نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟
مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔عربی لغت میں مرثیہ کسی کی موت پر رونے، غم منانے اور مرنے والے کے اوصاف بیان کرنے کو کہتے ہیں۔مرثیہ عربی زبان میں بطورمشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔مرثیہ اس نظم یا اشعار کو کہتے ہیں جن میں کسی شخص کی وفات یا شہادت کا حال یا اس کے ساتھ اس کے مصیبتوں کا ذکر ہو؛ خاص طور پر وہ نظم یا اشعار جن میں حضرت امام حسین اور دوسرے شہدائے کربلا کی مظلومی اور شہادت کے مصائب بیان کئے جائیں۔
واقعہ کربلا اورامام عالی مقام علیہ السلام کی لازوال قربانی کے اردوزبان پرگہرے اثرات مرتب ہوئے۔اردو ادب میں واقعہ کربلا کو بیان کرنے کے لیئے شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہیں جو شائد ہی کسی اور زبان میں ہو۔اس میں مرثیہ، نوحہ ، سلام، سوز وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں کربلا اورامام حسینؑ اوران کے جانثاراں کے عظیم کارنامے کونہ صرف بیان کیا جاتا ہے بلکہ اس میں اپنی عقیدت کااظہار بھی جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی اردو، غزل اورنظم میں جابجا کربلا، قربانی، علم، پیاس، خون وغیرہ ذکرکا ملتا ہے-مرثیہ میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اردو شاعری اورادب کی دیگر اصناف میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً فصاحت و بلاغت،واقعہ نگاری،اخلاقی شاعری،تشبیہات و استعارات،رزمیہ شاعری، کردار نگاری، منظر کشی،رجز،جذبات نگاری،تصادم و کشمکش،مکالمہ، حالات و ماحول کی عکاسی،غزل کا تغزل، نظم کی روانی، داستان کا تسلسل یہ سب خصوصیات ہمیں مرثیہ نگاری میں ملیں گی۔
مرثیہ نگاری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حق اور باطل کا فرق واضح کیا جاتا ہے۔اس میں حق کو باطل سے نبر آزما دکھایا جاتا ہے۔ظالم اور مظلوم کے فرق کو واضح کیا جاتا ہے۔اس میں خیر و شر کی قوتوں کا ٹکرائو ڈرامہ اور مکالمات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔مرثیہ نگاری سے ظالموں،جابروں سے نفرت اور مظلوم کی مظلومیت کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ سننے والے کے ذہن میں واقعہ کا پورا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مرثیہ میں نیکی اور بدی کا فرق واضح کیا جاتا ہے اور خیر اور شر کی آویزش کو بہت واضح کرکے دکھایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر فیض احمد فیض کے مرثیہ کے اشعار ہیں
اورنگ نہ افسر نہ علم چاہئے ہم کو
زر چاہئیے نہ نے مال و درم چاہئیے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہئیے ہم کو
سردار کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اک حرف یقیں دولت ایماں ہمیں بس ہے
طالب ہیںاگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میںصداقت کے پرستار
انصاف کے نیکی کے مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیںتو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیںوہ منکرِدیںہے
مرثیہ چونکہ واقعات کربلا پر مبنی ہے اس لئے اس میں واقعات کربلا کی تفصیل بیان ہوتی ہے ۔ مثلاً جاں نثار ان حسین اور خانوہ حسین کی سیر و شخصیت، کردار، جذبات، احساسات، اعزہ سے رخصتی، میدان کار زار میں ان بے سر و ساماں فدائیاں حسین کی آمد، آلات حرب، جنگ کا منظر، گھوڑوں کی تیزی، تلواروں و نیزوں کی چمک دمک، فرات کے کناروں پر یزیدیوں کے پہرے، پیاسوں کی شہادت اور پھر ان کی زخم خوردہ لاشوں پر بین و بکا وغیرہ۔
مرثیے کے لئے آٹھ اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں۔
تمہید چہرہ
سراپا
رخصت
آمد
رجز
واقعاتِ جنگ
شہادت
بین
دعا
اردو ادب میں یوں تو مرثیہ نگاری کی ابتدا اردو زبان کی ابتداء کے ساتھ ہی شروع ہوچکی تھی-لیکن اس کو ایک نئی جدت میر انیس نے دی۔میر انیس نے مرثیہ کو معراج کمال پر پہنچایا۔میر انیس اتر پردیش میں فیض آباد کے محلے گلاب باڑی میں پیدا ہوۓ اور اس وقت ھندوستان پر بادشاہ امجد علی شاہ کی حکومت تھی۔میر انیس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اس میں شعر وشاعری کا چرچا تھا ۔ اور وہ کئی پشت سے اردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔میر انیس کے والد میر خلیق اور دادا میر حسن اپنے عہد کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے۔بقول میر انیس کہ
