کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف حالیہ آپریشن اورچند اہم سوال – حیدر جاوید سید
سوالوں سے بھاگا نہیں جاسکتا صاحب!دو باتیں ایسی ہیں جن پر رائے دینے سے احتیاط لازم ہوئی۔ خطرے والی بات نہیں مگر”اطلاعات“ دہندہ بارے مزید چھان پٹھک لازم ہے۔”اُن“ کا خیال ہے کہ عامر خان کو دوبارہ ایم کیو ایم میں پلانٹ کیاگیا تھا۔یہ کہ ایم کیو ایم میں چونکہ ون مین شو چلتا ہے اسلیئے رابطہ کمیٹی کے بعض ارکان کی بات نہیں سنی گئی۔جو کہہ رہے تھے۔عامر خان آیا نہیں بھجوایا گیا ہے۔”وہ“ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبیل گبول کی متحدہ سے علیحدگی ابتدائیہ تھا۔ بدھ کو نائن زیرو پر جو ہوا وہ لکھے گئے سکرپٹ کا حصہ ہے۔
صحافت و سیاسیات کے طالب علم کیلئے اس گڑ بڑ گھٹالے سے زیادہ قائد تحریک الطاف حسین کے ارشادات کا یہ نکتہ اہم ہے کہ ”اگر کسی سے کوئی خطا سرزد ہو بھی گئی تھی تو اسے نائن زیرو پر چھپنے کی بجائے طول و عرض میں پھیلی خدا کی زمین کے کسی حصے کی طرف نکل جانا چاہیے تھا۔میں خود بھی تو 25سالوں سے لندن میں مقیم ہوں“۔خدا لگتی کہیے۔ کیا یہ اعتراف جرم نہیں؟۔البتہ ایک سادہ سا سوال ضرور آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ منصورہ اور لال مسجد کی طرح کے دیگر مقامات کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کب کارروائی ہوگی۔
لاریب ریاست کو اپنی حیثیت منوانا ہوگی۔مزید تجربات یا ادھورے کام بنیادیں ہلا کر رکھ دیں گے۔ویسے بنیادیں ”جھول“ تو اب بھی رہی ہیں۔بدھ کو کراچی آپریشن نے جوموڑ لیا۔وہ حیران کن ہر گز نہیں وسیم اختر ہوں بابر غوری انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ عامر خان نام کے ”مخبر“ سے جان چھوٹی۔لیکن یہ رشید گو ڈیل میاں جو ہوائیاں چھوڑ رہے ہیں ان کا مقصد کیا ہے۔فقیر راحموں بجا کہتے ہیں کہ ڈ اکٹر عشرت العباد نے گٹار بجانا سیکھ کر اچھا کیا۔بیروزگاری کے دنوں میں ایمپریس مارکیٹ کے فٹ پاتھ پر میلہ لگا سکیں گے۔]جان کی امان ہو تو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے دریافت کر لیا جائے۔ حضور اس رپورٹ کا کیا ہوا جس میں یہ لکھا ہے کہ ”کراچی کے 41مدارس ایک مذہبی شدت پسند تنظیم اور کالعدم لشکر جھنگوئی کیلئے ہمہ قسم کی اعانت فراہم کرتے ہیں۔اس ہمہ قسم کی اعانت تشریح یہ ہے کہ ”افرادی قوت، اسلحہ اور مالی وسائل“۔
فروری 2015ء کے اوائل میں یہ رپورٹ سندھ اور وفاقی سرکاروں کے بڑوں کو موصول ہوگئی تھی۔ اس رپورٹ میں ناگن چورنگی، جامعہ مسجد عثمانیہ،بلدیہ ٹاؤن کراچی میں قائم ایک فلاحی تنظیم کے دفتر اور اورنگ زیب فاروقی کی اقامت گاہ کا بھی تذکرہ ہے۔ویسے سہراب گوٹھ اور بنارس کالونی کے دو مدرسوں کی بات بھی ہے کہ ان میں غیر قانونی طور پر افغان اور ازبک اساتذہ و طلباء موجود ہیں۔
میں نائن زیرو اور دیگر معاملات کو گڈ مڈ نہیں کر رہا۔لیکن لوگوں کے سوالات کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔سمجھنے والی بات یہ ہے کہ قدم آگے بڑھایا ہے تو بڑھتے ہی رہنے دیں۔پسپائی، ریاست کے چہرہ پر کالک مل دے گی۔یہ مطالبہ بجا ہے کہ ہائیکورٹ کے جج سے بدھ کے اقدام اور نتائج کی چھان بین کروائی جائے۔ مگر کوئی اس سوال کا جواب دینا پسند کرے گا۔جن عدالتوں میں لسانی و مذہبی دہشت گردوں کے مقدمات 20سال سے زیر سماعت ہوں اور التوا پر التوا اس لیے ہو کہ جان پیاری ہے۔اس ماحول میں ہائیکورٹ کا جج آزادانہ طور پر تحقیقات کرلے گا؟
یہ سب باتیں درست ہیں مگر ایک بات اور بھی غور طلب ہے وہ یہ کہ ایم کیو ایم نے نائن زیرو کے مراکز کے علاوہ پورے علاقے میں (لگ بھگ ایک کلو میٹر کے) ویڈیو مانیٹرنگ کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ذرا ان سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ تو سامنے لائیے تاکہ لوگ اس الزام کی اصلیت جان سکیں جو بھائی لوگ لگاتے پھر رہے ہیں۔”رینجرز والے اسلحہ بوریوں اور کمبلوں میں چھپا کر نائن زیرو لائے اور پھر برآمدگی کا ڈرامہ پیل دیا“۔ قانون کو اپنا کام کرنا چاہیے۔بہت ہوگیا غریب پرور کراچی کے ساتھ۔
کوئی ایم کیو ایم سے بھی پوچھے کہ 1988ء سے آج تک کے 28سالوں کے دوران آپ ہمیشہ اقتدار میں شریک رہے۔مشرف دور میں تو آپ کا طوطی بولتا تھا۔ان 28برسوں کے دوران کراچی سے غربت کے خاتمے، صحت و تعلیم کے شعبوں میں بہتری لانے اور بدامنی سے نجات کیلئے کیا کیا گیا؟۔ ایم کیو ایم کی لندن کمیٹی اور خود الطاف بھائی کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں۔
