طالبان دہشتگردوں کا تعلق دیوبندیوں، وہابیوں، اہل حدیث، جماعت اسلامی سے ہے، مفتی بشیر القادری

2014-12-24-16-37-5112863_L

شیعہ نیوز (پاکستانی خبر رساں ادارہ) مفتی محمد بشیر القادری نورانی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور اس وقت جمعیت علمائے پاکستان کراچی کے جنرل سیکریٹری ہونے کے ساتھ ساتھ علماء رابطہ کونسل کے رکن بھی ہیں۔ آپ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کے ساتھ بھی تنظیمی حوالے سے فعال رہے، آپ گزشتہ 30 سالوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں، خطابت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، آپ کراچی میں قائم دارالعلوم منہاج الفرقان کے بانی بھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ مختلف اہلسنت اداروں کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ آپ 55 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں، عربی، فارسی، سندھی، اردو فاضل ہیں، اسلامیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، آجکل آپ جامع مسجد سبحانی اورنگی ٹاؤن کراچی میں خطیب و پیش امام کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ”شیعہ نیوز“ نے مفتی محمد بشیر القادری نورانی کے ساتھ سانحہ پشاور سمیت مختلف موضوعات پر جامع مسجد سبحانی میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

شیعہ نیوز: قومی سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ سانحہ پشاور جس میں طالبان خوارج دہشتگردوں نے اسکول کے معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، اس واقعہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، جن الفاظ میں بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، خوارج دہشتگردوں نے ان پھولوں، کلیوں کو مسل دیا، لیکن ان معصوم طالبعلموں نے اپنا خون دیکر خوارج دہشتگردوں کو بے نقاب کر دیا، خوارج دہشتگردوں کے چہرے سے اسلام کا لبادہ کھینچ لیا، ہم تو ان معصوم بچوں کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ ان بچوں کو حضرت علی اصغرؑ کا سلام ہو، آپ کو حضرت علی اکبرؑ کا بھی سلام ہو، جنہیں معصوم بچوں کو دہشتگردی و بربریت کا نشانہ بنانے والے خوارج دہشتگردوں کے آباؤ اجداد نے کربلا میں اپنی دہشتگردی و بربریت کا نشانہ بنایا۔ ان خوارج طالبان دہشتگردوں کی اس انسانیت سوز کارروائی سے خود دہشتگردی اور بربریت بھی کانپ اٹھی ہوگی۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے اس ظلم و بربریت کے بارے میں کہ جب یہ خوارج طالبان دہشتگرد ان معصوم بچوں کو گولیاں مار مار کر شہید کر رہے ہونگے تو دوسرا بچہ دیکھ رہا ہوگا، وہ معصوم بچہ کیا سوچ رہا ہوگا، اس پر کیا گزر رہی ہوگی، جبکہ ہمارا دین اسلام تو ایک جانور کو بھی کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنے سے منع کرتا ہے، یہ کہاں کے مسلمان ہیں، یہ مسلمان نہیں ہیں، یہ طالبان خوارج دہشتگرد ہیں، یہ بھارتی ایجنٹ ہیں، یہ امریکی ایجنٹ ہیں، یہ بت پرستوں کے ایجنٹ ہیں، یہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں، ان طالبان خوارج دہشتگردوں کو معصوم بچوں نے اپنے خون کا نذرانہ دیکر بے نقاب کر دیا ہے۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان طالبان خوارد دہشتگردوں کا نام خنزیر رکھا جانا چاہیئے، سرکار دو عالم حضرت محمد (ص) نے تو ان خوارج دہشتگردوں کا نام رکھا ہوا ہے جہنم کے کتے۔

