ایم کیو ایم کے خلاف یکطرفہ آپریشن پر میرے اعتراض کی وضاحت – خرم زکی
میں نہ ایم کیو ایم کا سپورٹر ہوں، نہ پیپلز پارٹی کا، نہ نواز شریف کا اور نہ ہی عمران خان کا ۔ عمران خان کو چھوڑ کر باقی سب سیاستدانوں کے ہاتھ عوام الناس کے خون میں رنگے ہوئے ہیں اور اس حمام میں یہ سارے سیاستدان ننگے ہیں ۔ فوج میں بھی کچھ ایسے عناصر ضیاء الحق، اسلم بیگ، حمید گل اور ان کی باقیات موجود ہیں جو تکفیری خوارج کی پشت پناہ ہیں، عمران خان کی سیاست بھی کوئی اصول کی سیاست نہیں
لیکن جو بات عرض کرنے کی ہے وہ یہ کہ اگر مجھ کو الطاف حسین یا عمران خان پسند نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے ماواراء قانون سلوک ہو۔ ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت ہے جس طرح پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف۔ کراچی میں آپریشن مجرموں کے خلاف ہونا چاہیئے بلا تفریق، اگر رکاوٹیں ہٹانی ہیں (اور ضرور ہٹانی چاہیئے) تو بلاول ہاؤس اور مشرف کی رہائش گاہ نائن زیرو یا میرے اور آپ کے گھر سے زیادہ مقدس نہیں۔کراچی میں اگر آپریشن کرنا ہے تو مردان ہاؤس، نائن زیرو، بلاول ہاؤس، لیاری امن کمیٹی اور ایم کیو ایم کے کرمنلز سب کے خلاف یکساں ہونا چاہیئے اور ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے۔
لیکن سب سے بڑھ کر وہ کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہ (انجمن سپاہ صحابہ، تحریک طالبان، لشکر جھنگوی) جو کراچی سے لے کر پشاور تک، عام پاکستانیوں سے لے کر مسلح افواج تک، شیعہ مسلمانوں سے لے کر سنی بریلویوں صوفیوں تک ، مسیحیوں سے احمدیوں تک، سب کا قتل عام کر رہے ہیں، جنھوں نے حکومت پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ خود اس ملک اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے، جو پاک فوج کو ناپاک اور مرتد فوج کہتے ہیں، جو سنی بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کو کافر، قبر پرست اور مشرک کہتے ہیں، امام بارگاہوں، مساجد، مزارات اور خانقاہوں کو اپنے دہشتگرد حملوں کا نشانہ بناتے ہیں، جنھوں نے پچھلے دس سالوں کے اندر پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو قتل کیا ہے، سب سے پہلے ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں سے نبٹنا چاہیئے جو دوسرے مسالک اور مکاتب فکر ایک طرف خود معتدل دیوبندیوں کے بھی دشمن ہیں، جن کے مدارس اور مساجد دہشتگردی کے مرکز بن چکے ہیں، جہاں سے کھلے عام داعش کی حمایت میں بیانات سامنے آ رہے ہیں، جو اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ دہشتگردی کے ان مدارس کو، ان کے حامیوں اور حمایتیوں کو سب سے پہلے کچلنے کی ضرورت ہے۔ باقی ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی. مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور اے این پی کے جرائم پیشہ یا مسلح ونگز کوبھی نہ بخشا جائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ضرب عضب اور کراچی میں آپریشن کے باوجود سپاہ صحابہ و لشکر جھگنوی کے غنڈے اورنگزیب فاروقی، لدھیانوی، ملک اسحق، رمضان مینگل، رفیق مینگل، عبد العزیز، اکرم لاہوری جیسے بدنام زمانہ دہشتگرد ابھی تک یا تو آذاد گھوم رہے ہیں یا سزاؤں سے محفوظ ہیں، ان کے مدارس اور مراکز ابھی تک قانون کی گرفت سے محفوظ ہیں، نہ وہاں چھاپے پڑتے نظر آتے ہیں نہ ہی ان دہشتگردوں کو گرفتار کر کے ان سے پوچھ گچھ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کیا حکومت، فوج اور رینجرز کو معلوم نہیں کہ اگر فاروقی، مینگل، ملک اسحق اور لاہوری سے بھی ویسے ہی تفتیش کی جائے جیسے صولت مرزا، کے ٹو اور دیگر کرمنلز سے کی گئی تو اس سے کہیں بڑے جرائم اور مظالم اور اس کے پیچھے چھپے کرداروں کی اصلیت سامنے آئی گی کہ جو عام عوام کی سوچ و فکر سے کہیں باہر اور آگے ہے ؟ تو کیا وجہ ہے کہ اکرم لاہوری اور ملک اسحق کی تفتیشی رپورٹ اور اعتراف جرم کی ویڈیوز سامنے نہیں آ رہی؟ یہ تو وہ دہشتگرد ہیں جو ہزاروں لوگوں کا خون بہا چکے، پھر ان سے رعایت کیوں ہو رہی ہے ؟ ابھی کراچی یونیورسٹی میں شیعہ مسلمانوں کی نماز ظہر پر حملے کے جرم میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی جمیعت طلبہ سے تعلق رکھنے والے دو دہشتگردوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئ، اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وحید برادران کور کمانڈر کراچی جرنل احسن سلیم حیات پر قاتلانہ حملہ کر چکے ہیں، ان دہشتگردوٍں اور ان کی سیاسی وابستگیوں کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا ؟ عزیر بلوچ کے اعتراف جرم کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی گئی اور اس پر وہ ایکشن کیوں نہیں لیا گیا جو صولت مرزا کے بیان کے بعد نظر آیا؟ یہ وہ دہرا معیار ہے جس پر میں معترض ہوں نہ کہ ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن پر۔