عدوان آل سعود – تم عنقریب شکت کھاو گے – عامر حسینی
ابراہیم الامین عرب کے ایک ایسے صحافی ہیں جن کو ہم سعودی عرب ، آل سعود کی سیاست پر مسند حوالہ قرار دیں تو غلط نہیں ہوگا ، انھوں نے آج ایک آرٹیکل لکھا ہے انزلوا عن الشجرہ او استعدو الاسواء شجر سے نیچے اتر آو وگرنہ اس کا برا نتیجہ بھگتنے کے لئے تیار ہوجاو ابراھیم الامین نے یمن میں سعودی عرب کی جانب سے کئے جانے والے ہوائی حملوں کا جو زکر کیا ہے ، اس کو بیان کرنے سے پہلے میں یمن میں امریکہ کے سفیر رہنے والے سٹیفن ساشے کی رائے درج کرتا ہوں جو آج کے نیویارک ٹائمز میں شایع ایک آرٹیکل میں شایع ہوئی ہے
Stephen Seche, a former American ambassador to Yemen, said that the Houthis had rarely defined their struggle in Yemen in sectarian terms and that their ties to Iran had been overstated by Gulf nations.
نیویارک ٹائمز بھی اپنے تجزیہ میں لکھتا ہے
The Saudi-led military campaign against the Houthis has led to fears of a burgeoning proxy war among the Middle East’s big powers. But it is unclear how, or if, Iran will directly respond to a campaign led by a coalition of Wahhabi ruling classes against a Houthi militia force. Some Middle East experts caution that the Houthi rebels are hardly puppets of Tehran, and that Iran spent years largely ignoring the group’s struggles in Yemen.
ان دو پیراگراف سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ایک تو حوثی قبائل کی جدوجہد فرقہ وارانہ مقاصد کے لئے نہیں ہے ، دوسرا سعودی عرب اور دیگر عرب ملک حوثی قبائل پر ایرانی اثر کا غلغلہ مبالغہ آرائی ہے ابراہیم الامین کہتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر یمن پر جو بمباری کی اس سے عام شہری مرے اور اس طرح کی فضائی مار دھاڑ یمنی شہریوں کے لئے اور زیادہ ھلاکت خیز ثابت ہوگی
لیکن ابراہیم کہتا ہے کہ حوثی حملے کے آفٹر شاکس سے سنبھلے ہیں اور انہو ں نہ صرف خود کو بچایا بلکہ ملڑی انسٹالیشن اور ھتیار بچالئے ہیں اور ان کی شمالی یمن میں پیش قدمی جاری ہے ابراھیم کہتا ہے کہ سعودی عرب نے بظاہر تو یہ کہا تھا کہ وہ عرب لیگ سے اس معاملے میں مشاورت کرے گا لیکن اس نے اس حوالے سے خود ہی یمن پر حملہ کرکے معاملے کو اپنے کنٹرول میں لیا اور اس وقت اگرچہ ہوائی حملوں میں اسے مصر ، سوڈان ، ترکی ، اردن ، کویت ، قطر ، متحدہ عرب امارات کی فضائیہ اور پائلٹوں کی مدد حاصل ہے لیکن خود ان ممالک کی جانب سے سعودی عرب پر حملے کی صورت میں تو ساتھ دینے کا اعلان ہے لیکن یہ ممالک آگے بڑھ کر یمن پر زمینی حملے کے لئے ساتھ نہیں دیں گے ،پاکستان کی پوزیشن بھی یہی نظر آرہی ہے
ابراہیم کہتا ہے کہ سعودیہ کے حلیف ممالک کی پوزیشن کے سبب اب سعودیہ عرب کی جانب سے بھی یہ کہا جارہا ہے کہ ان حملوں کا مقصد حوثی قبائیل کی پیش قدمی روکنا اور ان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لیکر آنا ہے
اس کے خیال میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ زمینی حملوں کے بغیر صرف ہوائی حملوں سے وہ کوئی نتائج حاصل کرلیں گے اور حوثی قبائیل کو مجبور کردیں گے تو اس معاملے میں سعودیہ عرب خاصی غلط فہمی کا شکار ہے ، وہ اس حوالے سے کوبانی ، موصل ، تکریت کی مثال دیتا ہے کہ وہاں پر یہ زمینی دستوں کی کاروائی تھی جس نے داعش کےبخلاف اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں مدد دی