ملکی سلامتی اور بقاء کیلئے ناسور طالبان دہشتگرد پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، انہوں نے اسکول میں معصوم طالبعلموں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے حرام اور غیر انسانی فعل انجام دیا، طالبان دہشتگردوں نے انسانیت کے خون سے ہولی کھیلی ہے، ان کے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، ایسے دہشتگرد کسی بھی قسم کی رعائت کے مستحق نہیں، یہ خوارج ہیں، ان اسلام دشمن منافق خوارج کے بارے میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد (ص) فرما چکے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی، جن کی زبان پر کلمہ ہوگا، اللہ کی طرف دعوت دیں گے، انکی لمبی لمبی داڑھیاں ہونگی، آنکھیں اندر کی طرف دھنسی ہوئی ہونگی، گردنیں موٹی ہونگی، ان کا سب سے بڑا مشن اہل اسلام کو قتل کرنا ہوگا، مسلمانوں کو قتل کرینگے، بت پرستوں سے وہ مدد طلب کرینگے، بت پرستوں کے وہ یار و مددگار ہونگے، صحیح بخاری، صحیح مسلم تمام صحاح ستہ کی کتابوں میں مستند حدیث ہے، سرکار دو عالم (ص) فرماتے ہیں کہ اگر یہ میرے دور میں ہوتے میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دیتا، لہٰذا یہ تمام دہشتگرد عناصر قتل کر دیئے جانے کے مستحق ہیں، ان تمام دہشتگردوں کو قتل کر دینا چاہیئے، ان خوارج دہشتگردوں جو کہ جہنم کے کتے ہیں انکی لمبی لمبی داڑھیوں کو نہیں دیکھنا چاہیئے، انکی نمازوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیئے، بس انکے عمل کی طرف دیکھنا چاہیئے جو کہ اہل اسلام کا قتل عام کرنا ہے، اس سلسلے میں نہ یہ عورتوں کا لحاظ کرتے ہیں، نہ بچوں کا لحاظ کرتے ہیں، نہ یہ بیمار اور بوڑھوں کی تمیز کرتے ہیں، جو کہ اسلامی جنگی اصولوں کے عین خلاف بھی ہے۔ طالبان اسلام کے سنہری اصولوں سے ہی واقف نہیں ہیں، اب چونکہ وہ اسلامی اصولوں سے ہی واقف نہیں ہیں تو ظاہر سی بات ہے وہ سوائے قتل و غارت گری، ظلم، دہشتگردی و بربریت کے اور کیا کریگا، یہ جو چیونٹی جا رہی ہے، اسلام تو ہمیں اس کو بھی مارنے سے منع کرتا ہے، اسے اللہ نے حق دیا ہے زندہ رہنے کا، ہم کون ہوتے ہیں کسی کو اس حق سے محروم کرنے کے۔

شیعہ نیوز: کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں طالبان دہشتگردوں کو شہید جبکہ افواج پاکستان کے افسران و جوانوں کو ہلاک قرار دیتی ہیں، حال ہی میں جماعت اسلامی کے سابق مرکزی امیر منور حسن نے بھی پاکستانی معاشرے میں قتال فی سبیل اللہ کا بیان دیا، کیا کہیں گے ان سب کے حوالے سے؟
مفتی محمد بشیر ا لقادری نورانی: طالبان ایک فکر کا نام ہے، ایک تنظیم کا نام ہے، ایک مسلک کا نام ہے، کونسا مسلک، وہی جس کے بارے میں سرور کائنات میں 1400 سال پہلے ہی بتا چکے ہیں، جس کے حوالے سے حدیث کی روشنی میں ابھی میں نے عرض کیا، آپ نے جماعت اسلامی کے منور حسن کی بات کی، جماعت اسلامی ہو، مکتب دیوبند ہو، طالبان کے تانے بات انہیں سے ملتے ہیں، ان میں سے کوئی ظاہری طور پر طالبان کی حمایت کرتا ہے، کوئی اندرون خانہ حمایت کرتا ہے، ابھی آپ نے مولوی عبدالعزیز کی گفتگو سنی آپ نے، کس طرح معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے طالبان خوارج دہشتگردوں کی حمایت کر رہا ہے، کیا ان معصوم بچوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں، ہمارے ہاں کوئی قانون نہیں ہے، اگر ہوتا تو مولوی عبدالعزیز کو طالبان کی حمایت پر مبنی اس بیان پر تو اسی وقت پھانسی پر چڑھا دیا جاتا کہ تو مذمت بھی نہیں کر سکتا، یہ بھی ثبوت ہے کہ طالبان کے تانے بانے بھی انہیں سے ملتے ہیں، مولوی عبدالعزیز اور ان جیسے دیگر طالبان کے حمایتیوں کو مملکت عزیز پاکستان میں جینے کا رہنے کا حق نہیں ہے۔ انشاءاللہ تمام طالبان خوارج دہشتگرد گرفت میں آئیں گے کیونکہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد، پہلے ہم کتابوں میں کربلا، یزید اور اسکی یزیدیت کے بارے میں پڑھتے تھے، جو لوگ روایتوں، تاریخ کی کتابوں میں پڑھ کر بھی یقین نہیں کر پا رہے ہوتے تھے، حتیٰ کہ جو کربلا کے واقعات پر یقین نہیں بھی کرتے تھے، انہوں بھی پاکستان میں طالبان خوارج دہشتگردوں کے ظلم و بربریت کو دیکھ کر یقین آ گیا کہ ہاں کربلا جیسے واقعات تاریخ میں ہوئے ہیں۔

