کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے حملے میں کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد دیوبندی تنطیم انجمن سپاہ صحابہ ملوث نکلی۔ خرم زکی
کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے حملے میں کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد دیوبندی تنطیم انجمن سپاہ صحابہ ملوث ہے۔ دونوں گرفتار مجرموں، سرمد صدیقی اور ندیم ملا، کا تعلق انجمن سپاہ صحابہ (کالعدم اہل سنت والجماعت) سے ہے۔ یہ کالعدم دہشتگرد گروہ اپنی مالی ضروریات کو پوری کرنے کے لیئے لوگوں کے پلاٹوں پر قبضے میں بھی ملوث ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ
کراچی ایئر پورٹ حملے میں ملوث تاجک دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے والے کراچی کے ملزمان کا تعلق تحریک انصاف سے بھی رہا ہے تاہم بعد میں وہ سپاہ صحابہ اور القاعدہ میں شامل ہو گئے۔ ایئر پورٹ حملہ کیس میں ملوث دو ملزمان سرمد صدیقی اور ندیم عرف برگر عرف ملا کی انویسٹی گیشن رپورٹ ’’جنگ‘‘ نے حاصل کی ہے جس میں انہوں نے اپنی جرائم پیشہ زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور تحقیقاتی افسران کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا ہےجبکہ تاجک دہشت گردوں کی مدد کرنے والے 3ملزمان کو سی آئی ڈی نے گرفتار کیا تھا جس میں سے 2ملزمان نے تفتیش کے دوران سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں انہوں نے دہشتگردی کیلئے لوٹ مار، قتل و غارت گری اور لینڈ گریبنگ سے حاصل ہونے والی رقوم ایئر پورٹ دہشت گردی کے مرکزی کردار ملک ممتاز اعوان کو دیں اور اس کے حوالے سے یہ رقوم جہادی سرگرمیوں کے نام پر ملک اور بیرون ملک دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتی رہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ کراچی ایئر پورٹ دہشت گردی کا مرکزی کردار ملک ممتاز اعوان تھا جو تاجک حملہ آوروں کو کراچی لے کر آیا اور اس نے ہی کراچی میں سرمد اور ندیم سے ان دہشت گردوں کو ملوایا۔ انہوں نے سیاسی پشت پناہی حاصل کرنے کیلئے مختلف اوقات میں پی ٹی آئی، فنکشنل لیگ اور سپاہ صحابہ، مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی اور ان سے وابستہ رہے تاہم ان کا اصل روحانی تعلق القاعدہ اور انجمن سپاہ صحابہ سے تھا اور القاعدہ اور انجمن سپاہ صحابہ کی ہدایت پر ہی انہوں نے کراچی ایئر پورٹ پر حملہ کرنے والے ملزمان کیلئے شاہ فیصل کالونی میں ایک بڑا گھر خریدا جس میں گاڑی پارک کرنے کی جگہ تھی اور اسی گھر میں ایئر پورٹ پر حملہ کرنے والے تمام ملزمان کو ٹھہرایا گیا ان کے کھانے پینے کا بندوبست ہم نے مشترکہ طور پر کیا اور اسی گھر میں مختلف ذرائع سے حاصل کیا گیا اسلحہ پہنچایا گیا اور انہیں کئی روز تک اسی گھر میں حملہ کی ریہرسل کرائی گئی انہوں نے بتایا کہ ایئر پورٹ کی ریکی کی ویڈیو ہمارے ساتھیوں نے بنائی اور نقشہ شاہ فیصل کالونی اور گلستان جوہر سے تعلق رکھنے