بلوچستان : غیر اعلانیہ ہجرتوں کا سلسلہ کب رکے گا – عامر حسینی
یہ بازار کراچی کے قریب بلوچستان کے معروف شہر حب میں واقع ہے اور یہاں پر ایک چھوٹی سی دکان پر ایک صاحب انڈے اور بیکری کا دیگر سامان فروخت کررہے تھے اور اس کی دکان پر اس وقت ایک دو گاہگ کھڑے تھے جب میں اس بازار میں اس صاحب کی دکان سے چند قدم کے فاصلے پر تھا ،گاہگوں کو نمٹا کر اس نے اپنی کرسی کے پاس پڑی ہوئی ایک چھوٹی سی میز پر سے ایک دبیز سی کتاب اٹھاکر پڑھنا شروع کردی اور جب میں اور قریب ہوا تھا اس کتاب کا ٹائٹل مجھے نظر آگیا ” ریموٹلی کالونیل بلوچستان ” ، میں حیران تو ہرگز نہیں ہوا ، کیونکہ بلوچستان کے اندر کتب بینی اور اور تاریخ سے دلچسپی تو ہر ایک نوجوان کے اندر پائی جاتی ہے ،تو میں اس دکان پر جاکر کھڑا ہوگیا اور میں نے ویسے ہی اس آدمی سے بات چیت شروع کردی
جب میں نے اس آدمی کو بتایا کہ میں سرائیکی بیلٹ سے ملتان ریجن سے آیا ہوں تو اس آدمی نے مجھے کرسی پیش کی اور بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور پوچھا کہ میں اتنی دور سے حب کیا کرنے آیا ہوں
میں نے اسے بتایا کہ مجھے اپنی نیوز ایجنسی کے لیے بلوچستان کے اندر سے ہونے والی داخلی مہاجرت پر کام کرنا ہے تو وہ کہنے لگا کہ یہ کافی خطرناک کام ثابت ہوسکتا ہے اور میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کافی پڑھے لکھے لگتے ہیں تو یہ انڈوں کی دکان یہاں حب میں کیوں چلارہے ہیں وہ یہ سنکر کہنے لگا کہ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے ، میں نے کہا کہ وہ لمبی داستان میں ضرور سننا چاہوں گا
اس آدمی نے مجھے اپنی داستان سنانی شروع کی میں خضدار شہر سے تعلق رکھتا ہوں ، ریاض میرا نام ہے اور مینگل قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں ، میں ابتداء سے ہی صحافت میں دلچسپی رکھتا تھا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں رپورٹنگ کے شعبے آگیا اور بطور رپورٹر میں نے تحقیقی صحافت کو اپنا شعار بنالیا صحافت بلوچستان میں کبھی بھی پھولوں کی سیج تو رہی نہیں لیکن مشرف دور میں یہ اور مشکل ہوگئی ، خضدار میں مشرف کے زمانے میں نصیر مینگل اور شفیق مینگل مشرف کے ساتھ مل گئے اور انھوں نے اپنے حریف عطاء اللہ مینگل اور اختر مینگل کو نیچا دکهانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مشرف کو خوش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور شفیق مینگل نے اس دوران عطاء اللہ مینگل اور اختر مینگل کی قوم پرستی ، سیکولر نظریات پر تنقید کے لئے خود کو الٹرا رائٹ روپ میں ڈهالا اور پهر شفیق مینگل نے خود کو دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی کے ساته بهی وابستہ کرلیا اور دیکهتے دیکهتے مسلح دفاع وطن تنظیم وجود میں آگئی اور اس نے نہ صرف قوم پرست بلوچ سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا بلکہ اس نے قوم پرست ، سیکولر ، لبرل ، لیفٹ نظریات کے حامل طلباء ، ڈاکٹرز ، تاجر ، صحافیوں اور زکری فرقہ کے لوگوں کو بهی نشانہ بنانا شروع کردیا
میرا بهائی سراج مینگل جو مجه سے چهوٹا تها اس نے توتک میں اجتماعی قبر کی دریافت کی خبر فائل کی تهی اور یہ خبر خضدار سے شایع ہونے والے ایک اردو اخبار میں شایع ہوئی اور ایک شام جب وہ اپنے گهر واپس آرها تها تو اسے قتل کردیا گیا اور اس سے پہلے میرے بیٹے اور اس کے ایک دوست کو اغواء کرکے مار دیا گیا اور مجهے سخت ترین دباو کی وجہ سے خضدار چهوڑ کر حب آنا پڑا
اور جب میرا بهائی قتل ہوا تو مجهے اس کو خضدار میں دفن کرنے کے لئے بهی اجازت نہیں دی گئی اور مجهے اس کو لاڑکانہ سنده میں دفن کرنا پڑا خضدار سے ہی مجهے اغواء کیا گیا تها اور پهر کئی ہفتوں بعد میں بہت مشکل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تها اور اس دوران فون پر دهمکیوں اور زهنی ازیتیں دینے کا سلسلہ الگ تها ریاض مینگل جوکہ خضدار پریس کلب کا صدر بهی بنا وہ بتارہا تها کہ کیسے ایف سی ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حمائت اور سرپرستی میں شفیق مینگل کی مسلح دفاع وطن تنظیم نے ایک خوفناک قسم کی کلنگ مشین کی صورت اختیار کرلی اور نوجوان بلوچوں کا اغوا شروع ہوگیا
اس کے ساته ساته خضدار میں جو آزادی پسند بلوچ گروپ تهے ان میں سے بهی بعض نے عام سویلین کو محض شک کی بنا پر مارنا شروع کردیا ، خضدار پریس کلب که یکے بعد دیگرے کئی ایک صحافی مارے گئے اور مجه سمیت دو پریس کلب کے سابق صدور پیشہ صحافت سے الگ ہوگئے میں کراچی سے حب کے راستے سے ہوتا ہوا کوئٹہ اور پهر کوئٹہ سے آگے زمینی راستے سے سفر کرتا ہوا پنجاب ڈیرہ غازی خان کے راستے سے داخل ہوا اور اس دوران میں نے ایرانی سرحد سے ملنے والے علاقے کیچ کا دورہ بهی کیا اور شاید کیچ کا دورہ میں نے انتہائی رسک لیکر کیا تها ، یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر جند اللہ ، جیش العدل ، الفرقان ، لشکر جهنگوی ،اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ کے نام سے کافی تنظیمیں سرگرم ہیں اور یہاں پر عمر ایرانی کا نام سننے کو ملتا ہے اور یہ بهی حقیقت ہے کہ یہ دیوبندی تکفیری گروہ ایف سی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کمپنی میں دیکهے جاسکتے ہیں
ایک بات تو طے ہے کہ ایف سی ، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بلوچستان میں آزادی پسند تحریک کے کارکنوں ، طالب علموں ، صحافیوں ، دانشوروں ، ادیبوں اور عام لوگوں کو مذهبی فرقہ پرست فاشسٹ تنظیموں کے زریعے سے نشانہ بنانے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اور مسلح دفاع وطن ، اہلسنت والجماعت ، لشکر جهنگوی ، جنداللہ ، جیش العدل ، الفرقان سب کی سب تنظیمیں بلوچستان میں ملڑی اسٹبلشمنٹ کی پراکسی ہیں اور زکری فرقے پر ہونے والے حملوں کے بارے میں ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ ان پر ہونے والے حملوں کی وجہ بهی اس فرقے کے اکثر لوگوں کی آزادی پسند تحریک کے ساته ہمدردیاں اور کئی ایک بلوچ سرمچاروں کا زکری فرقہ سے ہے
خضدار ، تربت ، آواران ، مشکے ، کیچ سمیت بلوچستان کے بہت سے علاقوں سے بلوچ بہت بڑی تعداد میں اپنے گهر بار ، کاروبار چهوڑ گئے ہیں اور ہجرت کرگئے ہیں اور بہت کم خاندان وہاں پر رہ گئے ہیں اور مقامی بلوچ آبادی ایف سی اور سرمچاروں کی باہمی جهڑپوں میں سینڈوچ بنکر رہ گئی ہے
داخلی طور پر مہاجر ہوجانے والے خاندانوں کی تعداد میں اضافہ اور ان .کی مشکلات بارے کوئی ٹهیک سے اندازہ نہیں لگاسکتا کیونکہ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا تو ایک طرح سے اس ایشو کا بلیک آوٹ کئے ہوئے اور اس میں کچه صحافیوں کے عدم تحفظ کا بهی بڑا دخل ہے ، پهر بلوچستان میں میڈیا کی رسائی بهی ایک ایشو ہے ، اور یہ سفر مجهے بتاگیا تها کہ بلوچستان کے وہ علاقے جہاں آزادی پسند گوریلے مضبوط ہیں وہاں جاکر حقیقت کی تلاش کرنا خطرات سے کهیلنے کے مترادف ہے
انسانی حقوق کمیشن کی چئیرپرسن یوسف زهرہ کا ایک انٹرویو میری نظر سے گزرا جس میں وہ مسلح دفاع وطن تنظیم ، اہلسنت والجماعت ، لشکر جهنگوی کا صاف صاف نام لیکر کہتی ہیں کہ وہ زیادہ تر بلوچوں کے اغوا ، ان کو مارنے اور ویرانوں میں پهینک دینے کے زمہ دار ہیں جبکہ بلوچستان سے داخلی ہجرت کی زمہ داری وہ وہ ریاستی اداروں اور بلوچ گوریلوں اور مذهبی دہشت گردوں دونوں پر ڈالتی ہیں
