سعادت حسن منٹو – میں کہاں دفن ہوں – عامر حسینی
بهارت میں اندرا گاندهی نے ایمرجنسی لگائی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سمیت کئی ایک بڑے قد کاٹه کے دانشوروں نے اس اقدام کی حمائت کا اعلان کردیا ، جب یہ خبر کیفی اعظمی تک پہنچی جو اس وقت بیمار تهے تو انہوں نے ایک نظم لکهی جو مجهے اب یاد نہیں لیکن اس کا تذکرہ ساجد رشید مرحوم نے اپنے ممبئی سے شایع ہونے والے ادبی رسالے ” نیا ورق ” کے ادارئے میں کیا تها ، جس میں کیفی نے کہیں سے بیلچہ لانے اور زمین کو کهودنے کی بات کرکے کہا تها
میں بهی تو دیکهوں ، میں کہاں دفن ہوں
18 جنوری اردو ادب کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یوم وفات ہے اور اس روز کو محترم وسیم الطاف نے یاد رکها، ایک آرٹیکل انهوں نے ” مس فٹ ” کے نام سے تحریر کیا ہے ، مضمون میں انہوں نےسعادت حسن منٹو کو یادکرنے کے بہانے ایسے فنکاروں کو یاد کیا ہے جن کے فن کی وجہ سے پاکستان نام کی ریاست نے ان کو قبول کرنے سے انکارکردیا اور وہ اس ریاست ملایان میں مس فٹ ہوگئے
کتنی عجیب بات ہے جو نابغہ تهے اپنے ، اپنے فن میں اور جن کے فن کی خبر اور شناسائی دنیا کے اور کونوں میں جہاں ،جہاں ہوئی ان کو هاتهوں هاته لیا گیا اور لوگ ان سے ملنے اور ان کو دیکهنے کے شائق رہے ، ان کے اپنے ملک کے اندر ان کے لئے مس فٹ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تها
وسیم الطاف نے عینی آپا کا زکر کیا کہ سجاد حیدر یلدرم کی یہ اولاد جب پاکستان آئی اور اس نے آگ کا دریا جیسا ناول لکها اور برصغیر پاک و ہند میں کمیونل ایشو ، ہندو مسلم تنازعہ ، سیاسی اسلام ، جاگیرداری ، مذهبی انتہاپسندی اور مسلم زهن اور یہاں بسنے والی دوسری اقوام بارے ریاستی بیانیہ سے ہٹ کر سوچا اور لکها تو یر طرف سے ان پر لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوگیا اور وہ پاکستان نام کی ریاست میں اجنبی بنکر رہ گئیں اور ابهی تو پاکستان کو بنے چند سال ہی ہوئے تهے اور اس وقت ابهی ضیاءالحق بهی جونئیر افسر تها جبکہ مذهبی فاشسٹ خود کش فیکڑیوں کے مالک نہ بنے تهے مگر عینی آپا کو وہ دور بهی اس قدر حبس زدہ لگا کہ وہ واپس لوٹ گئیں اور پهر ساری عمر انہوں نے ہندوستان میں گزاری ، اور دہلی کے ایک فلیٹ میں آرام سے وہ آخری سانس لے گئیں
سجاد ظهیر کا تذکرہ بهی وسیم بهائی نے کیا ،وہ ابهی پاکستان پہنچے بهی نہیں تهے کہ ان کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تهے اور لیاقت علی خان نے ان سمیت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کئی ایک رہنماوں کے خلاف حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے الزام میں بغاوت کا مقدمہ درج کردیا اور جیل میں کئی سال گزارنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہندوستان واپس جایا جائے ، جہاں جواہر لعل نہرو نے شاعروں ، ادیبوں ، فنکاروں کو مکمل آزادی دی اور وہاں پر کم از کم آزادی اظہار کو کسی