جارحانہ الحاد اصل میں جارحانہ مذھب کا رد عمل ہے – ارشد محمود
مذہب پرستوں، معتدل مسلمانوں، کمیونسٹوں وغیرہ کی طرف سے ‘تحریک الحاد’ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ خود ملحد بھی اس سلسلے میں کئی الجھنوں کا شکار ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے سے الحادی لٹریچر عام آدمی کی آسان رسائی تک آگیا ہے۔ یہ مسئلہ مختلف سطحوں پر سمجھنے والا ہے۔ الحاد و ایمان کی لڑائی انسانی تہذیب میں بہت پرانی ہے۔ تمام سائنسی سٹڈی اس بات پر متفق ہے، کہ فطری قوتوں کے خلاف اپنے خوفوں پر کنڑول حاصل کرنے کے لئے انسان نے جادو ٹونے،اوہام، متھیں،دیوتا اور مذاہب پیدا کئے۔ خدا کا تصور انسانی ساختہ ہے۔ اس کی اسی طرح کی ہسٹری بیان کی جاسکتی ہے، جس طرح کسی بھی چیز کی تاریخ (احوال ماضی) معلوم کی جاسکتی ہے۔یعنی اس کا origin کیا ہے، اس نے کب اور کن حالات میں ارتقا، ترقی، زوال پایا۔ آج ہم جس عہد میں رہے ہیں، یہ سائنس، علم، تحقیق، انڈسٹری کا زمانہ ہے۔ اوہام اور مذاہب کا عہد ختم ہوچکا ہے۔ ان کا شور شرابہ ضرور باقی ہے۔لیکن عہد اور وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی قوت سائنس اور اس کے پیداکردہ شعور کی ہے۔ سب سے زیادہ مسئلہ ہمارے جیسے ملک کا ہے۔ مذہب اور الحاد کی لڑائی اصل میں مذہب اور سائنس کی لڑائی ہے۔ مزہب باقیات میں سے ہے، اس کی جڑیں، پس ماندہ معیشت، غربت، کلچر اور انسانی نفسیاتی کمزویوں میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں مذہب کی اصل طاقت ریاست کی پشت پناہی ہے۔ ورنہ پاکستانی خطے کے لوگ اپنے مزاج میں معتدل، لبرل اور سیکولر رویے رکھتے تھے۔ اور اگر انہیں آزادانہ طور پر ترقی کی طرف جانے دیا جاتا، تو پاکستان میں صورت مختلف ہوتی۔ آج کے جدید دور میں الحاد کے مسئلے کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں
:
1۔ الحاد ناگزیر طور پر سائنس اور عقل سے جڑی ہوئی ہے۔ اور آج جس زمانے میں ہم زندہ ہیں۔ سائنس اور عقل کا زمانہ ہے۔ چنانچہ اسے ختم کرنا تو دور کی بات۔۔یہ مادی، سائنسی اور عقلی علوم کی ترقی کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ خرد افروزی اور روشن خیالی کا ناگزیر طور پر الحاد کی طرف رخ ہے۔
۔ ہمارے جیسے معاشرے میں الحاد علمی، زہنی، اکیڈیمک مسئلہ ہے۔ یہ تعلیم یافتہ لوگوں کے مابین ہی زیر بحث آ سکتا ہے۔
3۔ الحاد عوامی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ ہونا چاہئے۔ الحاد کوئی مذہب نہیں ہے۔ جس پر مزہب کی طرح ‘ایمان’ لایا جاتا ہے۔ یا اس کی تبلیغ کا بیڑا اٹھا لیا جائے۔ مزہب شعور کی ایک خاص سطح پر پیدا ہوا تھا۔۔ اور شعور کی ایک خاص سطح پر مذہب رخصت ہوگیا یا ہو جاتا ہے۔ الحاد ایک اعلی سطحی علمی فکری شعور کا نام ہے۔ اسے عام آدمی نہیں سمجھ سکتا،اس کے مسائل اور طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ زندہ ہی خیالی سہاروں میں رہتا ہے۔ چنانچہ الحاد عوامی تحریک نہین ہوسکتی۔ نہ اسے بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
