In condemnation of Asif Zardari, Salman Taseer and Babar Awan – by Tariq Butt of Jang Group

Related articles: LUBP Archive on Tariq Butt

Apparently the following column in today’s Jang newspaper (15 Dec 2010) is written by Tariq Butt (a member of the Ansar Abbasi led Jamaat-e-Islami wing of the Jang Group), however, the column in fact seems to have been written by the CEO of Jang Group / Geo TV who was recently exposed for his willing collaboration with the ISI in creating and disseminating fake Wikileaks on India.

The column shows that Tariq Butt, Ansar Abbasi and Mir Shakil-ur-Rahman etc are real well wishers of the PPP, therefore, they want the PPP to get rid of ‘corrupt goons’ such as Asif Zardari, Babar Awan and Salman Taseer. Perhaps the PPP will be able to secure its future if it is led by ‘incorruptible’ Nawaz Sharif, Qazi Hussain Ahmed and Imran Khan?

صدرکا ماچو مین
کڑوا سچ…طارق بٹ

صدر آصف علی زرداری کی” قومی مفاہمت “کی پالیسی بظاہر صرف ایک ڈرامہ ہے، بگل میں چھری منہ میں رام رام۔ صدر اور ان کے حواری یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ قومی مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مگر ان کے اعمال الفاظ سے قطعی مختلف ہیں۔ مثالیں بے شمار ہیں جو اس کو آشکار کرتی ہیں۔

آصف زرداری کے ماچو مین وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان مولا جٹ بنے ہوئے ہیں اور ” مفاہمت کی پالیسی“ کے نام پر کیے جانے والے فریب کو صاف ظاہر کررہے ہیں۔ ان کی زبان پر ذرا غور کریں انتہائی غیرمحتاط، نازیبا بلکہ رکیک۔ ٹارگٹ صرف اور صرف صدر کے سب سے بڑے سیاسی حریف نوازشریف اور شہباز شریف ہیں۔ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یہ ان کی اپنی صوابدید ہے۔تاہم اگر صدر کے نزدیک سیاسی مفاہمت اپنی پارٹی کے نمائندوں کو پنجاب کابینہ میں بطور وزیر رکھنا ہے تو یہ صرف اور صرف موقع پرستی ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والی بات ہے۔

اگر شہبازشریف کی حکومت پیپلزپارٹی کے وزراء کے مستعفی ہونے سے گرتی ہے تو صدر زرداری کے لئے جائے بھاڑ میں انہیں کیا پڑی کہ وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کی حکومت کو سہارا دیں۔ اپنے وزراء کو صوبائی کابینہ میں رکھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر پنجاب حکومت گرگئی تو پھر ان کی حکومت بھی نہیں بچ سکے گی اسے جانا ہی ہوگا یہ تو نوشتہء دیوار ہے۔

پنجاب میں تو نون لیگ کی حکومت دراصل موجودہ جمہوری نظام میں ایک چیک اینڈ بیلنس کا کام کر رہی ہے ۔جو سازش صدر زرداری اور گورنر پنجاب سلمان تاثیرنے ق لیگ سے مل کر تیار کی تھی کہ وہ ن لیگ کی پنجاب میں حکومت سے چھٹکارا حاصل کریں بری طرح ناکام ہوئی اور پیپلزپارٹی کو منہ کی کھانی پڑی۔ گورنر راج الٹا پڑ گیا۔ سب سازشیوں کا منہ کالا ہوااور صدر زرداری کو وہ کام کرنا پڑ جو وہ کسی قیمت پر نہیں کرنا چاہتے تھے وہ تھا ججوں کو بحال کرنا۔ گورنر راج کے دوران ہی نوازشریف نے ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کیا اور صدر زرداری چاروں خانے چت ہوگئے۔ اس کے بعد انہیں کرپشن اور من مانیوں کی وجہ سے آزاد عدلیہ (جو وہ کسی بھی صورت نہیں چاہتے تھے اور ڈوگر جیسے جج رکھنے کے خواہاں تھے )کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سارے عمل نے انہیں انتہائی کمزور کر دیا ہے۔

صدر زرداری کے ماچو مین نمبر ون کے الفاظ اور نعروں پر غور فرمائیں کیا یہ ایک صوبائی حکومت میں بیٹھے اتحادیوں کی زبان ہے۔ قطعاً نہیں ۔ ایسے تیر تو صرف وہی داغ سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں۔ باوجود اس کے کہ کوئی بھی یہ کہنے میں تامل محسوس نہیں کرتا کہ شہبازشریف کی حکومت موجودہ سیٹ اپ میں بہترین ہے اگرچہ اس میں کافی خامیاں اور خرابیاں بھی ہیں خصوصاً اس کا ون مین شو ہونا۔

لیکن بابر عوان کو وزیر اعلیٰ کا ہر اقدام اور پالیسی خراب لگتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کرپشن عروج پر ہے، شہباز شریف سیر کرنے دبئی چلے گئے، آشیانہ اسکیم پانچ پراپرٹی ڈیلروں کو نوازنے کا منصوبہ ہے، پنجاب میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے، دو روپے کی روٹی کیلئے 60 لاکھ کا ہیلی کاپٹر استعمال ہواہے وغیرہ وغیرہ۔ صدر زرداری کے دوسرے ماچو مین سلمان تاثیر ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ آشیانہ لوٹ مار سکیم ہے، گورنر ہاؤس پر قبضے کے لئے پنجاب حکومت ہر ماہ منصوبے بناتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

