فیصل آباد میں رانا سنا اللہ کی سرپرستی میں سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کی دہشت گردی – عامر ہاشم

RS

سانحہ فیصل آباد کے حوالے سے بعض صحافی دوستوں سے بات ہوئی، خاص کر ہمارے روزنامہ دنیا فیصل آباد بیورو کےمستعد اور نہایت متحرک سربراہ سے۔ دلچسپ انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ ہر ایک اس پر متفق ہے کہ قاتل بالکل بھی نامعلوم نہیں، فیصل آباد کی سطح پر ہر ایک کو معلوم ہے کہ وہ کون کون لوگ ہیں، پولیس بھی جانتی ہے ،بلکہ پولیس نے انہیں پکڑ بھی لیا تھا، پھر ن لیگی مقامی قیادت کے کہنے پر انہیں چھوڑ دیا گیا، جنہوں نے یہ کہا تھا کہ جب ضرورت ہو گی، ہم انہیں پیش کرا دیں گے۔ چار مختلف جگہوں پر مسلم لیگی کارکنوں نے پہلے سے طے شدہ پلاننگ کے تحت جارحانہ رویہ اپنایا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پسپا کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ایک دوست نے مزید کھل کر تفصیل بتائ، مرکزی نکات یہ ہیں۔

نمبرایک: شوٹر چار ہیں، ان میں دو تین کی تصاویر سامنے آ چکی ہیں، ایک کی تصویر پہلے دن سے ٹی وی اور اخبارات میں چل رہی ہے، اس کا نام نعیم عرف نعیما ہے۔ ایک باریش شوٹر کی تصویر آج کے روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی ہے۔ سیدھی فائرنگ کرنے والے ان چاروں شوٹر کا تعلق مسلم لیگ ن ہی سے ہے۔ ایک صاحب جو سابق کونسلر ہیں، یونین کونسل کی سطح پر متحرک لیگی رہنما ہیں، ان کا نام دانستہ نہیں لکھ رہا۔ یہ تینوں اس کے گن مین، قبضہ کرنے والے یا قبضہ چھڑانے والے کارندے ہیں۔ چوتھا کا تعلق اس کونسلر سے نہیں۔

نمبردو: یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس نے ان کو حراست میں‌لے لیا تھا، مگر مونچھوں والی سرکار نے فون کیا۔ دلچسپ بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ اپنے سیل ہی سے فون کر کے پولیس کو انہیں ڈیرے پر لے آنے کا کہا۔ پھر چھڑوا لیااور کہا کہ ضرورت پڑی تو ہم انہیں پیش کر دیں گے۔ انہی مونچھوں والی سرکار ہی نے پریس کانفرنس کی تھی، جس میں جھوٹ‌اور ڈھٹائی کے نئے ریکارڈ‌قائم کئے تھے۔ اس میں بعض لوگ پیش کئے گئے اور ثابت کیا گیا کہ ان کا تصویروں سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم گزشتہ روز جب دبائو بڑھ گیا تو انہیں گرفتار بھی کرا دیا گیا۔ یاد رہے کہ سرکار ہی نے عمران خان کے فیصل آباد جانے سے ایک دن پہلے یہ بیان جاری کیا تھا کہ اب پہلے والے فیصل آباد سے تحریک انصاف کا سامنا نہیں پڑے گا، بدلا ہوا فیصل آباد ان کا منتظر ہوگا۔ فیصل آباد کو واقعتآ بدلا دیا گیا تھا، یہ ان کی بدقسمتی کہ ’’جوانوں ‘‘نے جوش میں آ کر سیدھی فائرنگ کر دی اور تحریک انصاف کے دو کارکن جاں بحق ہوگئے۔

مزید دلچسپ بات یہ بھی پتہ چلی کہ ان ’’شیر جوانوں ‘‘یا متوالوں نے اپنے موبائل فون سے سیلفی ٹائپ تصاویر بھی کھینچیں اور فوٹیج بھی بنائیں ، جس میں اخباری رپورٹروں والے انداز میں کمنٹڑی کی گئی کہ دیکھو ہم نے ۔۔۔۔۔ گالیاں دے کر پی ٹی آئی کے لوگوں کو بھگا دیا۔ نام لے لے کر کہا گیا کہ فلاں نے یہ کام کر دکھایا۔ آگے سے وہ جوان آتا اور بڑھک مار کر گالی دے کر کہتا کہ ۔۔۔۔ کی ایسی کی تیسی ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ فوٹیج وغیرہ فیس بک کے بعض‌پیجز پر بھی آپ لوڈ کی گئی تھی۔ معلوم نہیں ابھی تک موجود ہے یا ردعمل آنے کے بعد ڈیلیٹ کر دی گئیں۔
بعض حلقے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کچھ ٹھوس ثبوت ایسے ہیں، جو اہم ’’حلقوں ‘‘ نے بھی محفوظ کر لئے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آویں۔

ہمارے ایک محترم کالم نگار نے لکھا کہ قصاص میں بہتری ہے، انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ نجانے کیوں پولیس نامعلوم قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کر رہی؟ مجھے ان دوست اور ایسے لوگوں پر حیرت ہے ، جو واقعتآ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کو قاتلوں کا نہیں پتہ اور کیا ان صاحبان کو علم نہیں کہ اس واقعے میں مسلم لیگ ن ہی ملوث ہے۔ وہی سرکار جو سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں میں سے ایک تھی، اب انہیں اگر فیصل آباد میں اس قسم کا ردعمل پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو پھر مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی عقل کا ماتم کرنا چاہیے۔ لگتا ہے کہ انہیں اپنی سیاسی قبر کھودنے کی بڑی جلدی ہے

Comments

comments