4۔ مارکسزم بنیادی طور پر الحادی فلسفہ حیات ہے۔ الحاد سے مراد کائنات، زندگی اور انسان کو عقلی اور سائنسی بنیادوں پر دیکھنا۔ لیکن چونکہ مارکسزم کا اصل میدان معاشی اور سیاسی نظام ہے۔ اس لئے وہ عوامی سطح پر الحاد پر زور نہیں دیتے ۔ انٹیلیکچوئل سطح پر جو خرد افروزی، روشن خیالی اور الحادی تحریک چل رہی ہے۔ میرا نہیں خیال اس کا مارکسسٹوں سے ٹکراو بنتا ہے۔ خرد افروزی کا ایجنڈا صرف خردافروزی ہے۔پڑھے لکھے لوگوں میں دماغوں اور عقل کو کھولنا ہے۔ جب کہ مارکسزم عوام اور خاص کر کچلے ہوئے طبقات میں کام کرتی ہے۔ اور ان کا منشا ایک خاص طرح کا معاشی تقسیم انقلاب برپا کرنا ہے۔ مارکسسٹوں کو ہرگز الحادی قوتوں پر برہم نہیں ہونا چاہئے۔۔کہ وہ کوئی “نظام حیات” کیوں نہیں دیتے۔۔ وہ عوام کے معاشی مسائل کی بات کیوں نہیں کرتے۔۔تبدیلیاں مختلف سطحوں اور پرتوں پر رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ جدوجہد کسی ایک خاص پرت میں نہیں ہورہی ہوتی۔ چنانچہ ایک پرت کی جدوجہد کو دوسری پرت کی جدوجہد کو روکنا۔۔کہ وہ ہماری جیسی کیوں نہیں۔ سائنسی رویہ نہیں ہے۔
5۔ یہ بھی کہا جانے لگا ہے، کہ اسلام پر ہی تنقید کیوں؟ ایک تو بات ہے، کہ ہم جس سائنس اور علم کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ اور ابلاغ کے جو زرائع میسر آگے ہیں۔ اب مذہب پر تنقید کو کوئی نہیں روک سکتا۔ عقل پر پرکھنے والے طاقت ور ہورہے ہیں۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں، آنے والا دور ان کا ہے۔ طاقت ور اور ان مٹ سائنس ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ دیگر مذاہب پر تنقید کیوں نہیں؟ جہاں اسلامی مذہب کا فکری غلبہ ہوگا، ظاہر ہے، منطقی لحاظ سے تنقید اسلامی مذہب پر ہی ہوگی۔ ہندو معاشروں یا کرسچن معاشروں میں تنقید ہندومت اور عیسائیت پر کی جاتی ہے۔ دوسرے اسلام ایک سیاسی مذہب ہے۔ اس میں جارحیت اور شدت پسندی کا عنصر بہت ابھر کر سامنے آ چکا ہے۔ لوگ اس کی جارحیت اور شدت پسندی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ظاہر ہے، ابلاغ کے جدید زرائع نے آزادی فکر کو نئی منزلوں سے آشنا کیا ہے۔ لوگ تو بولیں گے۔ اب مذاہب پر اٹھی انگلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ چنانچہ اسے برداشت کرنا چاہئے۔ اور علمی سطح پر جواب دینا ہوگا۔ نہ کہ سرتن سے جدا کی دھمکیاں دے کر مذہب کو جبری طور زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔
6۔ مذہب کو بچانے کا اب ایک ہی طریقہ باقی ہے۔ کہ مسلمان سیکولرازم کے اصول کو تسلیم کرلیں۔ قرآن پاک بھی اس کی حمائت کرتا ہے۔ دین پر کوئی جبر نہیں۔ تمھارا دین تمھارے ساتھ، میرا دین میرے ساتھ۔ سائنس اور ترقی کے ساتھ ‘صلیبی جنگ’ لڑنے کا مطلب مذہب کی خودکشی ہوگی۔سیکولرازم سے الحاد اور مذہب کے درمیان جنگ سرد ہو کر اکیڈیمک سطح پر رہ جائی گی۔ الحاد کی دکھائی دینے والی ‘جارحیت’ اصل مین اسلامی مذہب کے جارحانہ رویہ کا ردعمل ہے۔ لوگوں کے اوپر، ثقافت،تعلیم، سیاست، سماج پر اس کو زبردستی ٹھونسا جارہا ہے۔ چنانچہ اس کا جارحانہ ہی جواب آنا تھا۔
اس مراسلہ کا مفصل جواب انتہائی مختصر صورت میں پیش ہے. تاکہ اتمامِ حجت ہو.
