خالد احمد – پاکستان میں دھشت گردی اور اس کی فکری بنیادوں کا ڈسکورس – عامر حسینی

khalid-ahmad1

خالد احمد اپنی کتاب ” فرقہ وارانہ جنگ ۔۔۔۔پاکستان میں شیعہ – سنّی تشدد اور اس کے مڈل ایسٹ سے رشتے ” کے چوتھے باب کے فٹ نوٹ میں انکشاف کرتے ہیں
” میں نے پبلک ایڈمنسٹریشن سٹاف کالج میں ” فرقہ واریت ” پر ایک لیکچر دیا اور دوران لیکچر زیر تربیت افسران کو کہا کہ جب وہ کراچی جائیں تو جامعہ بنوریہ اور مفتی شامزئی کے بارے میں میرے بیان کردہ حقائق کی تحقیق کریں ، ان افسران نے کراچی جاکر جب ڈی آئی جی سندھ کے سامنے جامعہ بنوریہ کے خوالے سے حقائق کی جانچ کرنا چاہی تو ڈی آئی جی اپنا ٹمپرامنٹ لوز کر بیٹھے اور انھوں نے شامزئی اور جامعہ بنوریہ کی تعڑیفیں شروع کردیں

خالد احمد کی کتاب کا اگرچہ عنوان خاصا مبہم ہے اور وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاری مذھبی دھشت گردی کی تعبیر و تشریح کا بنیادی فیکٹر ایرانی انقلاب کو مان کر آگے چلتے ہیں ، اگرچہ وہ اس میں افغان جنگ ،پاکستان ، امریکہ ، سعودیہ کی پراکسی جنگوں اور دیگر کئی فیکٹر بھی بیان کرتے ہیں ، لیکن ان کا بنیادی زور ایک تو دیوبندی دھشت گردی کے لیے بار بار سنّی دھشت گردی اور شدت پسندی کی اصطلاحوں کو بیان کرنے پر ہے اگرچہ جب وہ تفصیل میں جاتے ہیں تو دیوبندی شناخت کو بہت واضح کرتے ہیں

لیکن اگر آپ اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب کو پڑھیں اور اس کے بعد چوتھے باب کو بھی پڑھ لیں تو اس میں جو مواد اور واقعات اور جن فکری لہروں پر بات کی گئی ہے تو ان سے یہ نتیجہ صاف نکالا جاسکتا ہے کہ مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص دھشت گردی کی فکری جڑیں سلفی وہابی آئیڈیالوجی کے اندر پیوست ہیں جسے دیوبندی تںطیموں اور سکالرز نے اپنا لیا ہے جبکہ 99 فیصد دھشت گردی کی وارداتوں کا کھرا پاکستان کے اندر دیوبندی تنظیموں ، مدارس اور افراد تک جاتا ہے

دیوبندی وہابی تکفیری پاکستانی نازی ہیں بقول عبدل نیشا پوری کے اور یہ پاکستان کو نازستان بنانے میں کوشاں ہیں اسی کتاب میں ایک جگہ چوتھے باب میں کئی ایک جگہ خالد احمد پاکستان کی وردی ، بے وردی نوکر شاہی کے اندر دیوبندی وہابی تکفیری لابی کے منظم نیٹ ورک کے بارے میں اشارے دیتے ہیں ، گلگت کے کیس کو درج کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ کیسے وہاں ّجنرل ضیاء الحق کے اہم ساتھی جنرل کے ایم عارف کے وہابی داماد کو چیف سیکرٹری گلگت بلتستان لگایا جاتا ہے اور ایسے ہی ایک اور دیوبندی کھیتران کو پولیس سربراہ لگایا جاتا ہے اور یہ دونوں کے دونوں انتہائی متعصب فرقہ پرست اور اینٹی شیعہ و سنّی بریلوی تھے

