شاتم النسا جنید جمشید اور دیوبندی ملاؤں کی منافقت – از مایرہ علی
دو یا تین دن پہلے جنید جمشید کے حوالے سے ایک پوسٹ کی تھی، جس پر احباب نے کافی بحث کی. یہ معاملہ مزید خطرناک نوعیت اختیار کر گیا ہے. ویڈیو میں جنید جمشید کسی ماہر فنکار کی طرح حضرت عائشہ کی نقالی کرتے ہوئے پائے گئے تھے، نیز کہانی کا سبق یوں تھا کہ “عورت تو نبی کی صحبت میں بھی ٹھیک نہیں ہوسکتی”۔
ایک عورت ہونے کے ناتے جہاں تک میرا نقطۂ نظر ہے یہ ویڈیو توہین صحابہ پر مبنی ہو نہ ہو توہین عورت کی مرتکب ضرور ہوئی ہے۔۔۔ کاش میرے پاس کوئی ایسی عدالت ہوتی جہاں ایسے شاتم النساء لوگوں کو سزا دی جاتی۔۔۔ ابھی تک پاکستان اس حالت کو نہیں پہنچا کہ عورتوں کے خلاف توہین آمیز رویہ کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔۔۔ یہ سوال اپنے آپ سے ضرور کیجیے گا کہ آخر یہ الفاظ محض حضرت عائشہ کی ذات پر بولے جائیں تو ہی گستاخانہ کیوں۔۔ اس ویڈیو میں جنید جمشید اگر حضرت عائشہ کا نام حذف کر دیتے تو اس پر سبحان اللہ کہ کر شیئر کیا جا رہا ہوتا۔ یہاں پر میں اپنے مومن بھاییوں سے سوال کرنا چاہونگی کہ ان کے عقیدے کے مطابق کیا عورت خدا کی تخلیق نہیں ہے؟؟ کیا خدا کی تخلیق میں خامی رہ گئی ہے؟؟
اب ایسے موضوع پر کیا بات کرنی جس پر امت کا اجماع ہوچکا ہو سو آتی ہوں واقعے پر۔۔ ویڈیو چند دن تو سوشل میڈیا پر گھومتی پھرتی رہی مگر کل تک یہ طوفان بن گئی۔۔ بات یہاں تک پہنچی کہ جنید جمشید کے سر پرست مولانا طارق جمیل صاحب کو ان کے سر سے ہاتھ اٹھانا پر گیا اور وہ جو کل تک جنید جمشید کو کولمبس کی مانند اپنی دریافت امریکا کے طور پر پیش کر رہے تھے اور سوائے حاجات ضروریہ کے خانہ جات کے ہر جگہ ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا مرغوب سمجھتے تھے وہی آج اس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے تھے۔ ساتھ ہی مولانا نے جنید جمشید کو کمال خوبی سے بچنے کا نسخہ بھی فراہم کر دیا کہ ایک ویڈیو جاری کر دو توبہ اور معافی کی تو بخشے جاؤ گے۔ اس کے اگر منافقت کا اصل چہرہ دیکھنا ہوتو “”مولانا مفتی نعیم “” کو دیکھئے، کیا کمال ڈھٹائی سے وہ لوگوں سے مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جب جنید نے مافی مانگ لی تو کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ اب اس کے معاملے میں کچھ کہے. شرم تم کو مگر آتی نہیں.اب مفتی صاحب سے کوئی پوچھے کہ حضرت کیا آسیہ بی بی کے لیے بھی یہی نسخہ قابل قبول ہوگا یا اس کا پیٹنٹ لمبی داڑھیوں والوں کے لیے ہے؟
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں پر ہر گلی، ہر موڑ پر ایک نہیں کی جنونی اور وحشی کھڑے ہیں، یہاں غریب مسیحی محض الزام پر اپنے گاؤں اور محلے کو جلتا ہوا دیکھتے ہیں، ماؤں کو جیل میں برسوں سولی کے انتظار میں سڑتا دیکھتے ہیں، برسوں کے کاروبار احمدیوں کے منٹوں میں فنا ہوجاتے ہیں مگر میٹھے پان والے مولانا حضرات ہوں یا اسلام آباد میں قرآن جلا کر مسجد میں رکھنے والا ملّا، یا لال مسجد کا مولانا جو ٹی وی پر کہ دے کہ آنحضرتؐ کوئی قانون بنانے کے مجاز نہیں (قطع نظر اس کے کہ یہ گستاخی ہے کہ نہیں، کیا ایسا بیان کوئی احمدی ٹی وی پر دے کر بچ سکتا تھا یا کوئی بغیر اسلحہ سے لیس مولوی؟) کہ کر صاف بچ جاتے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر چہار جانب سے یہ موضوع آج لوگوں کے ‘سٹیٹسز ‘ کی زینت بنا ہوا ہے۔۔ سوشل میڈیا آج کی جدید قصہ گوئی اور محافل کا نمونہ ہے۔ اگر یوں کہ لیجیے کہ قصہ گوئی، مجمع لگانا، محافل لوٹنا وغیرہ ختم نہیں ہوئے بلکہ اپنے عروج کو پہنچ گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سو آج ہر جگہ ہر فارم پر لوگ مجمع لگائے بیٹھے ہیں، اور مختلف بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ منافقت کہئے یا سادگی، جنید جمشید کی معافی کی اپیل پر کہیں لوگ خوش ہیں اور ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں اور لوگ کہ رہے ہیں کہ بخش دو جب سچے دل سے توبہ کر لی ہے تو دوسری طرف یہ سوال زور شور سے اٹھایا جا رہا ہے کہ اب مولوی صاحب کو اسی دوا کا مزہ چکھنا چاہیے جس کی تجویز وہ دوسروں کے لیے کیا کرتے تھے۔ یعنی “سر تن سے جدا”۔
اب یہ بات اب حتمی ہوگئی ہے کہ مذہبی ٹھیکیداروں اور خدائی فوجداروں، جنہوں نے اس معاشرے کو وحشیانہ طرز زندگی کا نمونہ بنا ڈالا ہے، پاکستانی معاشرہ جہاں فرقہ وارانہ نفرت کی بھینٹ چڑھ کر ہوش کھو بیٹھا ہے وہیں اس کا اثر عمومی طور پر ان لوگوں پر بھی ہوا ہے جو عام طور پر انسانی آزادیوں کی قدر کرتے ہیں اور سیکولر شمار ہوتے ہیں۔ دراصل نفرت کی بیماری انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لیتی ہے۔
ایسے سٹیٹس اور مہم کہ اگر سلمان تاثیر کو شہید کر دیا گیا ہے تو اب جنید جمشید کا گلا بھی کٹنا چاہیے کتنی ہی انصاف پسند اور خوش کن کیوں نہ معلوم ہوتی ہو مگر ہے اتنی ہی بھیانک اور خطرناک جو معاشرے میں نفرت کی دیواریں مزید مضبوط کرے گی۔ یہ وقت ہے ہوشمند طریقے سے لوگوں کے ضمیر کو جگانے کا نہ کہ اس قانون پر انہیں مزید ضدی کرنے کا۔ آج ہمیں لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ جو نسخہ جنید جمشید کے لیے صحیح ہے وہی آسیہ بی بی کے لیے بھی صحیح ہے جبکہ آسیہ بی بی نے تو کیمرے پر اقرار بھی نہیں کیا کہ ان سے ایسا جرم سر زد ہوا ہے۔۔ یہ وقت ان کی سوئی ہوئی دم کو جگانے کا ہے!
i agree with the writer