ایک قطرہ شرم – از عمار کاظمی
مورخہ آٹھ جنوری دو ہزار پندرہ کو بل آخر عمران خان کا نکاح ہو گيا۔ پشتون روايتوں کے براے نام امين کو زندگی نے دوسرا موقعہ ديا مگر شادی کے لیے لڑکی پھر وہی ويسٹرن سٹائل پسند آی۔ بہر حال دوہرے معيار کی بحث کے علاوہ یہ انکی مرضی کا فيصلہ ہے جس کا ہر کسی کو پورا حق حاصل ہے۔ لہذا وہ اپنے لیے کيا پسند کرتے ہیں اور اپنی زاتی زندگی کيسے جيتے ہیں اس پر تنقيد کا کسی کو کوءی حق نہیں۔ چنانچہ مجھے عمران خان کی شادی پر نہیں معاشرے اور میڈيا کے غير ذمہ دارانہ و منافقانہ معاشرتی رويوں پر بات کرنی ہے۔
سانحہ منہاج القرآن ہو تو گلو بٹ کو تفريح کے طور پر پيش کيا جاتا ہے۔ سانحہ پشاور اور اس کے بعد دہشت گردی کے سنجيدہ ترين مسلہ پر بات ہو رہی ہو تو پاکستان کے نيوز چينلز عمران خان کی شادی کی خوشخبری دينے کی ريس میں لگ جاتے ہیں۔ ويسے دونوں میں سے کس کی یہ پہلی شادی تھی جو یہ سب اتنا جشن کے انداز میں پيش کيا جا رہا تھا؟ دوسری طرف ساٹھ سال کے بڈھے کی زندگی کے آخری پہروں میں اس کے بیڈ روم کی تنہای ختم کرنے والی شادی کے شاديانوں میں میڈيا کی توجہ بھی اس طرف نہیں ہے کہ آجکل سرديوں میں پاکستان کی تاريخ کی بد ترين لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ گزشتہ سات سال کی جمہوری حکومتوں میں ہر روز لوڈ شیڈنگ کی صورحتال سنگين سے سنگين تر ہوتی رہی ہے۔
ڈی پی او کی بيوی کو طلاق دلوا کر بياہ رچانے، نعيم بخاری اور مياں سلھی کے گھر اجاڑنے والے خادمين حرمين شريفين کے خاص مہمانوں اور ياروں کی نواز حکومت لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ کيا اب واپڈا بھی فوج کے حوالے کر ديا جاے گا؟ اس سب پر ہمارے داءیں بازو کے صحافيوں اور دانش وروں کی چپ بھی قابل غور ہے۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ زندگی کے بعض پہلو چھوڑ کر پاکستان کی دائیں بازو کی بنياد پرست مذہبی اشرافیہ امريکنوں جتنی ہی آزاد خيال ہے۔ يعنی آپ ان کے کسی من پسند سياستدان يا مولوی کی زندگی کی رنگينيوں پر بات کرو تو یہ آسانی سے غير مذہبی روشن خيال لوگوں کی دليل سنا ديتے ہیں کہ “یہ ان کی زاتی زندگی ہے”۔ یہ دليل اگر کوی لبرل يا ايتھيسٹ دے تو کچھ بات بھی بنتی ہے مگر وہ لوگ جو ايک طرف مدينہ کی رياست، حدود آرڈيننس اور سنگسار جيسی شرعی سزاوں کی حمايت کرتے ہیں وہ اپنے ان پلے بواے کرداروں کی شاديوں سے پہلے کی رنگينيوں پر یہ غير مذہبی دليل کيسے استعمال کر سکتے ہی؟ کبھی کبھی ايسا محسوس ہوتا ہے
کہ پاکستانی مسلم معاشرے میں گناہ صرف غريب اور خود کو روشن خيال کہلوانے والے کرتے ہیں يا پھر کرپشن کی اکلوتی قسم ميمو گیٹ اور منی لانڈرنگ جيسے اسکينڈلز ہوتے ہیں جن کا تعلق پيپلز پارٹی، ايم کيو ايم اور اے اين پی جيسی غير مذہبی سمجھی جانے والی جماعتوں سے ہوتا ہے۔ يعنی منتخب انصاف اور اکبر کے دين کی طرح بعض صورتوں میں مالی بدعنوانی زنا سے زيادہ بڑا جرم سمجھی جاتی ہے۔ عمران اور ريحام خان کی دوسری دوسری شادی میں عمران يا ريحام خان کا کوی قصور نہیں بلاشبہ یہ ان کی زاتی زندگی اور زاتی فيصلے ہیں۔
اس ساری ايپيسوڈ میں پاکستان کا جاہل میڈيا قصور وار ہے جو سارا دن گوگل سے تصويریں اٹھا اٹھا کر گلی کے کتے کی طرح بغير ڈيمانڈ اور دعوت چلاتا رہا يا پھر وہ لوگ جنھوں نے سانحہ پشاور کا درد صرف حلق سے اوپر محسوس کيا۔ بھای يا ہمارے جيسے ہو جاو يا پھر بات بے بات مذہب کا استعمال چھوڑ دو۔ ورنہ لاہور ٹاون شپ کا وہ بد بخت انسان آپ جيسے لوگوں کی منافقانہ ذہنيت کا ہی معاشرتی عکس تھا جس نے مسجد کی دوسری منزل پر پانچ سال کے بچے کے ساتھ بد فعلی کی، اسکے منہ میں کپڑا ٹھونسا، بچے کو پنکھے کے ساتھ باندھ کر پھانسی دی اور بعد میں نيچے آ کر نماز کی امامت بھی کی اور قرآن بھی پڑھايا۔ کسی نے پوچھا کہ تو نے یہ درندگی کيسے کر لی تو اتنا کہہ کر اپنی طرف سے بات ختم کر دی کہ مجھ میں شيطان آ گيا تھا۔ ابھی تازہ خبروں کے مطابق بتايا جا رہا ہے کہ یہ کام کسی مولوی نے نہیں کيا تھا بلکہ ايک سولہ سال کے حجام نے کيا تھا۔
ويسے مولوی کے اقبالی بيان پر مبنی فوٹيج کے بعد یہ حجام والا قصہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔ بحر حال جہاں تک عمران خان کی شادی کا سوال ہے تو گو یہ انکا زاتی معاملہ ہے مگر خان صاحب نے شادی کے فيصلے میں عجلت کا مظاہرہ کيا۔ سانحہ پشاور اور دھرنے ختم کرنے خان صاحب کے ساتھ اے پی ايس میں جو برتاءو ہوا وہ بالکل درست تھا اور ايسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان کو حالیہ دنوں میں جو مقبوليت نصيب ہوی کے فوری بعد شادی کے اعلان کو عوام کی اکثريت نے نا پسنديدگی کی نگاہ سے ديکھا ہے۔ اب اس کی واپسی کا سفر بغير منزل پاے ہی شروع ہو چکا ہے۔
“دو قدم پر تھی منزل ۔۔ اک قدم پر رحم آ گیی “کاش شہداء کے لواحقين سراج الحق اور سميع الحق، نواز شہباز، فضل الرحمن اورسابقہ فوجی جرنيلوں سميت طالبان کے ديگر اپالوجسٹوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں۔ اگر ان تمام حضرات میں زرا برابر اخلاقی جرات اور ايک قطرہ شرم بھی ہوتی تو یہ برسوں تک طالبان کی غير مشروط حمايت اور اپنے ماضی کے غلط موقف پر عوام سے معافی ضرور مانگتے۔ مگر افسوس ان میں ايک قطرہ شرم بھی نہیں ہے۔