طرح بهی ریاست اور سماج کے لئے خطرے کا سبب نہیں سمجها جارہا تها ، یہ وہی ہندوستان تها جہاں ہندو فاشزم کے خطرے کا بے تحاشا پروپیگنڈا کرکے مسلمانوں کی بڑی تعداد کے اندر احساس عدم تحفظ پیدا کیا گیا تها اور وہاں فسادات کے بعد سماج پرسکون ہوگیا تها اور ادب ، آرٹ تیزی سے ترقی کررہے تهے اور ایک پاکستان تها جہاں سب سے زیادہ عتاب ہی ادیب ، شاعر ، فنکار اور سیاسی کارکن پر نازل ہورہا تها
کئی ایک ادیب ، شاعر ، دانشور ایسے تهے جن کو لاہور سے عشق تها ، ان میں ساحر لدهیانوی بهی تهے وہ فسادات سے ڈر کر بهی نہیں بهاگے تهے اور یہیں پر ٹک رہے تهے ، انہوں نے اپنے لدهیانے سے بهی فراق برداشت کرلیا تها لیکن سویرا میں ان کی تخلیقات پر ملک دشمنی اور ریاست کی نظریاتی بنیاد کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا تو ساحر کے لئے اس ملک میں رہنا مشکل ہوگیا اور ان کو ہندوستان جانا پڑا اور پهر کبهی وہاں ان کو اپنی آزادی سلب ہوتے محسوس نہ ہوئی
متل پرکاش نے اپنے لاہور کو یاد کرتے ہوئے لکها ہے کہ کیسے وہ جانا نہیں چاہتے تهے مگر ان کو جانا پڑا اور منٹو بهی ممبئی کی نگری کو چهوڑ کر ، اپنے امرتسر سے جدا ہوکر لاہور پہنچے تهے مگر یہ کیا یہاں آتے ہی ان کو اپنے افسانوں پر فحاشی ، بے راہروی اور بے حیائی کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا پهر سے کرنا پڑگیا اور روزی کے لالے پڑگئے ، اس قدر زهنی دباو اور ازیت کا سامنا کرنا پڑا کہ پہلے پاگل خانے پہنچے ، اس کے بعد خون تهوکتے تهوکتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے
وسیم الطاف نے دیوآنند کی هیروئین شہلا رامانی کا تذکرہ کیا ہے اور رفیق غزنوی کا بهی جو یہاں سے کہیں نہ جاسکے اور تنہائی کے عذاب بهگتے مرگئے ، سلامت علی خان کے اسلام آباد میں کرائے کے ایک فلیٹ میں کسمپرسی کے ساته زندگیگزارنے کا ایک منظر وسیم بهائی نے یاد کیا ہےڈاکٹر عبدالسلام کے اٹلی منتقل ہونے کا زکر کرتے ہوئے انہوں نے لکها کہ اگر وہ پاکستان رہتے تو شاید توهین مذهب کا الزام لگاکر ماردئیے جاتے تو مجهے خیال آیا کہ عینی آپا اور سجاد ظہیر نے بروقت فیصلہ کرلیا کہ وہ پاکستان سے ہندوستان منتقل ہوگئے ورنہ محسن نقوی کی طرح کسی سپاہ کے مجاہد کے هاتهوں مارے جاتے
اور جب کسی دباو کے تحت ان کے قاتلوں کو پهانسی دینی پڑتی تو ان قاتلوں کی میت لیجانے والی ایمبولنس پر پهولوں کی پتیاں برسائیں جاتیں ، اچها ہوا صفدر میر ، جوش ملیح آبادی ، سبط حسن جلد مرگئے ورنہ ان کو بهی اجداد کے شیعہ ہونے اور نسلی اعتبار سے شیعہ گهروں سے تعلق رکهنے کی وجہ سے مار دیا جاتا اور حسن عسکری اشرف علی تهانوی کے معتقد ہونے اور مفتی شفیع کے ہاں مستقل حاضری کے باوجود محض نام کی وجہ سے ہی مار ڈالے گئے ہوتے ، ویسے حسن عسکری آج کی دیوبندیت کے کی جنگجویانہ شکل دیکهتے تو شاید ” جدیدیت کی گمراہیاں ” لکهنے پر اظہار ندامت کرتے اور وحدت الوجودی تحریروں کی رینے گینوں کے ہاں سے تشریح