شیعہ نیوز: جو مذہبی سیاسی جماعتیں اور مدارس طالبان و دیگر خارجی تکفیری دہشتگرد عناصر کی سیاسی و مذہبی سرپرستی کر رہی ہیں، پناہ دے رہے ہیں، ان پر پابندی اور بائیکاٹ کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی: بالکل ان پر پابندی لگنی چاہیئے، انکا بائیکاٹ ہونا چاہیئے، ان طالبان خوارج دہشتگردوں کی حمایت کون کر رہا ہے، یہ کس مسلک تھے تعلق رکھتے ہیں، یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے، ان طالبان خوارج دہشتگردوں کا تعلق دیوبندیوں، وہابیوں، اہل حدیث، جماعت اسلامی سے ہے، یہ بات کھل کر عوام کے سامنے آ چکی ہے، یہ سب عقیدے میں ایک ہیں، عقیدہ ہی اصل چیز ہوتی ہے، نبی مر کر مٹی میں مل گیا (نعوذ باللہ) یہ ان سب کا عقیدہ ہے، نبی کا مزار صنم اکبر ہے، بت ہے، یہ انکا عقیدہ ہے، نبی کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں یہ انکا عقیدہ ہے، سرور کائنات کی شان گھٹانا، آپ کی شان میں گستاخی کرنا، یہ ان کا ہی عقیدہ ہے، آنحضرت کے دور میں انکا نام منافقین تھا، حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا کے دور میں انکا نام خوارج، محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بعد یہ وہابی کہلائے، ہندوستان کی سرزمین پر جب انہوں نے گستاخیوں کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے امام احمد رضا کو پیدا کیا جنہوں نے ان کا ناطقہ بند کیا، تو اس دور میں یہ دیوبندی کہلائے، یہ وہابی دیوبندی انہی کی کوکھ سے طالبان، القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، دعوت والارشاد، سپاہ صحابہ پیدا ہوئیں، انکے پیٹ چاک ہوتے رہے اور دہشتگرد تنظیمیں پیدا ہوتی رہیں، اور ان سب کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں۔ اگر ہمارے اختیار میں ہو تو ہم ایک لمحہ بھی دیر نہ کریں اور ان پر پابندی لگا دیں۔ ہم تو ان سے مذاکرات کے بھی مخالف ہیں، ان طالبان خوارج دہشتگردوں کو جتنی جلدی ہو مسل دیا جائے، ختم کر دیا جائے، اللہ کی زمین کو ان قاتل دہشتگردوں سے جتنی جلدی پاک کر دیا جائے اتنا ہم نقصان سے بچیں گے، جتنی یہ سانسیں لیں گے، ہر ہر سانس میں ہمارا نقصان ہے۔

