لاہور میں ادبی میلے میں شیعہ نسل کشی پر خاموشی ہمیں نازی جرمنی کے ادیبوں کی یاد دلاتی ہے- ازعبدل نیشاپوری
لاہور میں ادبی میلےمیں دنیا بھر کے معاملات بشمول دولت اسلامیہ پر بحث تو ہوئی لیکن اپنے ہی ملک میں طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی خوارج کے ہاتھوں شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی اور سنی بریلوی، احمدی، ہندو اور مسیحی پاکستانوں کے قتل عام پر کوئی خاص بات نہیں ہوئی – اس موضوع پر ایک مضمون، کالم، نظم یا افسانہ تک نہیں پیش کیا گیا
نازی جرمنی میں نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام پر جرمن اور دنیا بھر کے ادیبوں اور صحافیوں کی خاموشی کی طرح پاکستان میں نسل کشی کا شکار شیعہ مسلمانوں کی شیعہ شناخت اور ان کو قتل کرنے والے دیوبندی دہشت گردوں کی دیوبندی شناخت پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے یا سنی شیعہ و سعودی ایران بائنری میں اسے چھپانے یا تحلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے – دہشت گروں کی اصلی شناخت دیوبندی تکفیری کو چھپا نے کے لئے انتہا پسند، شدت پسند، اسلامسٹ، ملا، سنی اور دیگر غیر واضح الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں
ندیم پراچہ، محمد حنیف، انتظار حسین، عائشہ جلال، اعتزاز احسن، شیری رحمان، نجم سیٹھی، انور مسعود ،کامیلا شمسی، صبا امتیاز، محسن حامد ، مونی محسن اور دیگر پاکستانی و ہندوستانی شاعروں، دانشوروں اور ادیبوں نے اردو اور انگریزی زبان میں دیوبندی تکفیریت پر نازی نما خاموشی اختیار کر رکھی ہے – جن چند با ضمیر اہل سخن جیسا کہ محسن نقوی اور سبط جعفر وغیرہ نے کھل کر سپاہ صحابہ کے دیوبندی دھشت گروں کے ہاتھوں سنی صوفی اور شیعہ مسلمانوں کے قتل عام پر تحریریں لکھیں ان کو تکفیری خوارج نے شہید کر دیا
ایسا لگتا ہے کہ اب ہمیں دیوبندی اور وہابی دہشت گردوں کی اصلی شناخت جانچنے کے لیے رابرٹ فسک، پیٹرک کاکبرن اور جارج گیلووے کی تحریروں کے اردو ترجمے پر گزارا کرنا پڑے گا