منافقين کے سوا اسے کوی بھلا نہیں سکتا – عمار کاظمی

10350352_10152866876187435_3217395696193178918_n

دانش ورانہ بد ديانتی میں ہمارے دائیں بازو کے لوگوں کا کوی ثانی نہیں۔ سہيل احمد عرف عزيزی اور جنيد سليم جيسے بہت سے میڈيا پرسنز جو کل تک طالبان اور ديگر مذہبی جنونيوں کو ناراض بچہ کہتے رہے رات انتہای جعلی قسم کے تاثرات کے ساتھ پشاور کے شہيد بچوں کے لیے دکھيا شاعری پڑھ رہے تھے۔ آج بھی طالبان کے حق میں تاولیں تلاش کر رہے ہیں اور محض آگ ٹھنڈی ہونے کے انتظار میں ہیں۔

ان سب احباب سے گزارش ہے خدا کے واسطے ہمارے سامنے ايسی جعلی ايکٹنگ مت کریں ہمارے زخم اور گہرے ہو جاتے ہیں۔ خير ان مسخروں کی تو حيثيت ہی کيا ہے میں تو انصار عباسی، اوريا مقبول جان، ڈاکٹر شاہد مسعود، شاھين صہبای، جاويد چوہدری اور قاسمی صاحب جيسے لوگوں سے بھی ہاتھ جوڑ کر گزارش کروں گا کہ اگلے چند روز تک میڈيا پر اپنی شکلیں مت دکھایں کہ ان کی شکلیں ديکھ کر بچوں کی لاشیں آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔

برا مت مانیے گا مگر مجھے اور شايد مجھ جيسے بہت سے لوگوں کو ان سے بھی گھن آنے لگی ہے۔ یہ سب وہی لوگ ہیں جو مختلف طريقوں سے طالبان کی درندگی کا دفاع اور پاکستانيوں کا  ناراض بھای ثابت کرتے رہے يا ان کے گنہا دوسروں پر ڈال کر انھیں بے گناہ ثابت کرنے کی بھونڈی محترمہ کی شہادت کے بعد پيپلز پارٹی کی حکومت اور خاص طور پر آصف زرداری کے مخالفين جس میں اسٹيبلشمنٹ، تحريک انصاف اور نون ليگ سبھی شامل تھے کی طرف سے جو سوال تواتر کے ساتھ ا رہا وہ یہ تھا کہ “محترمہ کے قتل کا بينيفشری کون تھا؟”

سولہ دسمبر پشاور سانحہ کے بعد وہی لوگ اسے سقوط ڈھاکہ اور ہندوستان کے ساتھ جوڑ رہے ہیں مگر یہ کوی پوچھنے کو تيار نہیں کہ “پشار سانحہ کا بينيفشری کون ہے؟”۔ کسی کو ياد نہیں کہ کراچی، لاہور، فيصل آباد کے کامياب مظاہروں کے بعد اٹھارہ دسمبر کو عمران خان نے پاکستان بند کرنے کی کال دے تھی۔ اور ہر آنے والے دن کے ساتھ حکومت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔

میڈيا کے لفافے لينے والے جعلی صحافيوں میں سے کسی کو یہ جرات نہیں کہ وہ “شہباز شريف کا وہ بيان دہرا سکے کہ طالبان ہم پر حملے نہ کریں وہ ہمارے بھای ہیں”۔ الٹا بے تکے تجزیے پيش کیے جا رہے ہیں کہ اس کا سياسی فاءدہ عمران خان کو ہوگا کہ انھوں نے اس سانحہ کے بعد دھرنا ختم کر کے اتنی بڑی قربانی دی۔ ليکن طالبان کو دفتر کھول کر دينے کی بات کس نے کی تھی، کس نے کہا تھا کہ مزاکرات کے سوا کوی حل نہیں اور کون کہتا تھا کہ ان قبائلیوں کو شکست نہیں دی جا سکتی؟ جی یہ فضل الرحمن، محترم عمران خان، نواز شريف، سميع الحق اور جماعت اسلامی کی سمجھ ہی تھی جو آخر وقت تک طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کے ايکشن کے خلاف رہے۔

اور پھر آخر کار فوج نے ہی آپريشن کرنے کا اردارہ کر ليا۔ فوج کے اس فيصلے سے بھی پہلے آصف زرداری، اے اين پی اور متحدہ ہميشہ سے طالبان ے کے خلاف فوجی آپريشن کے حق میں تھے۔ مگر جنرل کيانی نے پيپلز پارٹی کی حکومت اور آصف زرداری کے مشوروں کو رد کيا۔ لوگوں کو آصف زرداری کی خامياں نظر آتی ہیں مگر خوبيوں پر وہ منافقت کی چادر اوڑھ ليتے ہیں۔ میں خود بھی زرداری صاحب کا نقاد ہوں مگر اس معاملے میں اور آج کی صورتحال اور پشاور واقعہ کے بعد سارا کریڈٹ عمران خان کو نہیں آصف زرداری کو ديتا ہوں۔ زرداری صاحب کے علاوہ جو شکص کسی کریڈٹ کا مستحق ہے وہ الطاف بھای اور اس کی جماعت متحدہ ہے جو پہلے دن سے طالبان کے خلاف بلا خوف و خطر کھڑی ہے۔

کل جو الطاف بھای نے طالبان اور خاص طور پر ان کے لال مسجد والے حمايتيوں کے خلاف جس طريقے سے کھل کر بات کی اس کی مثال پاکستان کی کوءی اور قيادت آج تک پيش نہیں کر سکی۔ اور اگر میں یہاں اے اين پی کے شير جوانوں کی ہمت کی داد نہ دوں تو وہ بھی بے ايمانی ہوگی۔ ان سے بڑھ کر کس نے قربانياں دیں اور کون قربانياں دينے کے باوجود ڈٹا رہا؟ میڈيا میں بیٹھے رائٹ ونگ کے دانشور ہميشہ سے عقل و دانش کے ساتھ بدديانتی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج نواز حکومت کی ڈولتی اور ڈوبتی کشتی کو ديکھتے اس سوچ سے سارا کریڈٹ عمران خان کو دينا چاہ رہے ہیں کہ کہیں عوام طالبان کے حمايتيوں اور مخالفين کی بنياد پر کسی دائیں بازو کی جماعت کی حمايت پر تيار نہ ہو جایں۔ ليکن کيا عوام اندھے، گونگے اور بہرے ہیں؟ کيا لوگوں کو ياد نہیں کہ کون طالبان کی حمايت کرتا رہا؟

کيا یہ اتنی پرانی تاريخ ہے کہ لوگوں کو ہماری روايتی تاريخ کی طرح دھوکہ ديا جا مذہبی دينی جماعتوں میں اگر کوی طالبان کے خلاف کھل کر بولا تو وہ ڈاکٹر طاہرالقادری، صاحب زادہ حامد رضا اور متحدہ مجلس عمل والے تھے۔ اور جب طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کے بڑے بڑے مخالفين کا نام ليا جاے تو کوءی سابقہ سينیٹر فيصل رضا عابدی کی جرات کو کيسے بھول سکتا ہے کہ جس نے اپنی سينیٹ کی سیٹ بھی اسی مقصد کے لیے چھوڑی؟ آصف زرداری کے تمام اندرونی سياسی فيصلوں سے اختلاف کے باوجود میں کہنے پر مجبور ہوں کہ اس سنگين جرم میں وہ نواز اور عمران کی طرح مجرم نہیں ٹھہرے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر طالبان کی حمايت کا سارا بوجھ عمران خان پر ڈال کر منافقت اور سچ سے ڈنڈی مارنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ اس وقت کسی بھی قسم کی ڈنڈی يا فريب اور دھوکہ دھی برداشت نہیں کی جا سکتی۔

بلا شبہ طالبان کی حمايت کے معاملے میں رايونڈ کے شريف عمران خان سے بھی بڑے مجرم ہیں کوششیں کرتے رہ سکے؟ نہیں صاحب یہ سب ابھی کل کی بات ہے۔ منافقين کے سوا کوی اسے بھلا نہیں سکتا۔ جو ايک عرصہ تک وزيرستان آپريشن کو ٹالنے کی کوشش کرتے رہے۔ جنھوں نے ايک عرصہ تک پھانسی پر عملدرامد محض طالبان کی محبت میں روکے رکھا۔ تو آج کی فضا میں اگر کسی کا اتنخاب ہونا ہے تو اس طالبان کی مخالفت اور حمايت کی بنياد پر ہی ہونا ہے۔ فوجی اور سرکاری افسران کی اولادوں کو بھی یہی ياد رکھنا ہوگا کہ کون طالبان کا حمايتی رہا اور کس نے سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو ايک سو ساٹھ سے زاید لوگ اور ايک سو چاليس سے زاید آرمی پبلک سکول کے بچے مارے۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.