یا پھر یہ کہ اگر ایم کیو ایم کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنانا چاہتی ہے تو اس حوالے سے عملی اقدامات کی تفصیل کیا ہے۔ ]کراچی کو مزید کرچی کرچی ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ سوا دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں بلا امتیاز آپریشن کی جائے۔ ایم کیو ایم ہی نہیں کالعدم تنظیموں سے تعلقات رکھنے والے 41مدارس اور فرقہ پرست تنظیموں کے مراکز کے ساتھ ان کے لیڈروں کے خلاف بھی کارروائی بہت ضروری ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ کراچی میں 50لاکھ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔25لاکھ افغانی ہیں۔باقی بھارتی، برمی، عراقی، بنگالی ان سب کو دیس نکالا دینا از بس ضروری ہے۔سوا دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں 50لاکھ غیر قانونی تارکین وطن؟ سوال کس سے کیا جائے۔
ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی ف اور س یا پھر اہلسنت و الجماعت والوں سے جو ان تارکین وطن کی پشت پر روز اول سے کھڑے ہیں۔خیر نئی بحث کا دروازہ کھولے بغیر اب ریاست کو اپنی اتھارٹی منوانے کیلئے قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہوگا۔وہ فقط اس صورت میں ممکن ہے جب قانون کی بالا دستی اور انصاف کے عمل پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔ لوگ ڈسے ہوئے ہیں ان درندوں کے جنہیں ماضی میں ریاست نے اپنی ضرورتوں کیلئے پالا پوسا اور پھر سماج پر چھوڑ دیا۔ہم آگے بڑھتے ہوئے ایک اور سوال اٹھاتے ہیں۔
یہ اطلاعات کس حد تک درست ہیں کہ کراچی طرز کا آپریشن اندرون سندھ شروع کیا جائے گا۔فیصلہ کر لیا گیاہے۔ریاست ان اطلاعات پر صاد کر چکی ہے کہ کچھ کالعدم عسکری تنظیموں نے اندرون سندھ اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر لیے ہیں۔سانحہ شکار پور کے حوالے سے ہوئی بعض گرفتاریوں اور ابتدائی تحقیقات کے دوران دستیاب معلومات سے جن خطرات کی نشاندہی ہوئی ان سے عہدہ برا ہونے کیلئے کیا سوچا گیا؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ لوگ ریاست کو گمراہ کرکے آپریشن کا رخ جسقم قریشی گروپ کی طرف موڑنا چاہتے ہیں؟۔
جیئے سندھ قومی محاذ کے قریشی گروپ کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں تو ریاست عدالت سے رجوع کرے تاکہ اگر وہ (قریشی گروپ) غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو ٹھوس کارروائی ہوسکے۔] معاف کیجئے گا ایسا لگ رہا ہے کہ سندھ میں کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک اور محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی آڑ میں سندھی قوم پرستوں کے ایک گروپ کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے۔کوئی ہمیں بتلائے بھی تو کہ سکھر۔میرپور خاص۔ٹھری میرواہ۔نواب شاہ اور گھوٹکی میں کالعدم تنظیموں کے حامیوں کے مراکز کے خلاف کارروائی میں کیا امر مانع ہے۔
ایک تلخ سوال اور بھی ہے وہ یہ کہ جے یو آئی(ف) سندھ کے مقتول سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل کی تحقیقات کے دوران ایک مذہبی شدت پسند تنظیم کے جن2رہنماؤں کے نام سامنے آئے تھے انہیں شامل تفتیش کرنے میں امر مانع کیا تھا؟۔اور یہ کہ کس کے کہنے پر ڈاکٹر سومرو کے سفاکانہ قتل کو خاندانی رنجش کا شاخسانہ بنا کر پیش کیا گیا؟۔ہم پھر بدھ کو نائن زیرو پر ہوئے آپریشن،گرفتاریوں اور اسلحہ کے ساتھ مطلوب مجرموں کی برآمدگی پر بات کرتے ہیں۔ایم کیو ایم والے خود کو اب متحدہ قومی موومنٹ کہتے کہلواتے ہیں مگر بدھ کے واقع کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما ؤں نے رینجرز والوں کی نسلی و زبانی شناختوں کی بَھد اڑاتے ہوئے جس قسم کی الزام تراشی کی کیا وہ اس کا ثبوت نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ڈھکوسلے کے باوجود ان کی سوئی مہاجر ازم پر اڑی ہوئی ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اب یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سماج دشمن عناصر، عسکریت پسندوں، فرقہ واریت کے مریضوں، بھتہ مافیاز، غیر قانونی تارکین وطن اور دیگر ریاست و عوام دشمنوں کے خلاف کارروائی کو بیچ میں چھوڑنے کی بجائے مکمل کرے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے پائیں۔ بہت ہوگیا اس ملک کے لوگوں کے ساتھ، ٹوپی ڈرامے مزید چلنے کے نہیں،قانون کو موم کی ناک بنا کر رکھنے والوں اور غیر ریاستی ایکٹرز کے ساتھ رعایت کی گنجائش نہیں۔
”ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں“