شاہ سلمان آف آل سعود کی مڈل ایسٹ میں عقابی پالیسی کیا کھیل کے اصول بدل دے گی ؟ – خالد نورانی مدیر مجلہ صدائے اہل سنت سعودی
posted by Guest Post | March 8, 2015 | In Original Articles, Urdu Articlesسعودی عرب کے نئے بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فاختائی فطرت کی بجائے عقابی فطرت رکھتے ہیں اور ابتک ان کے اقدامات سے ثابت ہورہا ہے کہ ان کے بارے میں کہی جانے والی یہ بات غلط نہیں ہے
شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد امور سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے وہ نیا ولی عہد اور نیا نائب ولی عہد لیکر آئے ، انہوں نے کئی انتظامی زمہ داریاں نئے لوگوں کو دیں جبکہ انہوں نے طاقتور ایڈوائزی کونسل کا حجم بھی کم کردیا ، ان انتظامی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے امریکہ سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ سے مستحکم کرنے کے لئے تیزی سے اقدامات اٹھانے کا عندیہ بھی دیا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے اس کام کی طرف متوجہ ہوئے ہیں جس کو سعودی عرب کے کمیپ کی جانب سے ایران کے سعودی اثر کے حامل علاقوں پر ایرانی اثر کے بڑھنے کو روکنے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور سعودی عرب کے نئے فرمانروا اس کام کو جنگی بنیادوں پر آگے لیجانا چاہتے ہیں
شاہ سلمان کی پالیسی کی عقابی فطرت کے اول آثار ےتو یمن کے حوالے سے ظاہر ہوئے ہیں ، انھوں نے سابق صدر عبداللہ صالح کو شاہ عبداللہ کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی ان کو صدارتی محل میں آنے کی اجازت ملی ، اس کی وجہ صالح کی جانب سے یمن میں حوثی قبائل کو صنعاء میں آنے میں مدد فرسہم کرنا بنی ہے جبکہ سعودی عرب کا سفارت خانہ صنعاء سے عدن میں منتقل کردینے کے احکام بھی شاہ سلمان نے کئے اور اس حوالے سے سلمان نے حوثی قبائل سے کسی بھی قسم کی بات کرنے سے انکار کردیا ہے اور حوثی قبائل کی صنعاء میں صدارتی محل تک پر قبضے کو سعودی عرب ایرانی منصوبہ ہی قرار دیتا ہے
سعودی عرب کے سفارت خانے کی صنعاء سے عدن منتقلی کے فوری بعد خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممبر ممالک نے اپنے سفارت خانے عدن منتقل کردئے جبکہ مغربی سفارت خانے اس کے فوری بعد بند ہوئے ، جس سے یی کاشن دیا گیا کہ یمن میں حوثی قبائل کی دارالحکومت پیش رفت کو دونوں کمیپ ہی خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں ، امریکہ حوثی قبائل کے حوالے سے ایسی پالیسی اپنانا چاہتا ہے جس سے ایران ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مغربی کیمپ کی منشا کے مطابا معاہدہ کرلے جبکہ سعودی عرب کے لئے یمن کی حکومت حوثی قبائل کے پاس جاناایک ڈروانا خواب ہے ، امریکی مشیر کے مطابق ایران سے ایٹمی پروگرام پر کوئی ڈیل ہو یا نہ ہو لیکن امریکہ ایران کے ان اقدامات کی مخالفت جاری رکھے گا جس سے خطے میں گلف تعاون کونسل کے لئے خطرات پیدا ہوں اور خطے میں عدم توازن پیدا ہو
سعودی عرب نے شاہ سلمان کے بادشاہ بننے سے پہلے حوثی قبائل کی لڑائی کو یمن سے القائدہ کے خاتمے اور اخوان المسلمون کے اثر میں کمی کی شکل میں دیکھا اور ان کے حوالے سے قدرے نرمی برتی تھی لیکن حوثی قبائل کے صنعاء پر قبضے اور پھر صدارتی محل پر قبضے سے اسے شدید عدم تحفظ کا احساس ہوا ، پھر حوثی قبائل نے بھی صدارتی محل پر کنٹرول کے بعد صنعاء کے ہوائی اڈے سے جو پہلی فلائٹ چلائی وہ صنعاء سے تہران تک چلائی اور ابھی کئی اور اقدامات اٹھانے کے لئے بات چیت جاری ہے
دوسرا اہم اشارہ سلمان کی عقابی فطرت کا مصر کے حوالے سے ہے ، شاہ سلمان کے ارادے یہ ہیں کہ وہ شاہ عبداللہ کی طرح جنرل السیسی کی مالی و سیاسی حمائت جاری نہیں رکھیں گے بلکہ اس دور کی جنونی پالیسی کو معمول پر لانے کی کوشش ہورہی ہے ، السیسی کی اپنے فوجی کمانڈروں سے جو فون پر باتیں ٹیپ ہوکر سامنے آئی ہیں ان کو سعودی شاہ سلمان آسانی سے بھلانے والے نہیں ہیں اور سعودی عرب مڈل ایسٹ میں مصر کے پرانے باثر کردار کی واپسی پر بھی راضی نہیں ہیں اور سعودی جنرل السیسی کی بات کو ویسے ہی نہیں بھولیں گے جیسے انہوں نے بشار الاسد کی جانب سے سعودی عرب کے حکمرانوں کے لئے ” نیم مرد ” کی پھبتی کو نہیں بھلایا تھا
سعودیہ عرب کی جانب سے جنرل السیسی سے پیار میں جنون کے آثار میں کمی اس وقت نظر آئی جب جنرل السییسی نے قطر پر مڈل ایسٹ میں ہونے والی دہشت گردی کی ماں ہونے کا الزام عائد کیا ، جس پر خود سعودی عرب کا ردعمل شدید آیا ، اگرچہ السیسی نے بعد میں یہ بھی کہا کہ مصر کی سلامتی گلف ریاستوں کی سلامتی سے جڑی ہے اور مصر کی جانب سے ان ملکوں پر حملے کی صورت میں اپنی فوجوں کو وہاں بھجوانے کا عہد بھی دوہرایا گیا ، اگرچہ سعودی عرب نے بعد میں اپنے موقف کی توجیح بھی کی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا
مصر نے قاہرہ میں شام کھ معاملے پر جو قومی یک جہتی کانفرنس برائے شام بلائی تھی جس کا مقصد شام میں اپوزیشن الائنس کو متحد کرنا تھا لیکن عملی طور پر اس کانفرنس میں شامی قومی اپوزیشن مارجنلائز ہوئی اور مصر نے ابتک شامی اپوزیشن قومی اتحاد کے صدر کی جانب مصر کا سرکاری دورہ کرنے کی اجازت خالد خواجہ کی درخواست کے باوجود بھی نہیں دی ہے ، جنرل السیسی کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا کہ وہ شام کی وحدت برقرار رکھتے ہوئے شامی فوج کی تباہی بھی نہیں چاہتا اور وہ شامی اپوزیشن اور بشارالاسد میں معاہدے کا خوایش مند ہے ، لیکن اس معاملے پر اس کے سعودی عرب سے اختلاف نظر آرہا ہے ، جنرل السیسی کو شام کے معاملے پر مختلف راستہ اپنانے پر سعودی عرب کی طرف سے مالی امداد تک منقطع کرنے کا پیغام پہنچایا گیا ہے لیکن پھر بھی سعودی عرب کو مصر کی سیاسی حمائت کی ضرورت ہے ، سعودی عرب کے دورے پر جنرل السیسی کا ائرپورٹ پر استقبال خود شاہ سلمان نے کیا ، لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا سعودی امداد مصر کو ملے گی
مصر اور ترکی کی سیاسی اور فوجی امداد سعودی عرب کے لئے ایران سے محاز آرائی کے تناظر میں انتہائی ضروری ہے ، اس لئے سعودی عرب مصر اور ترکی سے اپنے تعلقات تمام تر اختلافات کے باوجود برقرار رکھے گا اور یہ جو کہا جارہا تھا کہ مصر کے صدر السیسی ا،ریکی دباو میں آکر اخوان المسلمون کو ایک سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دیں گے اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں بلکہ ہواس کے الٹ رہا ہے ، سعودی عرب جانے سے کچھ دیر پہلے السیسی نے کئی اخوان رہنماوں اور کارکنوں کے بلیک وارنٹ پر دستخط کئے اور اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیکر اس کی بحالی کے امکانات کو معدوم کردیا ، اس پر ترکی کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا لیکن سعودی عرب نے اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی مصر اور ترکی کے درمیان اخوان المسلمون کے معاملے پر پائی جانے والی چتقلش کے باوجود سعودی عرب ایران کے مبینہ علاقائی اثر و رسوخ کے پھیلاو کو روکنے کی مہم میں دونوں ممالک کو اپنے ساتھ رکھنے کا خواہش مند ہے