والے تین چار ساتھیوں نے مکمل کر کے حملہ کرنے والے مبینہ دہشتگردوں کے حوالے کیا اور انہیں اس پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جس کی کئی نشستیں ہوئیں اور اس طرح انہیں تمام راستے اور محل وقوع سے اس طرح روشناس کرا دیا گیا کہ جیسے انہوں نے یہ علاقہ خود دیکھا ہوا ہے انہی ساتھیوں نے اے ایس ایف کی یونیفارم اور پی آئی اے کے کارڈ بھی بنا کر دیئے جو حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے دوران واردات استعمال کئےان کا کہنا ہے کہ وقوعہ والے دن سورج ڈھلتے ہی ہم لوگ تین مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوئے ہماری گاڑی انہیں شاہراہ فیصل تک پہنچا کر واپس آگئی جبکہ تاجک دہشت گردوں کو لے جانے والی گاڑی کی ایک اور گاڑی نگرانی کرتی رہی اور ایئرپورٹ کے عقبی گیٹ تک انہیں پہنچانے کے بعد وہ گاڑی بھی واپس روانہ ہوئی اور اصل گاڑی جس میں تاجک دہشت گرد سوار تھے وہ بھی انہیں اتار کر واپس آگئی تینوں گاڑیوں میں سوار لوگ واپس شاہ فیصل کالونی کے اسی گھر میں ملے اور پھر ٹی وی کھول کر ہم لوگ حملے کی تازہ ترین صورتحال دیکھنے لگے کیونکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ تہہ کیا گیا تھا کہ تاجک دہشتگردوں سے کوئی ساتھی مواصلاتی رابطہ نہیں کریگا اور اگر کوئی حملہ آوروں میں سے زندہ رہ گیا اور کام کے بعد بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا تو وہ بھی کسی سے کراچی میں رابطہ نہیں کریگا بلکہ وہ کسی نہ کسی طرح وانا وزیرستان پہنچ کر ہمارے ایک ساتھی معراج سے رابطہ قائم کریگا جس کا نمبر تمام ساتھیوں کو یاد کروا دیا گیا تھا اس کا نمبر بھی کہیں تحریر نہیں کیا گیا تھا نہ ہی دہشت گردوں کے موبائل میں کسی ساتھی کا نمبر حملے سے پہلے باقی رہنے دیا گیا تھا
اس لئے ایئرپورٹ حملہ کیس تفتیشی اداروں کیلئے ایک بلائینڈ واردات تھی جس کا سراغ لگانا ان کیلئے چلینج سے کم نہ تھا مگر ایک ایسے کیس کا سراغ لگا کرتاجک دہشت گردوں کے پاکستانی ساتھی دہشت گردوں کو پکڑنا اور پوری گینگ کو برسٹ کرنا سی آئی ڈی کے سربراہ راجہ عمر خطاب کیلئے کسی چلینج سے کم نہیں تھا جنہیں سی آئی ڈی میں سائبر کرائم کا سراغ لگانے کیلئے ایک نیا محکمہ بنا کر اس کا انچارج مقرر کیا گیا تھا اور ان سے کراچی پولیس کے بڑوں نے یہ امیدیں وابستہ کی تھیں کہ وہ اس طرح کے بلائنڈ کیسز کو حل کرنے میں کراچی پولیس کی کامیابی سے مدد کریں گے اور اس کیس کو حل کر کے انہوں نے ایسا کر دکھایا پکڑے گئے دہشت گردوں نے مزید بتایا کہ حملہ آوروں نے ایک ڈرائیور کے ہمراہ مسلح ہو کر شاہ فیصل کالونی سے ایئر پورٹ تک کا سفر کیا(ڈرائیور کا نام ابھی ظاہر نہیں کیا جارہا) شاہ فیصل کالونی میں کرائے پر لئے گئے مکان میں ایک مقتول دہشتگرد کی فیملی کو ٹھہرایا گیا تھا تاکہ ان کی آڑ میں آنے جانے والوں کو آسانی رہے اور مجاہدین اور ان کی سرگرمیوں پر کوئی شک نہ کر سکے تاہم حملہ کرنے سے ایک روز قبل یہ گھر خالی کر دیا گیا