آل سعود کا نیا وکیل اور مہذب جہاد – عامر حسینی

10885388_10205707657439063_854752042129208485_n1505619_10205707659559116_1309960123314932102_n

عقل عیار ہے سو بهیس بدل لیتی ہے ، یہ مصرعہ مجهے خالد القشطینی کے تازہ مقالہ ” من المارکس الی لیوتالستوی ” پڑه کر آیا کیونکہ میں حیران تها کہ آل سعود نواز جریدہ شرق الاوسط کیوں ایک سابق مارکسسٹ ،اوپر سے عراقی اور پهر سابق بعث ازم کے حامی کی تحریریں تزک و احتشام سے شایع کررہاہے اور اس نے کیا چیز ایسی اختراع کی ہے جس کا فائدہ براہ راست آل سعود کے اقتدار کو پہنچ رہا ہے

خالد القشطینی نے اپنے اس مقالہ میں لکها ہے في أيام شبابي، لم يقع شيء ولا أثير موضوع إلا واستشهدت بكارل ماركس. ولكن بعد ما أسفر عن الماركسية من ثورات دامية وحروب ضارية تحولت عن الإيمان بالعنف والثورة الحمراء إلى الإيمان باللاعنف الذي سميته بالجهاد المدني. الجهاد ولكن بوسائل مدنية دون عنف. فرحت أستشهد بالمهاتما غاندي في أي موضوع يثار. وجرني الموضوع إلى رائد آخر من رواد اللاعنف، الكاتب الروسي ليو تولستوي

.
قرأت معظم رواياته ولكن استعصت علي روايته الخالدة «الحرب والسلم». قلما استطاع الكثيرون قراءة هذه الرواية بالكامل، فهي تكاد تبلغ نحو ألف صفحة وتعتبر رابع أطول رواية في الأدب. وبالتالي تتطلب وقتا وتركيزا كثيرا في هذا العصر الذي شح به الوقت. كما يصادف القارئ صعوبات كبيرة في تذكر وتعقب كل هذه الأسماء الروسية الصعبة للشخصيات الكثيرة في الرواية وتشعب الحبكة وتعقدها واستغراق المؤلف في تسويق فلسفته الاجتماعية والسياسية. معظم من حاولوا قراءتها تخلوا عن المحاولة بعد 70 أو 80 صفحة. كنت واحدا منهم. بذلت 4 محاولات لقراءتها وتوقفت.

بيد أن صديقي نجيب المانع قال لي يوما إنه يستطيع أن يحزر ما إذا كان أي شخص يلتقي به قد قرأ كامل هذه الرواية أم لا، بعد ساعة من الحديث معه! كان ذلك تحديا لي. فعقدت العزم على نبذ كل شيء وتكريس وقتي وذهني لقراءة «الحرب والسلم» بالكامل. (وبالمناسبة كرست «بي بي سي» نهارا كاملا قبل أيام لقراءة هذه الرواية بالكامل على الراديو بمناسبة موسم الكريسماس الماضي

).
ما انتهيت في الأخير من تحقيق مهمتي في الانتهاء من قراءة الرواية حتى وجدت نفسي أتخلى عن الاستشهاد بغاندي وأنتقل للاستشهاد بتولستوي في أي موضوع يطرح أمامي.ربما يخطر للقارئ الكريم أن يتساءل، تقضي حياتك تستشهد بماركس وغاندي وتولستوي ولا تستشهد بأي شيء من تراثنا؟ الحقيقة هي أنني كلما حاولت ذلك واستشهدت بشيء من تراثنا وجدت نفسي غارقا في معمعة من الاعتراضات. هذا يتهمني بالطائفية وذاك يتهمني بالتحريف وعدم الصحة وعدم الصدق وعدم الأمانة… و… و، حتى وجدت في الأخير أن من الأسلم لي والأعقل والأحكم أن أبتعد عن التراث، ولا سيما أنه ليس لدينا أي وثائق تحسم الموضوع

.
والآن أجد نفسي أستشهد بما قرأت في «الحرب والسلم» في أي موضوع يثار أمامي. وهو ما جرى لي قبل أيام وأوحى لي بكتابة هذه المقالة. سمعت أحد الأصدقاء يعلق على قيام طائرات التحالف بضرب «داعش». فقال هذه كلها مؤامرة غربية. قلت له: قولك هذا يذكرني بما قرأته في رواية تولستوي. تعرض الفلاحون للمجاعة فأمرت الأميرة ماري بفتح خزائن الحبوب لهم ليأكلوا ويلتحقوا بها لموسكو هربا من زحف نابليون. رفضوا ذلك وقالوا هذه مؤامرة علينا! نفس نظرية المؤامرة. ولكن الفلاحين الروس رفضوا المساعدة على اعتبارها مؤامرة. نحن نتهم الغرب بالمؤامرة ولكن لا نتردد بتلقي المساعدة، بل ونتعارك عليها!

