کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اترے؟۔۔از نور درویش
کہاں ہے ارض و سماں کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اترے
“افق کا چہرہ لہو میں تر ہے’ زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے”
پھانسی کی سزا پر سے پابندی ھٹانے کے بعد سے اب تک شیعوں کے قتل عام میں ملوث شاید ھی کسی دہشت گرد کو پھانسی دی گئی ھے لیکن پچھلے دو ہفتوں کے دوران جتنے شیعہ دہشت گردی کا شکار ھو گئے وہ دیکھ کر گمان ھوتا ھے کہ جیسے دہشت گردوں نے پھانسیوں کی سزاوں کا بدلہ شیعوں سے لینے کا فیصلہ کیاھے۔ کل رات راولپنڈی میں امام بارگاہ میں میلاد مصطفیﷺ کے دوران خود کش حملہ میں ۸ شیعہ شہید کر دئے گئے، تعداد مزید بڑھ سکتی تھی اگر ایک مومن جان قربان کرتے ھوئے اس حملہ آور کو امام بارگاہ کے اندر جانے سے نہ روکتا۔ ذمہ داری تحریک طالبان اور احرار الہند نامی تنظیم نے قبول کر لی۔ میرا دل چاہ رھا تھا کہ کسی طرح مولوی فضل الرحمن سے یہ پوچھ سکوں کہ کیا خیال ھے یہ خود کش بمبار کسی مدرسے کا طالب ھو گا یا نہیں؟ اپنے تجربے کی روشنی میں ھمیں جواب دے دیں، کیونکہ تکفیریت کا پرچار کرنے والے دیوبندی مدرسوں کی مانیٹرنگ کے مطالبے پر سب سے زیادہ غصہ انہیں موصوف کو ھوا تھا۔
کراچی میں تین روز قبل دو سگے شیعہ بھائوں کو قتل کر دیا گیا، پشاور میں آج ایک شیعہ ڈاکٹر کو شہید کر دیا گیا، ، کراچی میں جے ڈی سی کی ایمبولینس پر فارنگ کر کے اھلسنت ڈرایئور کو شہید کر دیا گیا، اور کراچی میں ھی آج مختلف علاقوں سے ۳ شیعہ ڈاکٹر قتل کر دیئے گئے۔ ان میں دو ضیعف العمر بھی شامل ھیں۔ سچ پوچھیئے تو یہ تصویر دیکھ کر جیسے میرا دل شدت غم سے پھٹ گیا کہ ایک مسیحا جو شاید خود اپنی زندگی کا آخری دور گذار رھا تھا، اسے کس جرم میں شہید کر دیا گیا؟ لیکن مجھے کسی ٹی وی چینل پر کوئی بھی اینکر یس سوال کا جواب دیتے نظر نہیں آیا۔ ایک ملک میں صرف دس دنوں کے اندر صرف شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ ڈاکٹروں کو شہید کر دیا گیا، اور بے حسی کا عالم یہ ھے کہ پوری قوم باسٹھ سال کے ایک بوڑھے کی شادی پر تبصرے میں مصروف ھے۔،
مجھے تکلیف ھورھی ھےموازنہ کرتے ھوئے بھی کہ دل اب تک اداس ھے سانحہ پشاور کو یاد کر کے لیکن کتنے لوگوں نے ٹھہر کر سوچنے کی بھی زحمت کی کہ نسل کشی کی اس لہر پر بھی غم کا اظہار کرنا اور ان خاندانوں کے بارے میں سوچنا ضروری ھے جنہوں نے اپنے پیارے کھو دیئے، راولپنڈی میں جان سے جانے والے ان لوگوں کیلیئے بھی فیس بک کے پروفائل پکچر بدل لینا چاہیئے جو رحمت اللعالمین ﷺ کے جشن میلاد منا رھے تھے، ، سنا ھے چھ ماہ کے ایک بچے نے اپنا باپ کھو دیا اس دھماکہ میں، بڑا ھو گا تو بتایا جائے گا کہ عید میلاد النبی ﷺ کو دوران اس کا باپ اس سے چھین لیا گیا۔
کل سے لیکر آج تک میں کوشش کرتا رھا کہ میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک اس نسل کشی اور ظلم کے بارے میں دکھ اور الم کی کیفیت تلاش کر سکوں لیکن ایسا محسوس ھوتا ھے جیسے اس ملک میں شیعوں اور اقلیتوں کو قتل کرنا گویا روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکا ھے۔ دن رات عمران خان کی شادی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رھا ھے، ، نیشنل سیکیورٹی پلان پار بحثیں ھو رھی ھیں۔ لگتا ھے شیعوں کو قتل کر دینا نیشنل سیکیورٹی کے دائرے میں آتا ھی نہیں، شاید اسی لیئے کسی ایک بھی دہشت گرد کو پھانسی نہیں دی گئی۔ جب کہ ان تکفیری جماعتوں کے ان رھنماوں پر ھاتھ ڈالنا تو بہت دور کی بات ھے جو شہر در شہر دند دناتے پھرتے ھیں۔