کرنے پر ان کے خلاف جامعہ بنوریہ العالمیہ سے فتوی ارتداد آگیا ہوتا اور ان کے افسانے ” پهسلن ” پر ان کو راندہ درگاہ قرار دے دیا جاتا اور جمیل جیسے امرد کردار پر ان کا جو حشر ہوتا اس کا تصور کرتا ہوں تو ان کے جلد مرجانے پر شکر ادا کرتا ہوں ، ویسے انہوں نے ایک معرکہ آلاراء مضمون استعارے کا خوف لکها تها وہ اگر آج زندہ ہوتے تو ملا کا خوف لکهتے اور عصر حاضر میں اس استعارے کی نہ جانے کیسی جهلکیاں دکهاتے
آزادی اظہار اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے جیسے حق تو اس ریاست اور سماج میں کبهی میسر آہی نہیں سکیں گے اور جو ان پر اصرار کرے گا وہ مس فٹ سے آگے زندہ رہنے کا حق بهی کهوبیٹهے گا ، سعادت حسن منٹو کو اس زمانے میں خون تهوکتے ہوئے طبعی موت مرنے کی آزادی تو میسر تهی آج وہ بهی چهن گئی ہے ، جبهی تو وسیم الطاف جیسے نہ جانے کتنے لکهنے والے ہیں جو اپنی آزادی اظہار کے لئے زیادہ تر فیس بک کے خفیہ گروپوں اور قلمی ناموں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ جینے کے حق کو محفوظ رکهیں یا پهر مقدور ہو تو یہ ملک چهوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ، لیکن آزادی اطہار کے لئے جنت سمجهے جانے والے ملکوں میں بهی اب نظریاتی سرحدوں کے محافظ گهس آئے ہیں اور وہاں بهی اپنے اصل نام سے زندگی کو کشید کرنے کے مواقع کم ہوتے جاتے ہیں ، وہاں بهی گهات لگائے قاتل بیٹهے ہیں
ہندوستان میں ایف ایم حسین ، ارون دهتی رائے ، هیرانی (پی کے )اپنی تمام تر تلخ و تند تحریروں ، پوٹریٹ ، فلموں اور لیکچرز کے باوجود زندگی سے محروم نہیں کئے گئے ، ایڈورڈ سعید ، ہاورڈ زن ، اقبال احمد امریکی سماج میں سامراج اور صہیونیت شدید تنقید کے باوجود بهرپور زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے ، جبکہ نوم چومسکی ، ابوالخلیل سمیت کئی ایک صہیونیت و امریکی سامراجیت کے شدید ترین نقاد اور دشمن ابهی تک اپنی پوری دانشوری اور کاسموپولٹن لائف کی جملہ سہولتوں کے ساته زندگی کا لطف لے رہے ہیں اور ان کو کسی مذهبی جنونی کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہاں کسی کو اس کے محض خیالات کی بنا پر وہاں رہنے کے حق سے محروم کردینا ، اس کو تقریر و تحریر سے روک دینا محال ہے ، مذهب پر تنقید کا حق تو ایسا ہے کہ وہاں اس حق کے تحت ٹیری جونز، گیرٹ ویلڈر جیسے پاگلوں اور سلمان رشدی مالیخولیا کے مریضوں کو بهی جینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے اور آزادی اظہار کے اس حق کا معجزہ ہے کہ فرانس میں عیسائیت کے بعد اگر کوئی مذهب تیزی سے پهیل رہا ہے تو وہ اسلام ہے اور ایک اندازے کے مطابق فرانس میں تین ہزار سے زائد مساجد اور 5000 ہزار اسلامک سنٹرز ہیں ، سیکولر اقدار والے معاشروں میں اسلام کی نشونما رکی نہیں اور یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بهی اتنا بڑا سچ ہے جتنا مغرب میں ہے ، پهر یہ بارود اور بندوق کی نراجیت کس لئے ہے