خالد احمد جنول ضیاء الحق اور لاہور کے دیوبندی مردسہ جامعہ اشرفیہ کے مہتمم عبدالمالک کاندھلوی کی آپس میں رشتہ داری اور جنرل ضیاء الحق کی دیوبندی وہابی سرپرستی کی کئی ایک مثالیں درج کرتے ہیں خالد احمد دیوبندی اور سنّی بریلوی کے درمیان تقسیم کے لیے ہائی سنّی چرچ اور لو سنّی چرچ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور یہ تقسیم بھی انھوں نے دونوں فرقوں کے شیعہ کے بارے میں رویہ اور خیالات کے فرق اور شیعہ سے دونوں کے سماجی تعلقات بارے فرق کو بیان کرنے کے لیے بنائی ہے اور بین السطور وہ یہ بتاتے ہيں کہ شیعہ کے خلاف وائلنس اور دھشت گردی اور علمی اعتبار سے منظم تکفیر کا کاروبار اہل حدیث اور دیوبندی وہابی کی جانب سے ہوا اور سنّی بریلوی اس کا حصّہ نہیں بنے بلکہ خالد احمد کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیوبندی وہابی تکفیری مہم اور اس سے ابھرنے والی دھشت گردی کا دائرہ سنّی بریلویوں تک بھی پہنچ گیا جس کے ردعمل میں پاکستان سنّی تحریک معرض وجود میں آئی اور خالد احمد سنّی بریلویوں کو کسی بھی طرح کی منظم دھشت گردی اور نظریاتی تکفیری نیٹ ورک کا حصّہ نہیں بتلاتے ، لیکن وہ جیو پالیٹکس ، علاقائی تنازعوں ، فرقہ وارانہ جدال اور اور موجودہ دھشت گردی کی جڑیں تاریخی اعتبار سے قرون وسطی میں شیعہ – سنّی تنازعہ سے جوڑتے ہیں اور نوآبادیاتی دور میں اور مابعد نوآبادیاتی دور میں وہ اس کو پھر سعودی وہابیت کے ساتھ اور ایرانی شیعت کے ساتھ جوڑ کر سعودیہ عرب کو سنّی ازم کا نمائندہ بتلاتے ہیں

لیکن میرے خیال میں یہ واقعاتی اور تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے ، انھوں نے بنو امیہ کے اقتدار اور امویوں سے حضرت علی اور ان کے حامیوں کی لڑائی کو شیعہ – سنّی تنازعہ بناڈالاہے حالانکہ سنّیوں کی اکثریت کے ہاں خلافت اور حق علیکے ہاں متحقق ہے اور فکری اعتبار سے سنّیوں نے امام حسن کے بعد آنے والوں کو ملوک قرار دیا اور سب کو دوسرے مانا میں غاصب قرار دیا اور اس معاملے میں شیعہ اور سنّی تو ایک باب پر نظر آتے ہیں اور جبکہ ملوک کے حامی دوسری طرف نظر آتے ہیں جبکہ وہابیت اول دن سے کلاسیکل سنّی ازم کی مخالفت پر استوار ہونے والی تحریک تھی اور اسی لیے جب اس سے دار العلوم دیوبند کے رشتے استوار ہوئے تو پاک و ہند کی سنّی اکثریت نے اسے مسترد کردیا اور دار العلوم دیوبند کا معاملہ یہ رہا کہ اس نے نہ تو وہابیت سے اپنا رشتہ توڑا اور نہ ہی اس نے سنّی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے خاجی امداد اللہ مہاجر مکّی کی سنّی صوفی روایت کو الوداع کیا ، لیکن یہ روایت ان کے اندر بتدریچ مغلوب ہوتی گئی اور آج بہت کمزور حالت میں یہ ہمیں سرائیکی خطے میں خانپور کی حانقاہ سمیت چند ایک جگہوں پر نظر آتی ہے ، لیکن مجموعی طور پر پاکستان کے اندر دیوبندیت پر دار العلوم اکوڑہ خٹک ، دارالعلوم جامعہ بنوریہ ، دارالعلوم جامعہ فاروقیہ ، دارالعلوم کبیروالہ ، دارالعلوم عبداللہ بن مسعود خانپور جیسے مدارس کا اثر ہے جوکہ ایک طرف تو سعودی وہابیت کے ساتھ مکمل طور پر عقائدی اعتبار سے گھل مل گئے ہیں تو دوسری طرف ان کے ہاں تکفیری منظم مہم بہت زیادہ پراثر ہے

