تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک اور نواز لیگی حکومت کا فاشزم – عامر حسینی
فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے دوکارکنوں کی شہادت اور آته سے زیادہ ورکروں کے زخمی ہونے کے واقعات سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ مسلم لیگ نواز نے 12 اکتوبر 1999ء سے لیکر 2008ء تک مشرف آمریت کے دوران کوئی سبق نہیں سیکها اور اس نے پنجاب میں اپنی اپوزیشن کرنے والوں کے لئے سیاست کو آج بهی بہت بڑا جرم تصور کیا ہوا ہے
رانا ثناء اللہ ، عابد شیر ، میاں منان ، طلال چودهری نے فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی لاشیں گرواکر یہ سمجها کہ وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو ڈمپ کردیں گے لیکن اس طرح کی لائن اختیار کرکے انہوں نے پی ٹی آئی کی ایجی ٹیشن کی سیاست کو درپیش کافی مشکلات میں کمی کردی اور فیصل آباد بند کرنے کا ٹاسک پی ٹی آئی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس ٹاکرے نے بطور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قد اور تاثر کو اور طاقتور کردیا ہے اور پنجاب کے اندر مسلم لیگ کی اربن سیاسی پاور کو چیلنج کرنے کی پی ٹی آئی کی یہ کامیابی چهوٹی کامیابی نہیں ہے
مسلم لیگ نواز پی ٹی آئی کے خلاف اسی طرح سے آہنی هاتهوں اور میڈیا ٹرائل کے هتهیار استعمال کررہی ہے جیسے اس نے 88ء سے لیکر 99ء تک پی پی پی اور نواز شریف کے خلاف استعمال کیے تهے لیکن اس وقت فرق یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ساته سپائی ماسٹر اور نادیدہ فرشتے اس طرح نہیں کهڑے جیسے وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف کهڑے تهے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف میڈیا اس طرح سے فلی کنٹرولڈ ہے جیسے یہ پی پی پی کے خلاف تها، آج عوامی شعور کو پراگندہ کرنے کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے میدان میں بازی بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے هاته ہے
ایک اور فرق ماقبل مشرف اور مابعد مشرف دور میں یہ ہے کہ ماقبل مشرف دور میں پاکستان کی بالعموم اور پنجاب کی بالخصوص مڈل کلاس جس کی زیادہ جڑیں صنعتی سرمایہ داری میں تهی زیادہ تر نواز شریف کے ساته تهی اور آج بهی کم از کم یہ صورت حال ہے لیکن اسی دوران سروسز سیکٹر سے وابستہ ایک اور پرت پنجاب میں پروفیشنل مڈل کلاس کے طور پر ابهری اور یہ پرت بجا طور پر آج پی ٹی آئی کے ساته ہے اور سیاست میں تبدیلی کے بارے میں اس کے جو خیالات ہیں اسے اگر کہیں جگہ ملی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے اور پی پی پی میں بلاول بهٹو اس سوچ کے لئے جگہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن ان کو آصف علی زرداری کی پرانی سوچ کی روکاوٹ کا سامنا ہے ، تو پنجاب کے اربن سنٹرز سے ابهرنے والی اس نئی اربن پروفیشنل کلاس نے بهی مسلم لیگ کو چیلنج دیا ہے
مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں اپنے خلاف فضا اس لیے بهی زیادہ ناسازگار لگ رہی ہے کہ اس وقت پنجاب میں کسانوں کی حالت پتلی ہوگئی ہے ، پہلے کسانوں کو پهٹی کی قیمت نہ ملی ، پهر دهان کی فصل پٹی اور اس کے بعد گنے کی فصل پٹ گئی اور اب جب گندم کی کاشت کا وقت قریب ہے تو کهاد اور دیگر مداخل زراعت اس کی کمر توڑ رہے ہیں ، فیصل آباد ، لاہور ، ملتان سمیت پنجاب کے اندر جو انڈسٹری ہے اس کو گیس نہیں مل رہی ، صرف فیصل آباد میں 35 لاکه مزدور بےروزگار ہے اس نے مسلم لیگ نواز کے خلاف جزو وقتی اور کاریگر محنت کش طبقے کے اندر سخت غصہ پیدا کیا ہوا ہے ، گهریلو صارف بهی بجلی کے بلوں میں اضافے اور گیس کی نایابی سے پریشان نظر آتا ہے
سمال و میڈیم مینوفیکچرر بهی مسلم لیگ نواز کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے اور اس وقت ماضی کے برعکس مسلم لیگ نواز کے ساته بڑا مینوفیکچرر اور سرمایہ دار ، بڑے تاجر کهڑے ہیں جبکہ چهوٹا دکاندار جس پر سنی اتحاد کونسل ، پاکستان سنی تحریک جیسی تنظیمیں اثر انداز ہوتی ہیں بٹ گیا ہے اور اسی وجہ سے مسلم لیگ کو پی پی پی کے خلاف جو حلقے حمایت کے لئے دستیاب تهے ان میں بہت سے حلقے تو از کے مدمقابل ہیں
پی پی پی کے خلاف میاں نواز شریف ملاوں کو متحد کرکے لے آتے تهے خاص طور پر بریلوی مولوی اور پیر ان کے اردگرد اکٹهے ہوجایا کرتے تهے لیکن اس مرتبہ پی ٹی آئی کو جہاں بریلوی ماڈرن ریفارمسٹ پاور کی حامل پاکستان عوامی تحریک کی حمائت حاصل ہے وہیں اسے بریلوی آرتهوڈوکس تنظیموں کے اتحاد سنی اتحاد کونسل اور یہاں تک کہ بریلویوں کی سخت گیر تنظیم پاکستان سنی تحریک کی حمایت بهی حاصل ہے جبکہ میاں نواز شریف اس مرتبہ لاہور سے جامعہ نعمیہ اور حزب الاحناف اور جامعہ نظامیہ جیسے اہم بریلوی مدرسوں سے بهی حمائت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور شیعہ آرتهوڈوکس تو ان سے فاصلہ پہلے ہی رکهے ہوئے ہے ، جبکہ اس دوران میاں نواز شریف جے یوآئی ، سپاہ صحابہ کی حمائت لے پائے جس کا ان کو پنجاب میں فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہی ہوا ہے اور مسلم لیگ نواز پر صوفی سنیوں ، شیعہ ، کرسچن ، احمدیوں کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والی تنظیموں کی سرپرستی کا الزام لگا ہے اور آج پنجاب میں ان کے بریلوی ووٹ بینک میں خاصی کمی دیکهنے کو ملی ہے تو یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں مسلم لیگ نواز کو ایک طرح سے تنہائی کا سامنا ہے اور پنجاب کے اربن سنٹرز بهی اس کے هاته سے پهسلتے دکهائی دے رہے ہیں اور ریاست کے اداروں کے اندر بهی جو غیر منتخب هئیت مقتدرہ کے ادارے ہیں وہاں بهی نون لیگ کی حالت پتلی ہے اور اس کی اندر سے حالت بہت بری ہے
میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ مسلم لیگ نواز کا پنجاب میں آخری دور حکومت ہے اور اس کے تاش کے پتوں کی طرح بکهرنے کا وقت بہت قریب آن پہنچا ہے اور پاکستان کے اندر سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی نمائیندہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے اور پی پی پی کو اگر سنٹر لیفٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے ٹائٹل کو اپنے پاس رکهنا ہے تو اسے پنجاب کی سیاست کی حرکیات کے مطابق اپنی سیاست کو ڈهالنا ہوگا اور یہ کم از کم نواز لیگ سے مفاہمت اور اپوزیشن کی اہوزیشن نہیں ہونی چاہئیے جس نے پی پی پی کو سمندر سے ندی بنادیا ہے-