سعودی عرب ایران کے مبینہ رول کو کم کرنے کی مہم ایک ایسے وقت میں شروع کررہا ہے جب ایک طرف تو یمن سے لیکر عراق تک اور پھر وہاں سے شام تک اس کے اثرات کا پھیلاو واضح نظر آتا ہے ، جبکہ اس موقعہ پر امریکہ سمیت جی پلس فائیو ممالک ایران سے ایٹمی معاہدے کے قریب ہیں اور ادھر امریکہ نے ترکی کے ساتھ شامی نیشنل ماڈریٹ اپوزیشن کی مشترکہ تربیت کا معاہدہ کیا ہے اور جبکہ وہ عراق میں داعش کے وجود کو مٹانے کے لئے عراق میں عراقی نیشنل آرمی ، سنی عرب قبائل ، شیعہ ملیشیا اور ایرانی القدس بریگیڈ کی مشترکہ فوجی مہم کی حمائت بھی کررہا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی خواہش خطے میں اب سعودی عرب کو ہی تنہا سب سے طاقتور پلیر بناکر کھیلنے کی پالیسی نہیں رہی
بقول سامی کلیب کے کہ ہمیں مڈل ایسٹ میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے کے لئے یمن پر بہت کلوز اور گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے جہاں گلف عرب اثر کے سوال پر خود جنوبی یمن کی سیاسی قوتوں میں تقسیم موجود ہے ،وہاں بھی ساری حمائت سعودی عرب کی موجود نہیں ہے ، اسی طرح سے شام اور عراق میں مغربی بلاک کو زیادہ دلچسپی داعش جیسے خطرات کو دور کرنا نظر آتی ہے اور اس موقعہ پر کسی بھی فریق کے لئے مرضی کے کھیل کے اصول مرتب کرنا آسان نہیں ہوگا
اس تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورہ سعودیہ عرب کو بھی دیکھنا چاہئیے ، میاں نواز شریف سعودی عرب کی خواہشات کو دل سے پورا کرنے کے خواہاں بھی ہوں تو بھی اس ملک میں دیگر طاقت کے مراکز اور خود پارلیمان میں طاقتور حریف و اتحادی بھی ان کو ایسا کرنے نہیں دیں گے ، شام کے معاملے پر ان کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے کی جو بات چلی تھی وہ عسکری اسٹبلشمنت کے گرین سگنل نہ ملنے کی وجہ سے ختم ہوگئی ، دوسرا پاکستان کے فوجی و سیاسی حلقوں میں یہ اتفاق نظر آتا ہے کہ سعودی عرب کو اس کی سرحدوں ہر جو خطرات محسوس ہورہے ہیں ان کے تدارک کے لئے پاکستان کی فوجی خدمات سے انکار نہیں ہے ، لیکن پاکستانی ریاست مڈل ایسٹ میں مبینہ ایران و سعودی عرب محاز آرائی اور ایک دوسرے کو بچھاڑنے کی جو پالیسی ہے اس کا حصہ بننے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ،
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان جو دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ،لیکن آثار یہ بتاتے ہیں یہ معاہدہ سعودی عرب کی ریاستی سلامتی میں فوجی تعاون کی حد تک محدود ہوگا ، مڈل ایسٹ کے کسی تنازعے میں پڑنے کا نہیں ، ترجمان وزرات خارجہ کا بیان بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان امت کی وحدت کا حامی ہے مگر کسی بھی طرح کی فرقہ واریت پر مبنی تزویراتی اتحاد کا قائل نہیں ہے اور ابھی حال ہی میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بلوچستان میں مذھبی کالعدم تنظیموں کے خلاف جس طرح سے موثر اور فیصلہ کن کاروائیاں کیں اور عثمان کرد عرف سیف اللہ کی ہلاکت ہوئی اور پھر عبدالمالک ریگی کے کزن عبدالسلام کی گرفتاری بھی پالیسی شفٹ اور توازن برقرار رکھنے کی علامتیں نظر آتی ہیں ، پاکستان کے لئے بہتر راستہ مڈل ایسٹ کے تنازعوں سے خود کو دور رکھنا ہی ہے