محسن نقوی: سر کشیدہ مراسایہ صف اشجار کے بیچ
آج محسن نقوی کی اٹھارویں برسی ہے اور یہ انیس سو چھیانوے کا سال اور 15 جنوری تھی جب محسن نقوی کو ان کی رہائش گاہ کے سامنے دیوبندی تکفیری دھشت گرد تںظیم سپاہ صحابہ پاکستان کے دھشت گردوں نے شہید کردیا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ملک میں شیعہ کمیونٹی کے ذھین دماغوں کو خاموش کرانے کا سلسلہ پوری شدت سے جاری و ساری تھا ،اگرچہ اس وقت کی شیعہ ٹارگٹ کلنگ ہی ہمیں بہت بڑی اور ناقابل یقین لگتی تھی ،لیکن آج تو وہ مرحلہ آج کی شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں تو بہت ہلکی معلوم ہوتی ہے اور اس وقت تو سب اسے شیعہ – سنّی فرقہ پرستانہ دھشت گردی کا نام ہی دیتے تھے ، مگر آج جب دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردی پوری بلوغت کے ساتھ جلوہ گر ہے تو اب ایک بہت بڑے حلقے کے سامنے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ شیعہ – سنّی فرقہ واریت نہیں بلکہ سیدھی سادی دیوبندی تکفیریت کی کارستانی ہے
عجب اتفاق ہے کہ آج ہی میں ملتان گیا ہوا تھا اور ایک دوست سے ملنے مجھے سابقہ ایمرسن کالج اور آج کے گورنمنٹ بوسن روڈ کالج جانے کا اتفاق ہوا اور جب میں اپنے اس دوست سے ملنے مطلوبہ کمرہ میں پہنچا اور سلام و دعا کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا تو اس دوست نے مجھے کہا
پاش ! تم کو معلوم ہے کہ تم کہاں بیٹھو ہو ؟
میں نے کہا نہیں تو
یہ وہ کمرہ ہے جہاں اس طرف ایک ڈیسک پر محسن نقوی بیٹھا کرتا تھا اور آج اسی محسن نقوی کی اٹھارویں برسی ہے ، اس دوست نے کہا
میں نے یہ سنا تو کچھ دیر کے لیے ٹھٹھک سا گیا ، مجھے تو یاد بھی نہیں رہا تھا کہ آج اتنا اہم دن ہے کہ محسن نقوی کا یوم شہادت ہے ، جس کو زاہد تنگ نظر نے کافر جانا تھا لیکن دنیائے ادب اور عاشقان ادب نے اس کو ایک پل کے لیے بھی فراموش نہ کیا اور نہ کبھی الگ کیا
میں سوچ میں پڑگیا کہ محسن نقوی کو آخرکار سپاہ صحابہ پاکستان جیسی دیوبندی تکفیری دھشت گرد تںطیم نے سال کے شروع ہوتے ہی دوسرے ہفتے میں قتل کیوں کیا تھا ؟
محسن نقوی کا قتل اس وقت ہوا تھا جب اس نے اپنے آپ کو محمد و آل محمد کی مدح ، ان کے لیے مرثیہ نگاری ، نوحہ خوانی اور سوز خوانی کے لیے وقف کردیا تھا اور محسن نقوی اور شاعر آل محمد کے ایک ہی معنی ہوگئے تھے اور میں یہ بھی سوچنے لگا تھا کہ آخر کیا ہوا تھا کہ محسن نقوی جو رومان ، عشق مجازی کی واردات اور اس سے جڑے تمام مراحل کی شاعری کیا کرتا تھا اور ہر نوجوان لڑکی اور لڑکے کا دل اس کی شاعری پر مچلنے لگتا تھا اور ہر ایک کی زبان پر اس ہی کے شعر تھے اور ہر ایک اس کے شعروں کو اپنا بیان عشق ، ہجر و فراق و وصال خیال کرتا تھا اور وہ خود بھی رومان بھری اداسی کو اپنے آپ سے دور نہیں کیا کرتا تھا ،وہ کیسے دن رات مدح اہل بیت میں مصروف ہوگیا اور علی و فاطمہ و حسن و حسین شناسی کے اس آسمان کو چھولیا ،جس کو چھونا تو درکنار ،دیکھ لینا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور کروڑوں لوگ اس “شناسی ” کی طرف لپکے لیکن دو ،ایک ہی ہوں گے جن کے حصّے میں اس کو پالینے کی سعادت آئی ہوگی ، محسن ان دو ، ایک شناسوں میں سے ایک ضرور تھے
سچی بات ہے جب محسن نقوی کی شہادت ہوئی تو مجھے ان کی شہادت کے پیچھے کارفرما سبب بارے اسقدر تجسس نہ ہوا تھا اور نہ ہی میں نے سید غلام عباس نقوی کے رومان پرور محسن نقوی بن جانے اور اس سے آگے شاعر آل محمد محسن نقوی بن جانے کے اس کے شعری ارتقاء کے سفر پر اتنا غور بھی نہیں کیا تھا