خالد القشطینی نے ایک تو یہ بتایا کہ وہ اپنے ایام جوانی میں ہر معاملے پر کارل مارکس کا حوالہ دیتا تها ،اس کی بات سے اپنے موقف کو مضبوط بنایا کرتاتها لیکن پهر جب مارکس ازم کے بینر تلے آنے والے خونین انقلاب اور بڑے پیمانے پر خون آشامی کی خبر ہوئی تو وہ عدم تشدد کا قائل ہوگیا اور اس طرح سے وہ گاندهی کے فلسفہ عدم تشدد سے خاصا متاثر ہوا اور اس نے یہ بهی بتایا کہ ٹولسٹائی کے ” وار اینڈ پیس ” کو کیسے بار بار پورا پڑهنے کی کوشش کی اور نہ پڑه سکا اور پهر اس کے دوست نجیب کے طنز سے تاو کهاکر اس نے اس ناول کو پورا پڑه ڈالا اور اس ناول میں خالد کو ایک سین یاد ہے کہ جب نپولین کی فوجیں روس پر حملہ آور تهیں تو روسی حاکم نے کسانوں کو غلہ آپس میں شئیر کرنے کو کہا تو کسانوں نے اسے سازش کہہ کرماننے سے انکار کردیا تها
خالد کہتا ہے بالکل ایسا ہی حال عربوں کا ہے جب داعش کے خلاف عالمی اتحاد بنا ہے جس میں قیادت امریکہ کے پاس ہے تو اسے سازش قرار دیا جارہا ہے
خالد القشطینی کہتا ہے کہ اس پر ہمیشہ یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ وہ آخر مغرب سے ہی اور غیر عرب سے استشهاد کیوں کرتا ہے اور اپنے کلچر اور سماج سے حوالے کیوں لیکر نہیں آتا

وہ اس کے جواب میں ایک وجہ تو یہ بتاتا ہے کہ اپنے کلچر اور تاریخ سے استشهاد کرنے پر اس پر فرقہ پرستی ، دهڑے بندی کا الزام لگ سکتا ہے اور دوسری وجہ وہ یہ بتلاتا ہے کہ آج تک عربوں کی تاریخ میں کسی ایک ایشو پر بهی کوئی settled جواب ملتا نہیں ہے اس لیے وہ باہر سے استشهاد ڈهونڈ کر لاتا ہے

خالد کہتا ہے کہ وہ ” سول جہاد ” یعنی مہذب جہاد ” کا قائل گاندهی و ٹولسٹائی کے افکار پڑه کر ہوا ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہوتا 

جب سے داعش نے سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے پیروں تلے زمین سرکائی ہے ان کی وہابیت کا کٹر پن کہیں غائب ہوگیا ہے اور ان کے ہاں سیکولر ، لبرل ، قوم پرست ، خرد افروز دانشوروں سے نفرت پائی جاتی تهی سرے سے غائب ہوگئی ہے اور اب اگر کوئی گاندهی اور ٹولستائی کے راستے اور گاندهی کے اہنسا اور تولستائی کے عدم تشدد کو ” مہذب جہاد ” کی اصطلاح میں ملفوف کرے اور ان کے اقتدار کو بچالے تو ان کو اس کا پروپیگنڈا کرنے اور اس کے اپنے ملکوں میں پهیل جانے پر بهی کوئی اعتراض نہیں ہے

امریکہ کی قیادت میں آل سعود ، آل قحطان تمیمیوں نے عرب قوم پرستی اور عربوں میں اشتراکی خیالات کے بینر تلے اٹهنے والی قومی آزادی و بیداری کی تحریکوں کا راستہ ” قاتلوا فی سبیل اللہ لعلکم تفلحون ” اور ” سبیلنا ،سبیلنا – القتال ، القتال ” کے نعروں سے روکنا چاہا اور پهر ان سب نے پورے عرب خطے میں ” عرب بہاریہ ” کی تحریک کو ” شیعہ کریسنٹ توسیع ” ” فارسیوں کے عربوں پر غلبہ کا منصوبہ قرار دیکر پورے مڈل ایسٹ کو لہو میں نہلادیا اور شام کے بشار الاسد کے اقتدار کو گرانے کے لئے اس خون ریزی کو جنم دیا جس کو خالد نے مارکسزم سے جوڑدیا ہے اور وہ یہ سب لکهتے ہوئے اور شرق الاوسط کا مدیر اسے شایع کرتے ہوئے شاید بهول گیا کہ اس منطق کی زد میں داعش تو آئے گی ہی خود آل سعود اور آل التمیم ، آل الصباح و آل خلیفہ کا بهی کوئی بهلا نہیں ہونے والا

ویسے آل سعود سعودی عوام کو بالخصوص اور عربوں کو بالعموم جس ” مہذب جہاد ” کا سبق گاندهی ، ٹولسٹائی کے حوالوں سے پڑهارہے ہیں وہ سبق اپنے ہاں یاترا کرنے والے محمد احمد لدهیانوی ، اورنگ زیب فاروقی اور قبلہ قاری حنیف جالندهری کو بهی پڑهاتی اور ان کو بتاتی کہ عدم تشدد ، روشن خیالی اور خرد افروزی مہذب جہاد ہے اور یہ بات دلی کے لال قلعہ پر اپنی تنظیم کے جهنڈے گاڑنے کا اعلان کرنے والے “ہندو کا ایک علاج – الجہاد ، الجہاد ” کی گردان کرنے والے حافظ سعید اور مسعود اظہر کو بهی بتلاتے تو کیا بہتر نہ ہوتا

لیکن شاید پاکستان میں “گاندهی اور ٹولسٹائی ” کے عدم تشدد کے فلسفے کی ضرورت ابهی نہیں ہے بلکہ یہاں تو دیوبندی تنظیموں کے اتحاد مجلس علماء اسلام کے جهنڈے تلے جہاد بالسیف و جہاد بالتکفیر کی ضرورت ہے

http://aawsat.com/…/%D9%85%D9%86-%D9%83%D8%A7%D8%B1%D9%84-%…

Comments

comments