ابراہیم سمیت کئی ایک تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حوثی قبائیل پہلے دن سے یہ ایجنڈا لیکر چلے تھے کہ ایک تو وہ یمن میں آزاد و خود مختار یمنی عوام کو جوابدہ حکومت کا قیام چاہتے ہیں دوسرا وہ یمنی حکومتی سیٹ اپ میں اپنی پوری نمائیندگی کے خواہاں ہیں وہ یمن میں سعودیہ عرب یا کسی اور کے زیر بار حکومت دیکھنے یا امریکی کٹھ پتلی حکومت دیکھنے کے خواہاں نہیں ہیں اور اس مقصد کے لئے انھوں نے کوئی دقیقہ فردوگزاشت نہیں کیا ہے
حوثی قبائل کا ایجنڈا کوئی فرقہ وارانہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ شمالی یمن سے ہٹ کر جنوبی یمن میں بھی ان کو عوامی سطح پر کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے اور ان کی پیش قدمی سعودی عرب کے فضائی حملوں کے تیسرے روز بھی جاری ہے
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں کی ایک اور بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ سابق صدر صالح عبداللہ اور ان کے حامیوں کی حمائت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور خود یمن کے بڑے سنی قبائل بھی سعودی عرب کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں ، اس لئے سعودی عرب یمن پر ھادی عبدربہ المنصور کو مسلط رکھنے کا جو ایجنڈا رکھتا ہے اسے یمن کے سنیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے ورنہ اس کو سعودیہ عرب فرار ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی
یمن میں اخوان المسلمون کا وھابی چہرہ ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہوا کہ اس نے سعودیہ اور اد کے اتحادیوں کی فضائی کاروائی کو درست کہا ہے اور ھادی عبدربہ المنصور کی حمائت کا اعلان کیا ہے گویا یمن کی عوام کے لئے اخوان کے پاس ایک کٹھ پتلی حکومت کی حمائت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یمن میں سعودیہ عرب کی اعلانیہ مداخلت اور سٹریٹیجک گہرائی کا منصوبہ ایسا ہے جس سے سعودیہ عرب کے اپنے اندر سے انتفاضہ اور مقاومت کے ابھر آنے کے امکانات ہیں ، ابراہیم کہتا ہے کہ سعودیہ عرب کو ایک طرف تو اپنے مشرقی صوبے میں مزاحمتی تحریک میں تیزی آنے کا سامنا کرنا ہوگا اور دوسری طرف القائدہ ، داعش سمیت دیگر وھابی تکفیری تنظیموں سے متاثرہ نوجوانوں کی بغاوتی تحریک کا سامنا کرنا بڑے گا
نیویارک ٹائمز میں
MARK MAZZETTI and DAVID D. KIRKPATRICK
نے ایک تجزیہ
A Policy Puzzle of U.S. Goals and Alliances in the Middle East
کے عنوان سے کیا ہے ، اس تجزیہ میں ایک بات بہت پتے کی ہے اور وہ یہ ہے ایک تو خود امریکہ کے لئے بہار عرب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں کوئی یکساں خارجہ پالیسی قائم رکھنا ممکن نہیں رہا کہ وہ مڈل ایسٹ میں ایک طرف تو ایران کے ساتھ ملکر موصل ، تکریت اور شام میں اب داعش کو شکست دینے کے لئے کام کررہا ہے تو دوسری طرف وہ ایران سے نیوکلئیر پروگرام پر معاہدہ کرنا چاہتا ہے ، لیکن یمن کے معاملے پر وہ نیم دروں ، نیم بروں کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے
یمن میں حوثی قبائل نے جو پاور کے خلاء کو پر کیا ، اس حقیقت کو ابھی تک سعودیہ عرب اور اس کے اتحادی نہیں پچا پائے اور امریکہ بھی ابھی تک عبدربہ ھادی کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن یہ مستقل پالیسی نہیں لگتی
i think king suleman strategy is good . nip the evil in the bud . so far he is doing well.
ex president saleh has realised the gravity of the situation now he has started distancing himself from the hothi rebels .