محسن نقوی نے جن دنوں شاعر آل محمد ہونے کی طرف سفر شروع کیا اور وہ مجالس اور مدح آل بیت کی نشستوں کے لیے وقف ہوکر رہ گئے تو اس وقت محسن نقوی کی شاعری کا جو ڈکشن تھا وہ سب کے ہاں مقبول ہوچکا تھا اور محسن نقوی شہرت کی بلندیوں پر تھے اور شاعری کی اوج ثریا پر جاپہنچے تھے ، بھلا کوئی اس مقام کو آسانی سے ترک کیا کرتا ہے ؟ اور خود کو اس دائرے میں دھکیلتا ہے جہاں جان تو ہتھیلی پر دھری ہی رہتی ہے ، وہاں جھوٹے پاکھنڈی نام نہاد غیر جانبدار سیکولر لبرل نقادوں کی کمی نہیں تھی جو حسین شناسی سے ظہور میں آنے والی شاعری کو زبردستی فرقہ پرستی کے میدان میں دھکیل دینے کے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے تھے مگر محسن نقوی نے ہمہ وقت شاعر آل محمد کے منصب کو اختیار کرلیا تھا اور اس کے حاسدین اور تکفیریوں کے ڈر سے تھر تھر کانپنے والے نام نہاد نقادوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ محسن کو ہوس زر اس میدان میں کھینچ لائی ہے اور ان حاسدین اور کائروں میں خود اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس عہد کے آشوب کو سمجھتے اور پھر اسے ببانگ دھل بیان کرتے
محسن نے حسن شناسی کو جرم بنادئے جانے اور اس سے جڑے تاریخی شعور کو فنا کے گھاٹ اتارے جانے کی منظم دیوبندی تکفیریت کی مہم جب پہچان لیا تو انھوں نےحسین شناسی کو ہی اپنا محور و مرکز بنالیا
علی و فاطمہ ،حسن وحسین الغرض کہ آل محمد شناسی اس کے ہاں بالقوہ تو موجود تھی بس اس کا شہود کامل اس وقت ہونا شروع ہوا جب دشمنان آل محمد کے تاریک گر جھنڈے ہر سو لہرانے لگے اور تکفیریت کی آندھی ہر سمت چلنے لگی اور ایسے میں اکثر شاعروں اور ادیبوں نے اپنے اوپر مصلحتوں اور مداہنت کی چادر ڈال لی اور ہر کسی نے اس تاریکی و تاریک گری کے آگے سرتسلیم خم کرڈالا اور تاریخ بدترین تدلیس و مسخ شدگی کے طوفان کا سامنا کرنے لگی تھی تو ایسے میں محسن کے بالقوہ شعور نے شہود کا روپ اختیار کرنا شروع کردیا اور اس نے پورے سچ کو پوری کمٹمنٹ کے ساتھ بیان کرنا شروع کردیا اور یہ سچ ” آل محمد شناسی ” کے گرد گھومتا تھا اور محسن نقوی نے برملا تکفیری فاشزم کو اپنے فن کے زریعے سے شکست دینے کی ٹھان لی تھی
محسن نقوی کے شعری سفر ارتقاء میں یہ اہم موڑ تھا جس کے سیاسی اور سماجی دونوں تناظر موجود تھے ، وہ تناظر جو دیوبندی وہابی تکفیریت کے بطن سے اٹھنے والی دھشت گردی کو بھی اپنے جلو میں لیکر آیا اور اس نے بہت سی آوازوں کو خاموش کرادیا تھا مگر یہ محسن نقوی کی آواز تھی جو خاموش نہ ہوئی اور اس موقعہ ان کی آواز کی اثر پذیری نے بھی ایوان یزیدیت میں زلزلہ پبا کردیا
محسن نقوی کی آواز کو عام و خاص میں قبول عام ایک مرتبہ پھر ملا اور ان کی شاعری کی نئی جہت کے خلاف دیوبندی تکفیریت نے سب سے زیادہ واویلا کیا اور اپنے خلاف سب سے بڑا خطرہ خیال کیا کیونکہ ” آل محمد شناسی ” کا دوسرا مطلب یزیدیت کی موت ہوا کرتا ہے اور اس موت سے ناکام فرار کی صورت محسن کی شہادت میں دیکھی گئی اور محسن نقوی کو ان کے اپنے خون میں نہلا دیا گیا
محسن نقوی اگرچہ جسمانی طور پر مارڈالے گئے لیکن ان کی روح نے ابتک یہ جہان فانی نہیں چھوڑا ہے ، کیونکہ وہ تاریک گر قوتوں کے اعصاب پر سوار صاف دیکھے جاسکتے ہیں
محسن نقوی کی شہادت سب ادیبوں ، شاعروں کو ایک پیغام دیتی ہے کہ ایک شاعر اپنے زمانے کے آشوب کو اگر رقم نہ کرے اور اس آشوب کی پردہ پوشی کرنے لگے بلکہ حقیقت کو مسخ کرنے لگے تو دربار و سرکار کا شاعر ہی کہلاسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں