اوہ میرے مصروف خدا، اپنی دنیا دیکھ ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔ از نور درویش
ناصر کاظمی مرحوم کی شاعری حسرت، یاس اور دکھ کے اظہار کیلئے مشہور ھے۔ کہا جاتا ھے ان کی شاعری ان دلخراش واقعات کی عکاس ھے جو تقسیم کے بعد تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کے دوران پیش آئے۔ ان کا ایک ایک شعر غم اور اداسی کی ایسی منظر کشی کرتا ھے کہ انسان کچھ لمحوں کیلیئے اپنے آپ کو اسی ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ھے جو تقسیم کے وقت تھا۔
خدا جانے کیا وجہ ھے کہ جب سے پشاور کا دلخراش واقعہ رونما ھوا ھے، ناصر کاظمی مرحوم کا یہ کلام ذہن میں بار بار دستک دیتا محسوس ھو رہا ھے۔ جیسے ان کی روح کہیں بہت دور کھڑی ھم پاکستانیوں کو بتا رھی ھو کہ جس ظلم و بربریت سے مغلوب ھو کر انہوں نے یہ اور دوسرا کلام کہا تھا، غالبا اس سے بڑی قیامت سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کوپشاور میں گذر گئی۔
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سنّاٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گۓ صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سونا جنگل چیخ اُٹھا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گۓ بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
مجھے پورا یقین ھے کہ اگر ناصر کاظمی آج موجود ھوتے تو شاید اپنی پوری شاعری کو اس واقعے سے منسوب کر دیتے۔ شاید وہ معصوم بچوں کے جنازوں کے درمیان کھڑے ھوکر کہتے
نہ پوچھ کس خرابے میں پڑے ھیں
تہہِ ابرِ رواں پیاسے کھڑے ھیں
ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر
چمن میں کس قدر پتے جھڑے ھیں
عجیب کرب اور دکھ کی کیفیت ھے۔ سنا ھے غم اور سانحات قوموں کو متحد کر دیتے ھیں۔ محسوس بھی کچھ ایسا ھی ھوتا ھے کہ پوری قوم ماتم کناں ھے، لیکن پھر بھی دل میں ایک چبھن سی ھے۔ ایک شکوہ ھے ان اس ملک میں موجود داعیانِ تبلیغ دین، اشاعت حق کے نام لیواوں اور جھاد کے علمبرادروں سے۔ خدارا کیوں ماوں کی گود اجاڑنے والوں کا نام لیکر لعنت نہیں کرتے؟ اگر سازش بیرونی طاقتوں کی ھے تو یہ ھی مان لیجے کہ جنہوں نے ذمہ داری قبول کی وہ آپ کے بچے نہیں، مجاہد نہیں بلکہ چند روپوں کے عوض بکنے والے دلال ھیں۔ جو کبھی ایک ملک کیلئے بکے اور کبھی دوسرے کیلیئے۔ اور اگر آپ کو تلکیف نہ پہنچے تو کہنے دیجئے کہ کبھی یہ آپ کے ھی پالے ھوئے مجاہد بھی رھے۔ شاید اسی لیئے ماضی کی قربتیں اج مذمت کی راہ میں حائل ھیں۔
خون نا حق اور وہ بھی معصوم بچوں کا خون کبھی رائگاں نہیں جائے گا۔ ان کی ماوں کی آہیں یقینا عرش بریں کو ھلایئں گی۔ لہذا مت کریں مذمت، نہ لعنت کریں ان درندوں پر ان کی تکفیری سوچ پر۔ ھم انتظار کریں گے کہ کب اس قوم اور ان ماوں کی اجمتاعی لعنت ان درندوں کے ھمدردوں اور حمایتیوں کے اوپر خدا کی بے آواز لاٹھی کی صورت میں برسے گی۔ لیکن یاد رکھیے۔ تاریخ آپ کو ایک بزدل اور منافق کی حیثیت سے یاد کرے گی، جو ظلم کی مذمت ظالم کی مذمت کے بغیر کرتا رھا۔
مولانا طارق جمیل کا سانحہ پشاور پر تعزیتی بیان، طالبان کی مذمت کرنا یاد نہیں رھا۔
اپنے آپ کو تسلی دینے لیئے ناصر کاظمی کا یہ شعر بہتر رھے گا البتہ جن کے لخت جگر نہ رھے، ان کو صبر صرف وہ رحمن و رحیم مولا ھی دے سکتا ھے، جو اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ھے۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر، زندگی پڑی ھےابھی
آخر میں ایک تصویر، جو عکاس ھے اس قوم کی جو اپنے کاندھوں پر اپنے مستقبل کی میت آٹھائے ھوئے ھے۔
Allah aap ko is ajar ata karay aur shuhada kay lawahekeen
ko sabr ata karay WE HAVE LEARNED THAT HOW A PERSON CAN SIT, STAND AND WALK BUT WE MUST LEARN THE WAY TO DO ALL THIS IN A CIVILIZED SOCIETY AND MAY ALLAH HAVE HIS AZAB ON SUCH BLOODY TERRORISTS
Allah islam ko in jaalee mullah kay sharrsay mehfooz rakhay