شیعہ نیوز: آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگرد تنظیموں کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں، جبکہ خود امام کعبہ اور سعودی مفتی اعظم داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کو خوارج دہشتگرد تنظیمیں کہہ کر انکی مخالفت میں بیان دے رہے ہیں، کیا حقیقت ہے؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی: اس سال جب میں سعودیہ گیا تو میں حیران رہ گیا کہ سعودی جو کسی کو سرکار دو عالم کے گنبد کے سامنے کھڑے ہو کر کسی کو دعا نہیں کرنے دیتے، اس سال ہم وہاں صلواة و سلام بھی پڑھ رہے ہیں اور یہ سعودی ہمیں روک نہیں رہے، جو نرم گوشہ جو دیکھنے میں آ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شام، عراق، لیبیا، یمن وغیرہ کو تباہ و برباد کرنے والی تنظیمیں چاہے وہ داعش ہو یا القاعدہ یا دیگر دہشتگرد گروہ اب انہوں نے سعودی عرب کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے، اب خود سعودی عرب کو ان دہشتگرد گروہ سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے، سعودیوں کو پتہ ہے کہ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو پہلے بھی سعودیہ کی مدد کو آیا تھا، اب بھی آئے گا، یہ پاکستان اور بھارت کے مسلمان عاشقان مصطفیٰ ؐ ہیں، تو ان کے ساتھ اب نرم گوشہ اختیار کیا جائے، اس لئے اب داعش کے خلاف بھی سعودیہ کے بیانات آنے لگے، جب کہ سب سے پہلے سعودی عرب نے داعش کی حمایت و مدد کی تھی، دعوت و الارشاد، سپاہ صحابہ کے دفاتر سعودی عرب میں قائم ہیں، ہم دیکھ کر آئے ہیں، پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک ہر جگہ موجود دہشتگرد عناصر کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں، یہ پہلے منافق تھے، پھر خوارج کا روپ دھارا، اب وہابیوں کی شکل میں ہیں، ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، آج اس تاریخ کو طالبان دہشتگرد دہرا رہے ہیں۔ ہماری ایجنسیاں ان دہشتگردوں کے بارے میں سب جانتی ہیں، مگر لگتا ہے کہ ہماری ایجنسیاں مختلف آلہ کاروں کے ہاتھوں میں ہیں، جن کا مفاد ایجنسیوں کو ملکی مفاد سے بڑھ کر عزیز ہے، ہماری ایجنسیاں اچھی طرح واقف ہیں کہ کس دیوبندی وہابی دارلعلوم میں کتنے طالبان بن رہے ہیں، کتنے طالبان ٹریننگ کر رہے ہیں، کس دیوبند دارالعلوم میں کتنا اسلحہ و بارود موجود ہے، یہ سب کہاں سے آتا ہے، کس لئے آتا ہے، کیوں آتاہے، کس کس وہابی دارالعلوم، جماعت اسلامی، سپاہ صحابہ کے دارالعلوم سے یہ نکل کر دہشتگردانہ کارروائیاں کرتے ہیں، ان سب معاملات سے ہماری ایجنسیاں اچھی طرح واقف ہیں، یہ سب عوام بھی جانتی ہے، لیکن کیا کریں ہمارے کرنل، جنرل سب بکاؤ مال ہیں، سب کو ڈالروں سے بھرے لفافے ملتے ہیں۔

شیعہ نیوز: پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے کیا حل پیش کرتے ہیں؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی: پاکستان میں خوارج دہشتگردوں، انکے سیاسی مذہبی سرپرستوں، انکو ٹریننگ دینے والوں سب کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیئے، اس سے زیادہ ضروری ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وہابی فکر، خوارج کی فکر کی جڑ کاٹ دی جائے، اس فکر کا خاتمہ کئے بغیر دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، جب تک یہ وہابی خارجی فکر باقی رہے گی، دہشتگرد پیدا ہوتے رہینگے، پھلتے پھولتے رہینگے، دارالعلوم ہوتے ہیں قرآن و سنت کی تعلیم دینے کیلئے نہ کہ کافر کافر شیعہ کافر کی تعلیم دینے کیلئے، آپ کے کافر کافر شیعہ کافر کہنے سے وہ کافر تھوڑی ہو جاتے ہیں، وہ ختم تھوڑی ہو جائیں گے، یا آپ کے مارنے سے وہ ختم تھوڑی ہو جائیں گے، اگر ان وہابی دارالعلوم کا مقصد اگر مذہب کو پروان چڑھانا ہوتا تو یہ بد مذہبی نہ پھیلاتے، بہرحال دہشتگردوں، انکے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ اس فکر کا بھی خاتمہ ضروری ہے۔

Source:

http://shianews.com.pk/index.php?option=com_k2&view=item&id=12863%3A2014-12-24-16-37-51&Itemid=107

Comments

comments