جماعت اسلامی ، سپاہ صحابہ اور القاعدہ – خرم زکی
کیا آپ کہ پتہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ان کے امیر سراج الحق دیوبندی کی زبان سے ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور طالبان کی مذمت میں کوئی لفظ کیوں نہیں نکلتا ؟ کیوں کہ جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث عقیل ڈاکٹر عثمان ہو، کور کمانڈر کراچی جنرل احسن سلیم حیات پر ہونے والے حملے میں ملوث عتیق الرحمن ہو یا تحریک طالبان اور القاعدہ کے سرغنہ ڈاکٹر ارشد وحید اور اکمل وحید ہوں (جو کور کمانڈر جنرل احسن سلیم حیات پر ہونے والے حملہ کیس میں ہماری نام نہاد عدلیہ سے باعزت بری کر دیئے گئے اور جن کا جماعت اسلامی سکھر سے قدیم اور خاندانی رشتہ ہے) یا پھر نومبر 2013 میں وزیرستان میں ہلاک ہونے والا عبد الرحمان ولد شجاعت حسین ہو (جس کا تعلق کراچی این ای ڈی یونیورسٹی سے تھا) یا پھر جماعت اسلامی راولپنڈی کے احمد عبدالقدوس ہوں جن کے گھر سے دہشتگرد گروہ القاعدہ کا خالد شیخ محمد گرفتار ہوا تھا، یا سابق ہاکی کھلاڑی شاہد علی خان کے گھر سے برآمد ہونے والا القاعدہ کا جیک تھامس ہو جس کو شاہد علی خان کی اہلیہ (جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے) نے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی
یا لاہور کے خواجہ برادران ہوں جن کا تعلق القاعدہ ہی کے یاسر الجزیری سے تھا، ان تمام دہشتگردوں کا تعلق بغیر کسی استثنا کے جماعت اسلامی سے ہے۔ اور یہ تمام افراد قتال کی اسی فکر و فلسفے کے تحت، جس کو منور حسن نے اپنے دور امارت اور اس کے بعد کھلے عام اور ببانگ دہل عام کیا، پاکستانی عوام اور مسلح افواج کے قتل عام میں ملوث ان دہشتگردوں کی پشت پناہی اور خود دہشتگردی کی کاروئیوں میں ملوث ہوتے آئے ہیں۔
دہشتگردی اور تکفیری خوارج سے یہ دیرینہ اور نظریاتی تعلق ہی جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کو دکھانے کے لیئے جماعت اسلامی اور اس کے قائد سراج الحق دیوبندی دہشتگردی کی تو مذمت کرتے ہیں لیکن دہشتگردوں کی نہیں اور کبھی بھی نام لے کر طالبان، انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی یا تحریک طالبان کے خلاف ایک لفظ کہتے نظر نہیں آتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے، جماعت اسلامی ان تکفیری خوارج اور دیوبندی دہشتگردوں کی نظریاتی اور فکری اتحادی بن چکی ہے اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے جماعت اسلامی کے اندر یہ تکفیری خارجی فکر جو مسلمانوں کے قتل عام کو جائز سمجھتی ہے، نفوذ کر چکی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بھی جماعت اسلامی سے اپنے اتحاد اور تعلقات کی نوعیت پر نظر ثانی کرے کیوں کہ عمران خان کے خیالات اور ان کی فکر کے برعکس جماعت اسلامی طالبان، انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی رسمی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں۔