ہم بھی کیا لوگ ہیں – وسعت اللہ خان
یہ تاثر ہرگز درست نہیں ہے کہ تنگ دماغی کے لیے محض حلق سے ع نکالنا یا مسجع مقفع اردو بولنا یا کوئی مخصوص وضع قطع اپنانا ضروری ہے۔ کارپوریٹ دنیا میں کسی خوبرو و چست لباس سیکریٹری کو زبانِ فرنگ میں ڈکٹیشن دینے کا عادی مغربی یونیورسٹی کا تھری پیس آئی ٹی گریجویٹ بھی سرنگی بصارت و بصیرت کا مالک ہوسکتا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے گریجویٹ کارپوریٹ کمپنی کے کنٹری مینیجر میرے یار شعیب نے سکاچ کی بوتل آدھی ختم کی اور پھر ڈائننگ ٹیبل پر آگیا۔ میں نے لابسٹر سامنے رکھا تو بولا یہ مکروہ چیزیں میں نہیں کھاتا۔ ہٹاؤ میرے سامنے سے۔
’جنٹلمین تم سے مل کے خوشی ہوئی۔ اوہ تھینک یو فار یور بزنس کارڈ۔ مرزااااا نصیر احمد۔ ایکسکیوز می آر یو مرزئی؟
نو سر آئی ایم احمدی۔
لاحول ولا قوت۔ مجھے تم سے ہاتھ ملانے سے پہلے پوچھ لینا چاہیے تھا۔ غلطی میری ہے۔ اینی ویز ۔۔بائے۔۔۔
’پچیس اور چھبیس دسمبر کو کرسمس کے موقع پر خاکروب چھٹی پر ہوں گے۔ لہٰذا تمام ملازمین دفتر کی صفائی کا خود خیال رکھیں۔ بحکم آفس سپرینڈینڈنٹ‘۔
دھشت گردی سے نمٹنے کے لیے بلائے گئے کُل جماعتی اجلاس میں وقفہِ نماز کے دوران عمران خان نے بھی مولانا فضل الرحمان کی امامت میں باجماعت نماز پڑھی۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے رحمان اور خان
کوئی ڈیزل کا شبہہ ہے نہ یہودی کا گمان
مگر سلام پھیرنے کے بعد دونوں نے آنکھیں بھی پھیر لیں۔
خصوصی عدالتیں اگلے دو برس مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں سے نمٹیں گی۔ سیاسی و نسلی دہشت گردوں اور ریپسٹ حضرات سے فی الحال معذرت۔
کتنے لوگوں نے کتنے لوگوں کو بتایا ہے کہ آج کعبتہ اللہ اور مسجدِ نبوی کو چھوڑ کے باقی مکہ اور مدینہ فلک بوس پنج ستارہ ہوٹلوں، ٹاپ نوچ مغربی برانڈز کی مقبوضہ شاپنگ مالز، پارکنگ لاٹس، ولاز اور ٹائلٹس کے ابرہی محاصرے میں ہے۔ وہ والا مکہ اور وہ والا مدینہ اب صرف تصاویر، تذکروں اور یاد میں آباد ہے جس کی گلیوں کی خاک آنکھوں کا سرمہ تھی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقدس مزارات اڑانے والی داعش کی مذمت نہ کی جائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کرنے کی یہودی کوششوں کے خلاف عالمِ اسلام یک آواز نہ ہو۔
جانے کیوں داعش کے مظالم پر دل دہل دہل جاتا ہے اور شہرِ امن (مکہ) میں سرِ عام سرکاری تلوار سے ایک مجرمہ کی گرد اڑانے کے انصاف پر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/01/150118_baat_se_baat_rh