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
میر انیس نے مرثیہ نگاری کو بام عروج پر پہنچا دیا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ“میر انیس کے بعد مرثیہ مرثیہ نہ رہا،انسانی رشتوں کی شاعری بن گیا“۔
اردو شاعری میں میر انیس ایک بے مثال شاعر کا درجہ رکھتے ہیں اور میرانیس کے ہاں مرثیوں میں فصاحت و بلاغت،واقعہ نگاری اور منظر نگاری،اخلاقی شاعری،تشبیہات و استعارات،رزمیہ شاعری، کردار نگاری، منظر کشی،رجز،جذبات نگاری،تصادم و کشمکش،مکالمہ، حالات و ماحول کی عکاسی،غزل کا تغزل، نظم کی روانی،جذبا ت کے بیان کا خاص سلیقہ, داستان کا تسلسل,روز مرہ محاوروں کا استعمال،,مظاہر قدرت کے بیان میں زور, بیان کا حسن اور طرزِ اد ا کی خوبی ،قصیدے کی شان و شوکت اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔
میر انیس اپنی شاعری میں منظر نگاری کس شاندار انداز سے کرتے تھے اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط ِ آب تھا
انیس کے ایک مشہور مرثیے میں صبح کا منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے
وہ دشت، وہ نسیم کے جھونکے، وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار
اٹھنا وہ جھوم جھوم کے شاخوں کا بار بار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زیب گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
شہادت امام حسین پر ہر شاعر نے اپنے انداز سے اظہار خیال کیا ہے۔مثال کے طور پر اقبال کے اشعار ملاحظہ فرمائیں تو آپ کربلا اورامام حسینؑ کوقربانی اسماعیلؑ کاتسلسل جانتے ہیں بلکہ ’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیتے ہیں
غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
یعنی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کوجس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے
ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں
رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں
کیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
جوش ملیح آبادی نے امام عالی مقام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا
انسان کوبیدار توہولینے دو
ہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
مولانا محمد علی جوہر کا شعر تو ہر زبان پر عام ہے کہ
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
ہندوستان کے مشہور اور معروف ہندوجناب مرحوم ماتھر لکھنوی نے امام عالی مقام کو یوں خراج عقیدت پیش کیا۔
یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شان حسین
بن گیا اسلام کی بنیاد ایمان حسین
کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدان حسین
معرفت کی انتہا ہے نور ایمان حسین
آغا شورش کاشمیری نے امام حسین کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی
ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حُسین
کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے
دورِ حاضر کے یزیدوں سے ہے دوچار حُسین
امام عالی مقام علیہ السلام کو خراج عقیدت ہر مذہب،ہر مسلک اور ہر رنگ و نسل کے شعراء نے کیا ہے۔سب کا تذکرہ کرنے کے لیئے ایک ضخیم کتاب درکار ہوگی اس لیئے میں اپنی تحریر کا اختتام محسن نقوی کے ان اشعار پر کرتا ہوں
نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟
جہانِ عزمِ وفا کا پیکر
خِرد کا مرکز، جنوں کا محور
جمالِ زھراسلام اللہ علیہا ، جلالِ حیدر
ضمیرِ انساں، نصیرِ داور
زمیں کا دل، آسماں کا یاور
دیارِ صبر و رضا کا دلبر
کمالِ ایثار کا پیمبر
شعورِ امن و سکوں کا پیکر
جبینِ انسانیت کا جھُومر
عرب کا سہرا، عجم کا زیور
حسین تصویرِ انبیاء ہے
نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟
حسین اہلِ وفا کی بستی
حسین آئینِ حق پرستی
حسین صدق و صفا کا ساقی
حسین چشمِ اَنا کی مستی
حسین پیش از عدم، تصور
حسین بعد از قیامِ ہستی
حسین نے زندگی بکھیری
فضا سے ورنہ قضا برستی
عروجِ ہفت آسمانِ عظمت
حسین کے نقشِ پا کی مستی
حسین کو خُلد میں نہ ڈھونڈو
حسین مہنگا ہے خلد سستی
حسین مقسومِ دین و ایماں
حسین مفہوم “ھَل اَتٰی” ہے
نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