دراصل “انکار” بذاتہ “اقرار” کی ایک صورت ہے. کیونکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کسی ایک نظریے یا شے کا انکار کسی اور نظریے یا شے کا اقرار ہوتا ہے، اس لحاظ سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے “الحاد” جو کہ مذاھب کے انکار کی ایک صورت کا نام ہے دراصل یہ بھی ایک سوچ اور نظریے کی پیروی اور اس کے اقرار کا نام ہے. دوسرے لفظوں میں الحاد بھی ایک مذھب کا نام ہے. لہذا ملحدین کو کسی لحاظ سے یہ گمان نہیں کرنا چاہیئے کہ وھ لادین یا لامذھب ہیں. بلکہ درحقیقت وھ بھی ایک مذھب کے پیروکار ہیں. کیونکہ وھ بھی مذھب کی اپنی بیان کردھ شرح کے مطابق ایک سوچ اور عقیدے کے پیرو کار ہیں. لہذا بھلے ہی شیطانی یا خود ساختہ مگر ایک مذھب کے پیرو ہیں ملحد.
اب رہی بات ان کے مذھب کے درست یا غلط ہونے کی. تو یہ بالکل اسی طرح سے طے ہو گا جیسے عوام میں بین المذاھب یا بین الادیان مناظرات سے طے ہوتا ہے. عقل انسانی کے مطابق قوانینِ فطرت کے اوزان کا مقرر ہونا، شمس و قمر اور کواکب بلکہ تمام کائنات کا منظم ہونا (جو کہ ثابت ہو چکا ہے) ایک منتظمِ اعلی کی طرف راہنمائی کرتا ہے. اسی لیئے عقل کو انسان پہ حجت قرار دیا گیا ہے. تاکہ ھادیء مطلق تک رسائی کا وسیلہ بنے.
بہت شکریہ..
رہی بات اسلام پہ تنقید کی. تو یہ صرف اس سبب کہ دراصل اسلام کا تعارف حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی عوام نے. ورنہ کم از کم انسانی گمراہیوں اور عیوب کو اسلام سے منسوب کبھی نہ کیا جاتا.
چند لوگوں کے ذاتی نظریات یا افعال کو اسلام سے منسوب کردینا قطعا ایک معدل اور معتدل عقلی اساس نہیں ہے. بلکہ سراسر جہالت ہے.
یہ اسی طرح ہے جیسے ایک انسان کا کوئی غیر اخلاقی اقدام دیکھ کر تمام انسانیت کو مورد الزام ٹھہرا دیا جائے کہ جناب یہ بھی انسان ہے تو باقی سب انسان بھی ایسے ہوں گے. یہ بالکل ایک نامعقول توجیہ ہے.
اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے اصل افکار و تعلیمات کے لیئے وارثانِ اسلام سے رجوع کیا جائے. ترجمے کے اعتبار سے قرآن کے ایک لفظ کو انسان نہیں سمجھ سکتا جب تک وارثانِ قرآن تشریح نہ فرمائیں. اور وارثانِ قرآن فقط رسول اور آلِ رسول ہیں. انکے علاوھ جس کسی سے رجوع کیا جائے وھ اسلام نہیں بتائے گا بلکہ ایک ذاتی سوچ کو اسلام کا نام دے کر شرح کرے گا. بس یہی وجہ ہے کہ اسلام کا نام استعمال کر کے ذاتی سوچوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے. جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی معاشرھ وسعتِ نظری کا مظاہرھ کرے اور حقائق سے آگاہی کے لیئے اسلام کا مطالعہ وارثانِ اسلام کی بیان کردھ تشریحات کے مطابق کرے تو کوئی ہرگز ہرگز دینِ برحق سے بدظن نہیں ہوگا. کیونکہ قوانینِ فطرت اپنی اصل کے اعتبار سے محکم ہیں. چاہے کوئی مانے یا نہ مانے. لیکن فطرت کے اصولوں سے انحراف کم از کم عقل نہیں کرے گی.
شکریہ.