مجهے یہ سب باتیں اس لیے یہاں لکهنا پڑی ہیں کہ حال ہی میں هیرالڈ نے ایک خصوصی نیوز سٹوری بلوچ مسلح مزاحمت کے بارے میں شایع کی اور اس حوالے سے بلوچستان میں مسلح دفاع وطن ، اہلسنت والجماعت ، لشکر جهنگوی ، جنداللہ ، جیش عدل جیسی تنظیموں کے ابهار کی زمہ داری بالواسطہ طور پر بلوچ آزادی پسند گوریلا تنظیموں پر ڈالنے کی کوشش کی میں سمجهتا ہوں کہ یہ بلوچ گوریلا تنظیموں سے ناانصافی ہے اور خاص طور پر ڈاکٹر اللہ نذر کے گروپ سے جس نے بہت کهل کر عمر ایرانی کے گروپ کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا اور اسے اپنے علاقے میں کافی نقصان بهی پہنچایا
بلوچستان میں دیوبندی تکفیری مسلح ٹولوں کو ایف سی اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کررہی ہے اور یہ ایک کهلا سچ ہے جبکہ یہ بهی سچ ہے کہ بلوچ قوم پرست حلقوں میں اب ایک ایسے عنصر کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو بلوچ تحریک مزاحمت کو بلوچ دیوبندی مسلح تحریک مزاحمت کے طور پر چلانا چاہتا ہے اور یہ تحریک وہ ایرانی و پاکستانی بلوچ علاقوں میں مشترکہ طور پر منظم کرنے کا خواہاں ہے اگرچہ ابهی تک اس کی ٹهوس شکل سامنے نہیں آسکی
لیکن یہاں یہ بهی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ملٹری اسٹبلشمنٹ نے کیا اپنے افغان و کشمیر جہادی پراکسی اور اس سے پہلے بنگالی مخالف جہادی پراکسی کے انتہائی تباہ کن اثرات سے کوئی سبق نہیں سیکها جو وہ بلوچ دیوبندی تکفیری دہشت گرد پراکسی کو پال رہی ہے
؟
نیشنل پارٹی بلوچستان جوکہ اس وقت بلوچستان کی حکمران جماعت ہے کے چیف منسٹر ڈاکٹر مالک ، سینٹر حاصل بزنجو ،اور بلیدی سمیت کئی ایک رہنماوں سے میری جو بات چیت ہوئی اس سے صاف پتہ چلتا تها کہ ان کو ایف سی اور ایجنسیوں کے اس دیوبندی تکفیری دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلقات کا علم ہے لیکن اقتدار کی بیڑیاں ، اختر مینگل سے ان کی سیاسی رقابت ان کو سچ بولنے سے روک رہی ہے ،ہاں نیشنل پارٹی کے گراس روٹ لیول کے کارکن اور ہمدرد دانشور ، صحافی ، طالب علم کسی لگی لپٹی رکهے بغیر اصل حقیقت سے پردہ ضرور اٹهاتے ہیں
میں نے غریب سرائیکیوں اور پنجابی مزدورں کے قتل اور غیر حارب شہریوں پر بلوچ گوریلوں کے حملوں پر بهی بات کی ، سچی بات یہ ہے کہ بلوچ آزادی پسندوں کا حامی دانشور ، صحافتی ، سیاسی حلقہ اس ایشو پر ڈنڈی ضرور مارتا ہے جیسے پنجاب کے اندر حلقے بلوچ ایشو پر مارتے ہیں
یہاں تک کہ ماما قدیر نے تو پچهلے دنوں سرائیکی آته فارم مزدوروں کے قتل کو جائز اور ان مزدوروں کو پاکستانی ریاستی سیکورٹی کے اداروں کے جاسوس قرار دے ڈالا اور جب میں نے ثبوت مانگا تو کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں تها
ماما قدیر نے یہ کہا کہ ملتان سے آگے کسی نے ان کی پذیرائی نہیں کی تو میں نے ان کو یاد دلایا کہ یہ خانیوال کی ڈسڑکٹ بار ، ڈسٹرکٹ پریس کلب ، ٹریڈر چیمبرز ، پی ایس ایف ، انقلابی سوشلسٹ ، پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگ تهے جو ان کو خانیوال ضلع کی سرحد سے ساهیوال ضلع کی حدود تک رخصت کرکے آئے اور وہاں ساهیوال ضلع میں بهی ان کو اسی طرح سے بار ، پریس ، پی پی پی ، ورکرز پارٹی اور پی ایس ایف کے لوگوں نے استقبالیہ دیا اور اوکاڑا سے مزارعین کے نمائیندے ان کے ساته شریک ہوئے اور پهر لاہور میں بهی لیفٹ ورکرز ،صحافی ، انسانی حقوق کے ورکرز ، وکلاء نمائیندے ان کے ساته اظہار یک جہتی کے لئے آئے تو مجهے لگتا ہے کہ خود بلوچ قوم پرستوں میں ایسا شاونسٹ رجحان موجود ہے جو ہر ایک اس آدمی کو مجرم بناتا ہے جس کے پاس پنجاب کے اضلاع کا ڈومی سائل ہے ،یہ وہ روش اور رجحان ہے جس نے پنجاب اور سرائیکی بیلٹ میں بلوچ حقوق کی آواز اٹهانے والوں کا کام انتہائی مشکل بناڈالا ہے