بھٹو کی پھانسی – پنجاب کی شہری کلاس اور پسماندہ عوام – عامر حسینی

zulfikar_ali_bhutto2

چار اپریل 1979ء کو جب جنرل ضیاء الحق کے حکم پر ایک جعلی عدالتی فیصلے کے زریعے سے زوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس پھانسی کے حق میں سب سے زیادہ رائے عامہ پنجاب کے شہری علاقوں میں ہموار ہوچکی تھی اور پنجاب کے شہری علاقوں میں جو تاجر ، صنعتکار ، ملا ، دائیں بازو کے وکلاء اور شہری کمپراڈور مڈل کلاس کے سیکشنز جن میں زیادہ تر کراچی ، لاہور ، راولپنڈی کے لوگ تھے سب کے سب زوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر راضی تھے 
مرے فیس بک پر بنے ایک دوست نے لکھا کہ

 
لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ جہالت ، کم پڑھا لکھا ہونا ہے ، لیکن مجھے تو عمران خان نظر آتا ہھ جو آکسفورڑ سے پڑھا ہوا ہے اس تھریڈ کو پڑھکر مجھے یاد آیا کہ زوالفقار علی بھٹو کو ایک “بدمعاش ” ایک “قاتل ” خونی ، فاشسٹ اور پاکستان کے تمام خیالی و حقیقی مسائل کا زمہ دار ثابت کرنے اور زوالفقار علی بھٹو کی تصویر میں برے رنگ بھرنے والے سارے ہی قابل زکر کردار ان ہڑھ ، کم پڑھے لکھے ، ناخواندہ تو نہیں تھے اور نہ ہی وہ جاہل تھے ، بلکہ وہ سارے کردار تو بہت شاندار تعلیمی پس منظر رکھتے تھے ، سماج کے بیت نمایاں افراد تھے

 
مارشل کا وائٹ پیپر یا قرطاس ابیض جو جناب زوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک چارج شیٹ کے طور پر تیار کیا گیا تھا وہ جس ٹیم نے تیار کیا اس کی قیادت ملک کے معروف ترین صحافی ، انگریزی صحافت میں آوٹ لک جیسے میگزین کا اجراء کرنے والے آئی ایچ برنی تھے ، بھٹو کے خلاف قانونی مشورے عنائت کرنے والے ، جنرل ضیاء کو آئینی حیلے بتانے والے زیڈ اے سلہری سے کون واقف نہیں ہے ، بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے مولوی مشتاق جسٹس تھے 
زوالفقار علی بھٹو خطا اور غلطی سے پاک نہیں تھے ، انسان تھے ان سے بہت سی غلطیاں بھی ہوئیں اور ان کی سب سے بڑی خطا تو یہ تھی کہ انہوں نے یہ خیال کرلیا تھا کہ ایک طرف تو وہ پاکستان کی اشرافیہ کے کلب کے جاگیردار ، سرمایہ دار ، صنعتکار ، بڑے وکلاء ، افسر شاہی ، جرنیلوں ، ملاوں کو بے نقاب کرکے ، ان کو اس ملک کے مزدوروں ، کسانوں ، ھاریوں ، شہری و دیہی غریبوں کے ھاتھوں رسوا کرواکے ، ان کو للکارنے کی شہ دینے کے بعد ان کے درمیان ثالث اور سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے حکمرانی کرتے رہیں گے ، ان کی یہ بھول ، غلطی اس قدر بڑی تھی کہ یہی غلطی ان کو تختہ دار تک لیکر چلی گئی م زوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب

 
اگر مجھے قتل کیا گیا

 
میں اس غلطی کا اعتراف اس وقت کیا جب وہ کال کوٹھڑی میں تھے ، اس وقت اگر زوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کوئی کھڑا تھا تو وہ اس ملک کے شہری و دیہی غریب تھے ، نچلے متوسط طبقے کے لوگ تھے ، وہ نوجوان تھے جن کی مسیں بھی ٹھیک سے پھوٹی نہیں تھیں اور وہ بس بھٹو کے انقلابی نعروں کے اسیر تھے 
اس زمانے میں پنجاب کی شہری آبادی کی اکثر پرتیں اور کراچی کی کمپراڈور اربن کلاس کی اکثریت جلد از جلد بھٹو سے جان چھڑانے کی خواہش رکھتی تھیں 
پوری اپوزیشن میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں تھا جو یہ چاہتا ہو کہ صاف شفاف الیکشن بھٹو کے زندہ ہوتے ہوئے اور اس کی پارٹی کو اس میں پوری شرکت کا موقعہ دیتے ہوئھ منعقد ہوں

 
شاہ احمد نورانی نے جب یہ کہا تھا کہ قبریں ایک اور اس کا نشانہ دو ہیں ، کسی ایک کو اس میں جانا ہوگا تو وہ کراچی اور پنجاب کی شہری کمپراڈور کلاس کی ترجمانی کررہے تھے اور ضیاء کو بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لانا چاہتے تھے پیلپز پارٹی کی قیادت نے پوسٹ بھٹو دور میں اس سارے المئے سے ایک سبق تو یہ سیکھا کہ کسی بھی طرح سے اسٹبلشمنٹ کے عدم تحفظ اور عدم اعتماد کو کم کیا جائے ، پیپلزپارٹی کو زیادہ سے زیادہ صنعتکاروں ، بزنس مین ، سرمایہ کاروں اور کمپرڈور اربن کلاس کے حوالے سے نرم اور ان پرتوں کی حمائت حاصل کی جائے ، اپنے سرمایہ کاروں ، صنعت کاروں اور تاجروں کی پرت پیدا کی جائے ، مفاہمت کی سیاست کا اس سے زیادہ اور کچھ مطلب نہیں تھا ، لیکن یہ سب کن کی قیمت پر ہوا ؟ مجھے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے آپ سب بہت بہتر جانتے ہیں

Comments

comments