فیض صاحب ! ہم آپ کو نہیں بهولے – عامر حسینی

21

کل فیض احمد فیض کی 30 ویں برسی تھی ،گویا فیض کو اس جہاں سے گزرے تیس برس ہوگئے اور تیس سال پہلے جب فیض صاحب کا انتقال ہوا تها تو اس وقت میری مسیں ہی بهیگی تهیں اور یوں بهی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے نوجوانی کی سرحد میں ابهی قدم ہی رکها تها اور فیض صاحب کے مرنے کی خبر میں نے روزنامہ مساوات میں پڑهی تهی جو اس زمانے میں خفیہ بکتا تها اور کوئی نیوز ایجنسی اس اخبار کو کهلے عام بیچنے کی ہمت نہیں کرتی تهی اور ہمارے گهر میں اس وقت جو نوائے وقت آتا تها اس نے فیض کے مرنے کی خبر کو اس ملک میں رونما ہونے والا اہم المناک واقعہ نہیں گردانا تها اور اسی اخبار کے ایک کالم نگار نے فیض کی موت پر کالم لکهتے ہوئے ان کی مئے نوشی کا احوال لکهتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی تهی کہ یہ انجام غیر متوقع نہیں تها اور ایک صاحب جبہ ودستار نے ان کی عاقبت کے خراب ہونے اور ان کی قبر میں آتش جہنم کے سرائت کرنے کا انکشاف بهی کیا تها دائیں بازو کا کوئی جریدہ یا رسالہ ایسا نہیں تها جس نے اپنا بغض اور کینہ ظاہر نہ کیا ہو اور فیض صاحب کی وفات پر خوشی کا اظہار کرنے والوں میں جماعت کے صالحین سب سے آگے تهے اور اس بہانے سے وہ اشتراکیت ، سیکولر و روادار روایات کے علمبرداروں اور سامراجی سرمایہ داریت کے مخالفوں کو جس قدر گالیاں نکال سکتے تهے نکالتے گئے اور ان کے نزدیک فیض کا شعری و نثری ورثہ اس قابل نہیں تها کہ اس کی تحسین میں چند حرف لکهے یا کہے جاسکتے

لیکن فیض کی وفات پر اس زمانے میں ریلوے ، واپڈا ، پی ٹی سی ایل ، پاکستان اسٹیل ملز ، پی آئی اے ، واہ آرڈینسس فیکڑی ، پی ٹی وی ، بینکوں ،کارخانوں ، پوسٹل سروس ، واسا سمیت کام کی جگہ پر محنت کرنے والوں ، هاریوں ، کسانوں ، عوامی دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں نے اپنی اپنی جگہوں پر ان کی یاد میں تعزیتی جلسے اور مجالس منعقد کیں اور فیض احمد فیض سے اپنی وابستگی کا اعلان کیا ، این ایس ایف ، ڈی ایس ایف ، پی ایس ایف ، بی ایس او کے طلباء و طالبات نے فیض کے نام کا ورد کیا اور ان کے اشعار کو کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں دوهرانا فرض بنالیا اور اسی طرح ایم آرڈی کی جمہوریت پسند جماعتوں نے فیض کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ، بیگم نصرت بهٹو ، بے نظیر بهٹو ، میر غوث بخش بزنجو ، امام نازش ، اعزاز نذیر ، سبط حسن ،صفدر میر ، آئی اے رحمان ، اکبر ساقی کے پیغامات نے فیض کو زندہ و جاوید کرنے میں اہم کردار ادا کیا

فیض صاحب سے بے اعتناعی ، ان سے دشمنی کرنے اور بغض کرنے والوں سے تاریخ کا یہ انتقام ہی کافی تها کہ اسلامی جمعیت طلباء پاکستان نے اپنے ترجمان رسالے ہمقدم کی پیشانی پر یہ شعر لوگو کے اوپر لکها ہوا ہے

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

اور چشم فلک نے یہ نظارہ بهی دیکها کہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور ان کے دیگر صالحین رند خرابات فیض احمد فیض کی نظم

لازم ہے کہ ہم بهی دیکهیں گے
پر بے اختیار سردهنتے اور محو رقص نظر آئے
اور شوباز شری کے ڈراموں کا تو زکر ہی کیا

گویا دائیں بازو والوں کو زبان و سخن فیض سے مستعار لینا پڑی یہی فیض صاحب کے حوالے سے وقت کا سب سے بڑا انصاف تها لیکن اس دوران ایک المیہ بهی ہوا اور وہ یہ کہ فیض صاحب کو ارزل اور پسے ہوئے مزدور و کسان عوامی طبقات سے چهین کر سرمایہ داری ، نیولبرل ازم ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے محافظ اور حامی اشراف کی رنگین محفلوں اور جهوٹے لٹریری میلوں میں قید کردیا گیا اور فیض کی شاعری کے سامراج دشمن اور سرمایہ داری مخالف پیغام کو ڈنک قرار دیکر نکالنے کی کوشش ہوئی اور اس کی شاعری سے غم جانان کو باقی رکهتے ہوئے غم دوراں اور بهی دکه جو تهے زمانے میں محبت کے سوا کو گم کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک طرح سے فیض کو اشرافیانے کی کوشش ہوئی اور یہ کوشش جعلی اور بے ضمیر ہوجانے والے اس طبقے نے کی جس نے اپنی سوشل ڈیموکریسی کا نکاح سرمایہ داریت کے مارکیٹ ماڈل سے پڑها ڈالا تها اور سامراج کی جنگوں کو نجات کی کنجی بناکر پیش کررہا تها اور یہ فیض کے دکهوں پر جهوٹے آٹه آٹه آنسو بہاتا ہے اور ایسے میں فیض صاحب مجهے یہ کہتے نظر آتے ہیں

اب تیرے شہر میں کوئی ہم سا بهی کہاں ہے

23 22

Comments

comments