مگر مزے داری کی بات یہ ہے کہ گورنر اصل مسئلے کا جس میں انہوں نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، پر اپنی زبان کھولنے کو تیار نہیں حالانکہ وہ ہر معاملے پر کھل کر رائے زنی کرتے ہیں۔یہ مسئلہ ہے ان کی خاموشی سے سری لنکا روانگی اور وہاں دو دن کا قیام۔یہ خفیہ دورہ کاروباری تھا مبینہ طور پرسلمان تاثیر نے سری لنکا کے اسٹاک ایکسچینج میں کافی بڑی انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے۔آئین کے تحت موجودہ عہدہ رکھتے ہوئے سلمان تاثیر کوئی کاروبار نہیں کرسکتے۔ مزید یہ کہ وہ خاموشی سے بغیر حکومت کو اطلاع دیئے ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔ ان کا خفیہ غیر قانونی طور پر سری لنکا جانا اب شک وشبے سے بالاتر ہے کیونکہ بین الاقوامی ہوا بازی کی تنظیم نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ سلمان تاثیر کو چاہئے کہ وہ شریف برادران کی ”کرپشن اور لوٹ سیل“ کو ضرور آشکار کریں مگر انہیں سب سے پہلے اپنے غیر قانونی اقدام پر بھی ضرور بولنا چاہئے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب وہ گورنر نہیں ہوں گے تو یہ اقدام ان کے گلے ضرور پڑے گا۔ لہٰذا انہیں چاہئے کو وہ ابھی سے اس مسئلے پر اپنا موقف صاف طور پر بیان کردیں اور اپنے غیر آئینی اقدام پر معافی مانگیں۔

بابر اعوان اور سلمان تاثیر جس پالیسی پر گامزن ہیں وہ دراصل ایوان صدر کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آصف زرداری کے سیاسی حریفوں کو چین سے نہ رہنے دیا جائے۔ یہ حضرات تو صرف اسی حکمت عملی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ سوائے محترمہ فوزیہ وہاب ، سینیٹر جناب فیصل رضا عابدی اور ایک دو دوسرے پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے اس جماعت کاکوئی بھی رہنما وہ زبان بولنے کو تیار نہیں جو بابر اعوان اور سلمان تاثیر استعمال کر رہے ہیں صرف اسی وجہ سے کہ وہ صدر کے قریب ترین ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بڑے لیڈر ایک حد اوردائرے میں رہ کر مخالفین پر تنقید کرتے ہیں اس کو اس سطح پر نہیں لے جاتے کہ وہ ایک ذاتی جھگڑا نظر آنے لگے۔

صدر زرداری کی طرف سے جو نیا ٹاسک بابر اعوان اور سلمان تاثیر کو دیا گیا وہ آئندہ چند ماہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کیلئے مہم چلانا ہے جس کے دوران شریف برادران پر ہر قسم کے الزام اور تہمت لگا کر انہیں عوام کی نظروں میں بدنام کرنا ہے۔ صدر سے زیادہ سے زیادہ وفاداری ظاہر کر کے بابر اعوان پیپلزپارٹی کے کسی بڑے عہدے (جیسے سیکرٹری جنرل) کو حاصل کرنے کے بھی خواہش مند ہیں۔ نئی پیپلزپارٹی جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد جناب آصف زرداری کی سربراہی میں وجود میں آئی ہے اس میں بابر اعوان جیسے حضرات کا بڑا اسکوپ ہے اور صدر انہیں اہم پارٹی عہدے دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

اب یہ پارٹی رحمن ملک، سلمان فاروقی، حسین حقانی، جیسے لوگوں کی ہے جس میں جہانگیر بدر جیسے وفاداروں کی گنجائش کم کم ہے۔ لہٰذا وفادار ٹولے کو نئے حالات سے سمجھوتہ کر لینا چاہئے اگر وہ پیپلزپارٹی میں رہنا چاہتے ہیں۔ بابر اعوان اور سلمان تاثیر ، وفاقی حکومت کے تعلقات نوازشریف کے ساتھ اس خوفناک حد تک خراب کرچکے ہیں کہ ان میں بہتری کی کم ہی امید ہے۔ بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ اگر بابر اعوان اور سلمان تاثیر کے حملوں کو محدود کیا جائے تو صدر کے تعلقات نوازشریف سے کافی بہتر ہوسکتے ہیں لہٰذا جناب آصف زرداری کو چاہئے کہ اگر وہ اپنی قومی مفاہمت پالیسی کو درست ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ان دو حضرات کو روک دیں پھر دیکھیں مثبت نتائج فوراً سامنے آنا شروع ہو جائیں گے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Sarah Khan
    -
  5. Sarah Khan
    -
  6. Sarah Khan
    -
  7. Sarah Khan
    -
  8. DrTahir
    -