شیر دل اور بہادر شہید عباس علی
شہید عباس علی کے والد محب علی جو پشاور میں ایک ادارے میں چوکیدار کی حیثیت سے اپنی زندگی کی شب و روز گزار رہے ہیں بتایا کہ عباس علی یکم جنوری 1985 کو کرم ایجنسی کے سرحدی علاقے پیواڑ میں پیدا ہوئے اور پیواڑ پرائمری سکول اور میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول نستی کوٹ سے حاصل کی اور ڈگری کا لج پاراچنار سے ایف اے کرنے کے بعد محنت مزدوری کیلئے عرب امارات چلا گيا ۔ دو سال قبل اپنے بیٹے کی شادی کرائی تھی ۔ دہشت گردی کے واقعے کے چند روز قبل وطن واپس آیا تھا ۔ آرمی پبلک سکول پشاور حملے کا جب ذکر سنا تھا تو انتہائی بے قرار ہوکر کہتا تھا کہ کاش میں اسکول کے اندر موجود ہوتا تب میں دہشت گردوں کو سبق سکھاتا۔
وقوعہ کے روز عباس علی میرے ساتھ نماز پڑھنے مسجد گيا جب دہشت گرد مسجد میں داخل ہوئے تو میں نے اسے مضبوطی سے ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا اور زمین پر بیٹھنے کا کہہ رہا تھا لیکن عباس علی نے مجھ سے ہاتھ چھڑا کر خود کش حملہ آور پر حملہ کیا اور اس دوران مسجد میں فائرنگ ہوتی رہی چند لمحے بعدجب دوسرا خود کش حملہ ہوا تو ہر طرف افراتفری اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے ایک دو منٹ گذرنے کے بعد جب دھواں اور گرد و غبار ختم ہوگيا تو میں نے دیکھا کہ جہاں عباس علی نے خود کش حملہ آور کو مار ڈالا ہے وہیں پر وہ بھی دوسرے حملہ آور کی فائرنگ سے شہید ہوگيا تھا ۔
شہید عباس علی کے والد محب علی کا کہنا تھا کہ حملہ آور کے اوپر عباس علی اس طرح پڑا تھا جیسے وہ سو رہے ہیں ۔ محب علی کا کہنا تھا کہ بیٹے کی دو ہی خواہش تھیں، پاک فوج ميں بھرتی ہوکر ملک و قوم کی خدمت کرنا اور شہادت پانا ۔ فوج ميں تو بھرتی نہ ہوسکا البتہ شہادت کی خواہش اس طرح پوری ہوئی کہ نہ صرف اپنی جان قربان کرکے بے مثال کارنامہ انجام دیا بلکہ دوسرے نمازیوں کی جان بھی بچائی ۔ محب علی کا کہنا تھا کہ عباس علی شہید کی قبر پر روزانہ اس کے دوستوں اور دور دراز علاقوں سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور لوگ انہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ۔
شہید عباس علی کے چچا وہاب علی کا کہنا تھا کہ شہید کے حسن اخلاق سے میں انتہائی متاثر تھا یہی وجہ ہے کہ میں اسے بہت چاہتا تھا جب عباس علی کی شہادت کا سنا تو بے حد تکلیف پہنچی اور یہی حواہش کرتا رہا کہ کاش عباس علی کی جگہ میرا بیٹا شہید ہوجاتا ۔ شہید عباس علی کے قریبی ساتھیوں لائق حسین ، جواد حسین ، میثم علی ، اور شاہد حسین نے بتایا کہ جب عباس علی زندہ تھے تو ہم فخر کرتے تھے کہ عباس علی جیسے بہادر انسان ہمارا دوست ہے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ انتہائی نرم مزاج دیندار ، خوش اخلاق اور خدمت گزار انسان تھے اور شر و فساد والے لوگوں کو پسند نہیں کرتا تھا اور آج جب وہ شہید ہوگئے ہيں تو ایک طرف ہمیں ان کے بچھڑنے پر افسوس ہوا ہے، دوسری طرف ان کی بہادری پر وہ بھی فخر محسوس کررہے ہیں ۔
اگر حکومت اور متعلقہ ادارے ایسی بہادری کا مظاہرہ کرنے والے شیر دل جوانوں اور خاندانوں کی حوصلہ افزائی کریں تو مستقبل ميں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف لوگوں کے جذبات ابھریں گے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کو کمزور کرنے میں بھی اس قسم کے جوان کلیدی کردار ادا کرینگے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے کہاہے کہ عباس علی کو اعلیٰ اعزاز سے نوازنےکیلئے سفارش کی جائے گی جب کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے شہداء کے خاندانوں سے رابطہ کیا گيا ہے کہ شہید کو یوم شہداء کے موقع پر ایوارڈ سے نوازا جائے گا ۔