک طالبان ، جماعت الاحرار وغیرہ کے ساتھ ہیں لیکن یہ سب کے سب دیوبندی تکفیری دہشت گرد پاکستان کے اندر شیعہ اور صوفی سنیوں کی نسل کشی پر متفق ہیں
مجھے ایک مرتبہ پھر یہ کہنا ہے کہ جب تک کراچی سمیت پورے پاکستان میں اہلسنت والجماعت المعروف سپاہ صحابہ پاکستان کی قیادت کو گرفتار نہیں کیا جاتا ، ان کے ماتحت چلنے والے مدارس کو بند نہیں کیا جاتا ، جامعہ بنوریہ میں زبردست سرچ آپریشن نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان بھر میں دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے ھاتھوں صوفی سنی اور شیعہ نسل کشی جاری رہے گے