تھا اور مقتول دہشتگرد کی فیملی کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا تھا اس فیملی کا بھی سراغ لگالیا گیا ہے اور ان سے بھی سی آئی ڈی نے تفتیش کی ہے تاہم انہیں باقاعدہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ملزمان کا کہنا ہے کہ شاہ فیصل کالونی کے مکان میں بیٹھ کر تمام ساتھیوں نے ایئرپورٹ حملہ کیس کی کارروائی دیکھی اور صبح تک ہم میںسے کوئی ساتھی سویا نہیں سب نمازیں پڑھتے اور اپنے ساتھی دیوبندی دہشتگردوں کی کامیابی کیلئے دعائیں کرتے رہے مگر ان کی ناکامی پر تمام لوگ صبح افسردہ ہوگئے تھے اور مکان میں آٹھ دس افرادکے ہونے کے باوجود اس طرح سناٹا تھا کہ جیسے موت کا گھر ہو ہم سب ساتھی ایک دوسرے سے آنکھیں بھی نہیں ملا رہے تھے نا ہی کھل کر کوئی بات کر رہا تھا صبح کسی نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور نا ہی کسی نے ناشتے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ ہم لوگوں نے بیس گھنٹے پہلے کھانا کھایا تھا مگر کسی کو اس کے باوجود بھوک نہیں تھی سورج ابھرتے ہی ہم نے مالک مکان کو قبضہ دے دیا اور یہاں سے سب ساتھی اس طرح رخصت ہوئے کہ پھر کئی ہفتے تک ہم ایک دوسرے سے جان بوجھ کر نہ ملے اور نا ہی کسی نے دوسرے سے رابطہ کیا تاہم اس دوران ہم لوگ تواتر سے ٹی وی کی خبریں دیکھتے رہے اور مختلف اخبارات پڑھتے رہے جن میں حملے سے متعلق تفصیلات بہت زیادہ چھپ رہی تھیں اور ان تفصیلات سے ہمیں تازہ ترین صورتحال کا پتہ چل جاتا تھا جس سے ہمیں صورتحال کو سمجھنے میں مدد مل رہی تھی۔ ملزمان سرمد صدیقی اور ندیم عرف برگر والا قریبی دوست تھے اور عرصہ 20سال سے ایک ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں، تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے یا اسے خیر باد کہتے رہے اور طارق روڈ کے علاقے میں رہائش پذیر ہو کر ان دونوں نے بیسیوں کمزور لوگوں اور بیوائوں کی بلڈنگوں، فلیٹوں اور پلاٹوں پر قبضے کئے، ان کے جعلی کاغذات بنا کر فروخت کئے اور اس گھنائونے کاروبارسے حاصل ہونے والی رقم کا ایک معقول حصہ وہ شروع سے دہشتگردی کی سرگرمیوں کیلئے وقف کرتے رہے اور انہوں نے طارق روڈ پر کئے جانے والے ان قبضوں اور خرید و فروخت کی تفصیلات کے علاوہ ان سے حاصل ہونے والی رقوم کا ایک حصہ افغان جہاد تک پہنچانے کا بھی اعتراف کیا ہے جبکہ انہوں نے ہی ایئر پورٹ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ گاہ فراہم کی بلکہ ان کے اسلحہ اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والی دیگر ضروریات کی تکمیل کی۔ ان کے ساتھیوں میں طارق روڈ کے حافظ ریاض کشمیری، پٹیل پاڑہ کے نعیم ہزارہ وال، آصف ظہیر طارق روڈ، قاری شاہد کشمیری طارق روڈ، قاری عمر سرائیکی طارق روڈ، قاری عرفان اعوان خالد بن ولید روڈ، ممتاز اعوان محمود آباد، اصغر بندھانی لیاقت آباد، محمد نادر الاعظم اسکوائر، بابر اقبال طارق روڈ، راشد صدیقی طارق روڈ، آصف ظہیر الفلاح مارکیٹ شامل ہیں۔