فیض احمد فیض، ریل گاڑی اور دیسی سوشلزم
نہیں صاحب، یہ کسی سرمایہ دار اشراف کی کہانی نہیں، یہ کہانی ہے برصغیر کے دیسی سوشلزم کی، پڑھیے اور سر دھنیے – کیا کوئی سوشلسٹ، مارکسسٹ صرف اپنی ضرورت یا ترجیح کے لیے ریل گاڑی کی دیگر سینکڑوں سواریوں کو مویشیوں کی طرح انتظار کرا سکتا ہے، اگر یہ وی آئی پی اور اشرافی کلچر نہیں تو اور کیا ہے؟ بشکریہ بی بی سی اردو
فیض کو الہ آباد سے دہلی روانہ ہونا تھا۔ ان کی ریل گاڑی آدھی رات کو آنی تھی۔ فیض نے اپنے میزبان ڈی پی ترپاٹھی سے کہا: ’برخوردار ریل گاڑی لیٹ کرا دو، ہمیں ضادقہ شرن سے ملنا ہے۔‘
ڈی پی ترپاٹھی کو فیض کی وہ درخواست ابھی تک یاد ہے: ’یہ عجیب سا مطالبہ تھا جو ریل گاڑی چھوٹنے سے کچھ منٹ پہلے آیا۔ خیر، فیض صاحب کو نہ کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے ریلوے سٹیشن پہنچ کر سٹیشن ماسٹر کی منت کی لیکن اس نے ریل گاڑی روکنے سے صاف انکار کر دیا۔ ہم ان کو منانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہماری ساری کوششیں ناکام ہوئیں۔‘
ترپاٹھی کہتے ہیں: ’تب ہم نے انھیں آخری وارننگ دی۔۔۔
اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو ہم سب طالب علم ریلوے ٹریک پر لیٹ جائیں گے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ہم ٹس سے مس نہیں ہونے والے تو انھوں نے ریل گاڑی رکوا دی۔ ایک شاعر کی خواہش کا احترام کرنے کے لیے ریل گاڑی پورے ڈیڑھ گھنٹے تک رکی رہی اور جب فیض ٹرین پر سوار ہو گئے تو میں نے دہلی میں ان کے میزبان اندر کمار گجرال کو فون پر بتایا کہ فیض صاحب کل ڈیڑھ گھنٹے دیر سے دہلی پہنچیں گے۔‘
http://www.bbc.co.uk/…/141123_faiz_remembered_death_anniver…
oh my God ,,, is it really true????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????