’احمدی کمیونٹی کے خلاف منافرت میں اضافہ‘
پاکستان میں موجود احمدی کمیونٹی کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں جماعت کے 11 افراد کو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا۔
احمدیوں کے خلاف تعصب اور مذہبی منافرت کے حوالے سے جاری کی گئی اس سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاکتوں میں سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ گجرانوالہ میں پیش آیا جہاں ایک ہجوم نے احمدیوں کے آٹھ مکانوں اور چار دکانوں کو آگ لگا دی تھی۔
اس میں تین خواتین اور ایک شیر خوار بچہ زندہ جل گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔
امتیازی سلوک اور خوف کے چالیس سال
رپورٹ میں گذشتہ برس مئی میں ربوہ میں ایک پاکستانی کینڈین احمدی ڈاکٹر مہدی علی قمر کی ہلاکت کا تذکرہبھی نمایاں ہے۔ ڈاکٹر مہدی علی قمر امراض قلب کے ماہر تھے۔ اور وہ ایک خیراتی مشن پر لوگوں کا مفت علاج کرنے کے لیے پاکستان آئے تھے، تاہم انھیں پاکستان پہنچنے کے تین دن بعد ربوہ کے قبرستان میں دن دیہاڑے ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔ان کے قتل کے مقدمے میں ابھی تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ملک بھر میں جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت پھیلانے اور پرتشدد واقعات کو ابھارنے میں میڈیا بھی پیش پیش رہا، اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں 2000 کے قریب نفرت انگیز خبریں اور مضامین شائع کیے گئے۔‘
اس کے علاوہ نفرت انگیز خبروں کی تردید کو اکثر تو شائع ہی نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا تو مناسب جگہ نہیں دی گئی۔ اور اس تناظر میں خاص طور پر اردو پریس کا کردار کافی قابل اعتراض رہا۔
پاکستان کے ایک بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں پشاور سکول حملے میں احمدیوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا اور انھیں پاکستان اور اسلام دشمن قرار دیا گیا۔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ اس پروگرام کے نشر ہونے کے ایک ہفتے بعد گجرانوالہ میں ایک احمدی کو قتل کر دیا گیا۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا ہے کہ ’مسالک کے درمیان اختلافات تو صدیوں پرانے ہیں لیکن دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے ریاستی سطح پر شدت پسند عناصر کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ احمدیوں کے خلاف فتوے جاری کریں اور انھی فتووں کو بنیاد بنا کر قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے، اور ہر طرح سے احمدیوں کے بینادی آئینی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق 2014 میں احمدیوں کی دو عبادت گاہیں مسمار کی گئیں۔ ایک واقعہ رحیم یار خان جبکہ دوسرا جون میں ناروال میں پیش آیا، اور دونوں میں ہی عبادت گاہیں گرانے کے لیے ریاستی اداروں اور مشینری کو استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’احمدیوں کو افواجِ پاکستان میں بھرتی کے دوران عقیدے کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا۔ جبکہ مختلف سرکاری محکموں خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں ملازمت کرنے والے احمدیوں کو بھی تعصب اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی لوگوں پر توہین مذہب کا الزام بھی لگایا گیا۔‘
احمدیوں کے خلاف سب سے زیادہ حملے اور ہراساں کیے جانے کے واقعات لاہور میں پیش آئے۔
شیخوپورہ کے علاقے شرقپور میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ایک احمدی خلیل احمد کو ایک نوجوان نے پولیس سٹیشن میں داخل ہوکر گولی مار دی۔ خلیل پولیس کی حراست میں تھا جب اسے قتل کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں احمدیوں کے خلاف اجتماعات، نفرت انگیز تقریروں اور لوگوں کے جذبات ابھارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ سب کچھ انتطامیہ کے سامنے ہوتا رہا لیکن اسے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
جماعت احمدیہ کہ ترجمان سلیم الدین کہتے ہیں: ’احمدیوں کے بائیکاٹ کی مہم اب مسجدوں اور کانفرنسوں سے نکل کر عام آدمی تک جا پہنچی ہے۔ ملک بھر میں احمدی مخالف بینر، نعرے اور پمفلٹ کھلے عام دکھائی دیتے ہیں، جن میں کہا جاتا ہے کہ احمدیوں کے ساتھ کاروبار کرنا یا سماجی رابطہ رکھنا ممنوع ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ ہماری قبریں بھی محفوظ نہیں۔‘
سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014 میں احمدیوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر دس مقدمات قائم کیے گئے جن میں سے کئی میں سزائے موت اور عمرقید کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔
ربوہ کے بلدیاتی انتخابات میں احمدیوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جبکہ یہاں احمدیوں کی آبادی 95 فیصد ہے۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/04/150420_ahmedi_persecution_pak_2014_hk