خالد اہم نے اوپر زکر کردہ مدرسوں اور ان کی اہم ترین شخصیات کے ساتھ جہادی تکفیری دھشت گرد تنظیموں خاص طور پر سپاہ صحابہ پاکستان اور اس سے جنم لینے والی جہادی تکفیری تنظیموں کے باہمی رشتے پر بہت تفصیل سے ” فرقہ پرست سپاہی ” کے عنوان سے لکھے جانے والے باب میں روشنی ڈالی ہے اور خالد احمد سپاہ صحابہ پاکستان کو ” مدر آف دیوبندی ٹیرراسٹس ” یعنی دھشت گردوں کی ماں قرار دیتا ہے

خالد احمد یہ بھی جائزہ لیتا ہے کہ کیا سپاہ صحابہ پاکستان / ملت اسلامیہ / اہل سنت والجماعت ، لشکر جھنگوی ، جیش محمد ، حرکۃ الانصار ، حرکۃ المجاہدین ، فرقان ، جند اللہ یہ الگ الگ تنظیمں ہیں ، اس پر خالد احمد نے واضح لکھا ہے کہ یہ سب کی سب اندرونی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور لشکر جھنگوی تو سپاہ صحابہ پاکستان سے کوئی الگ تنظیم نہیں ہے بلکہ ان کی باہمی علیحدگی ایک ڈرامے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

خالد احمد نے بہت تفصیل سے طارق اعظم ، مسعود اظہر ، لشکر جھنگوی کے اہم دھشت گردوں ، فضل الرحمان خلیل ، سیف اللہ اختر کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے اور پھر ان سب فرقہ پرستوں اور شیعہ ،صوفی سنّی ، احمدی ، عیسائی وغیرہ کے قتل اور ان کے اوپر حملوں کے زمہ داران کے رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ، اس سارے نیٹ ورک کے پاکستان کے دیوبندی اہم ترین مدارس اور ان کی اہم ترین بنیادی شخصیات کے ساتھ تعلقات اور رشتوں کا جائزہ لیا ہے جوکہ بہت اہم ہے

خالد شیعہ نسل کشی ، ٹارگٹ کلنگ میں شیعہ کے خلاف تکفیر کی منظم مہم جو کہ دیوبندی اہم ترین مدارس سے شروع ہوئی اور شیعہ ثاگٹ کلنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی زمانی قربت کا جائزہ بھی لیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ منظم تکفیر اور شیعہ نسل کشی میں گہرا تعلق ہے اور تیسرا باب جس کا عنوان ” Shia -Sunni Schism ” ہے ( جس سے مجھے اختلاف ہے ، کیونکہ اس حوالے سے جو مواد خالد احمد نے پیش کیا ہے اس سے تو یہ شیعہ کے خلاف دیوبندی وہابی ڈرائیو لگتی ہے نہ کہ کوئی برابر کا Schism خالد احمد بین السطور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان کا اردو پریس ، دیوبندی اور وہابی حلقے اور خود پاکستانی سٹیٹ کا سرکاری موقف پاکستان کے اندر شیعہ ٹارگٹ کلنگ ، شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی مزارات اور جلوسوں پر حملوں کو امریکی ، ہندوستانی اور اسرائیلی ایجنٹوں کی کارستانی قرار دیتا رہا

اور اس حوالے سے جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ ، جے یوآئی ، سمیت دیوبندی ، وہابی تنظیموں اور ان کے حامیوں اور پاکستانی اردو پریس کے غالب حصّہ کی شیعہ نسل کشی کو چھپانے کی کوشش اور اس کے اصل زمہ داروں کی شناخت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کو بہت واضح کرکے بیان کرتا ہے اور مجھے ایسے لگتا ہے کہ وہ اس کی مقامی جڑوں کو چھپانے اور اس کی سعودی بنیادوں کو چھپانے کی روش کا زکر کنتا ہے لیکن نتیجہ نکالتے ہوئے ، وہ اس کو شیعہ – سنّی جنگ قرار دیتا ہے جبکہ پاکستانی تناظر میں تو یہ اصطلاح بہت ہی گمراہ کن بن جاتی ہے اور خالد احمد اسے سنّی ہائی چرچ کا مظہر قرار دیتا ہے اگرچہ اک جگہ وہ پاکستان کے اندر ” جہادی نیٹ ورک ” کی دیوبندیانے deobandisation کی بات کرتا ہے لیکن یہ وہ پروسس ہے جسے حود انگریزی پریس کے بھی غالب حصّے نے مبہم بنانے کی کوشش کی ہے اور اس پر پردے ڈالے ہیں

جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی خالد احمد کی اس کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت وضاحت سے لکھا تھا کہ خالد احمد دستیاب موادہونے کے باوجود پاکستان میں دھشت گردی اور تکفیری ڈسکورس سنّی – شیعہ وائلنس اور اسے shia – sunni schism جیسی مبہم اصطلاجوں مين بیان کرنے پر مجبور اپنی ریسرچ کی فنڈنگ کرنے والے ادارے کی دی گئی پالیسی لائن کو فالو کرنے کی وجہ سے ہوئے اور جن دنوں وہ ووڈرو ولسن سنٹر مين ریسرچ کرنے گئے ان دنوں اس پروجیکٹ کے امریکی نگرانوں کے خیالات کا تذکرہ میں نے اپے اس آرٹیکل میں بھی کیا تھا
مجھے اس دوران چند ایک کتابیں جوکہ ووڈرو ولسن سنٹر ، کارنیگی انڈومنٹ اور کئی ایک اور امریکی فنڈنگ سے چھپنے والی کتابیں پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا ، ان میں حسین حقانی کی ” ملاّ ، مسجد اور فوج ” بھی اہم ہے تو مجھے ایک تو یہ نظر آتا ہے کہ امریکی فنڈنگ کرنے والے اداروں کی تحقیق کا فوکس ایک تو پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ تھی ، دوسرا ایران تھا اور وہ اس تحقیق میں مڈل ایسٹ میں ان دنوں امریکی پالیسی سے منحرف تحقیقی نتائج پر تیار نہیں تھے اور وہ دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردی اور اس کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں اتنے زیادہ فوکس اپنے پالیسی بریف میں نہیں تھے اور مشرق وسطی کے شیعہ کے بارے میں ان کا فوکس معاندانہ زیادہ تھا ، ویسے اس کا تذکرہ خالد احمد پانچویں باب میں مڈل ایسٹ کی تاریخ بارے ایک بریف کے دوران سرسری طور پر کرتا ہے لیکن اس پر زیادہ بات نہیں کرتا

امریکی فوکس اس کتاب کے چھپنے کے بعد بہت حد تک تبدیل ہوا ہے اور آج کم از کم امریکی فوکس میں دیوبندی تکفیری ٹیررازم اتنا کم اہم نہیں ہے جتنا یہ کبھی تھا اور آج عالمی انسانی حقوق کی تنظیميں اور خود امریکی حکومت مڈل ایسٹ میں اور پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی پر اس قدر لاتعلق نہیں ہے جتنی یہ پہلے نظر آتی تھی ، اس لیے اس موضوع پر امریکہ نواز لبرل اور سیکولر کے رویوں میں کچھ تبدیلی ہمیں نظر آنے لگی ہے

پاکستان کے اندر دھشت گردی اور اس کی فکری جڑوں کے ڈسکورس کی آزادانہ اور دیانت داری پر مبنی کسی ملک کی خارجہ پالیسیوں اور پراکسی وار سے آزاد بنیادوں پر تشکیل کا سوال کل بھی اہم تھا اور آج بھی اہم ہے اور میرے خیال میں اس حوالے سے انگریزی میں عبدل نیشا پوری ، علی عباس تاج ، علی عباس زیدی ، نسیم چوہدری ، پیجا مستری ، شہرام علی رسٹی واکر ، کرسٹنین فرئر ، کارلوٹا گيل نے کافی اچھا کام کیا ہے مگر خالد احمد کی کتاب ” فرقہ وارانہ جنگ ” کے مواد کو بنیاد بناکر اور مزید حوالے شامل کرکے بہت ہی زبردست کام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور اس کی فکری جڑوں پر خالد ابوالفضل نے زبردست کام کیا ہے وہ اگرچہ مڈل ایسٹ کے خوالے سے زیادہ ہے لیکن اس میں شاہ اسماعیل دھلوی ، نواب صدیق قنوجی ، مفتی رشید گنگوہی ، مودودی ، ضیاء الرحمان فاروقی ، مفتی نظام شامزئی وغیرہ کو اس پیٹرن میں جانچ کر پاکستانی تناظر مکمل کیا جاسکتا ہے

Source:

http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/11/blog-post_6.html

Comments

comments