مسخ شدہ تاریخ درست کریں – حمیرا کنول

141030173425_pakistan_education_640x360_afp

ماہرین تعلیم پرائمری تعلیم سے اعلیٰ تعلیمی کی سطح تک نصاب میں ترامیم کے لیے وزیراعظم کےحکم نامے کو وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہیں مگر ان کی نظر میں ابتدا تاریخ کی درستگی سے ہونی چاہیے۔

معروف مصنف اور استاد ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ نصاب کی درستگی اور ترامیم کے لیے سنہ 1994 میں بھی اس وقت کی حکومت نے پہلی سے بارہویں جماعت کے نصاب کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ انھیں اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تاہم تجاوز کے باوجود چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے رپورٹ پر عمل نہیں کیا اور غلطیاں جوں کی توں برقرار رہیں۔

’جو جو چیزیں میں نے اس میٹینگ میں درست کروائیں وہ تو ٹھیک کر دی گئیں تاہم رپورٹ میں جو بڑی باتیں اور تجاویز تھیں اس کا کچھ پتہ نہیں چلا اور کتابیں اسی طرح چل رہی ہیں اور معلوم نہیں رپورٹ کا کیا ہوا۔‘

معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک کا کہنا ہے کہ اگرچہ وزیراعظم کی ہدایات بہت اچھی ہیں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کیا قانونی طور پر صوبوں کو حکم دینے کا مجاز ہے؟ کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی موضوع بن چکی ہے۔

لیکن دوسری جانب ڈاکٹر مہدی حسن پر امید ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گا۔

’ہائر ایجوکیشن صوبائی مسئلہ نہیں، سرکاری یونیورسٹیاں ہائر ایجوکیشن کے پاس ہیں اور بڑے بڑے نجی تعلیمی ادارے صوبائی حکومتوں کے ماتحت نہیں ان کے مشورے سے مسائل حل ہو سکتے ہے۔‘

ڈاکٹر مبارک علی سمجھتے ہیں کہ بطور مضمون تاریخ میں ترمیم ہونی چاہیے تھی مگر وزیراعظم کی جانب سے ایچ ای سی کو جاری کیے جانے والے ہدایت نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔

برصغیر کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اشوک بادشاہ نے کیسے تشدد کی پالیسی کو ترک کیا اور اکبر بادشاہ نے ’صلحِ کل‘ کی پالیسی بیان کریں تو وہ سمجھنے میں آسان ہوگا۔

’مغل دور میں فرقہ ورانہ فسادات کیوں نہیں تھے یہ بتانے کے لیے صحیح طریقے سے لکھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر مبارک نے پاکستان میں دہشت گردی کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ محض یہ کہہ کر بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے کہ دہشت گردی اور مذہبی تعصب بری چیز ہے اس کے لیے آپ کو تاریخ کو حقائق کے ساتھ بیان کرنا ہو گا۔

ڈاکٹر مہدی حسن نے پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے نصاب میں تاریخ پاکستان میں کی گئی چند تاریخی غلطیوں کا حوالہ کچھ یوں دیا۔

’کسی تاریخ کی کتاب میں قائداعظم کی وہ تقریر نہیں ہے جو انھوں نے گیارہ اگست کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے کی تھی، بچوں کی تمام کتابوں میں وہ تقریر اب تک سنسر حالت میں ہے، اسے درست کرنا بہت ضروری ہے تاکہ پتہ چلے کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ قائداعظم کی تقریر کس نے سنسر کی، پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قتل کے واقعے کی تفصیلات اور سویت یونئین کا دعوت نامہ مسترد کر کے امریکی دعوت نامہ منگوایا گیا، یہ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون کون ذمے دار ہے؟

’ اگر آپ مسخ شدہ تاریخ کوسیدھا کردیں اور حقیقت پر مبنی تاریخ لکھیں تو ہمارے بیشتر مسائل درست ہو سکتے ہیں۔‘

مہدی حسن کے مطابق ہر حکومت نے نقصان پہنچایا لیکن سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیاالحق کے دور میں پہنچایا گیا جبکہ پرویز مشرف کی پالیساں بھی کامیاب نہیں ہوئیں۔

’اصل حکومت سیاسی جماعتوں کی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگر بھٹو جیسا حکمران کہتا ہے کہ میں قوت نہیں رکھتا تو عام حکمران جو گذرے اور ہیں یا جو موجود ہیں، ان کی کیا مجال ہے کہ وہ اپنی پالیسی کو نافذ کریں اور آج بھی اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ چلتا ہے۔

’بھٹو پر جب ان کے بعض ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے پارٹی بنائی تو یہ یہ کرنے کو کہا تھا لیکن نہیں کیا تو بھٹو نے کہا تھا کہ میں کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس اختیار نہیں۔‘

ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پاکستان کو نظریاتی بنیادوں پر بنایا گیا اور یہ وجہ ہے کہ نظریاتی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بہت سی سچائیوں کو نہیں مانا جاتا۔

تاریخ کے ذریعے بچوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ یہاں کبھی مذہبی فسادات نہیں ہوتے ، باہمی میل جول اور رواداری موجود تھی اور دہشت گردی نہیں تھی۔

وہ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ کہتے ہیں ہر مضمون کے ماہر سے نصاب کا مواد لکھوانا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ نئیرنے کہا کہ عدلیہ، جمہوریت اور معلومات تک رسائی کے حق کے حوالے سے وزیراعظم نے جن نکات کو اٹھایا وہ اس وقت تمدنی ضرورت ہے۔

تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں صرف تعلیمی نصاب کی ترمیم ہی کافی نہیں ہوگی اس وقت میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں اور وزیراعظم کو انھیں بھی چند ہدایات جاری کرنی چاہییں۔

ڈاکٹر اے ایچ نئیر کہتے ہیں کہ طویل عرصے تک آمریت کے سائے تلے رہنے کی وجہ سے اب بحیثت قوم ہمیں آمریت بری نہیں لگتی۔

’ہم ہر چیز میں آمریت چاہتے ہیں، ایک چیف جسٹس آئے اور سارے کام کرے اور ایک سیاست دان اٹھے اور تمام مسائل کا حل کردے چاہے اس میں حقوق پامال ہوں۔‘

نصاب میں ترامیم کی ہدایت پر بات کرتے ہوئے مہدی حسن نےکہا کہ اس ضمن میں صوبائی حکومت سے مشاورت سے زیادہ فائدہ مند اور اہم ماہرین تعلیم سے رابطہ کرنا ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نصاب میں ترامیم کے لیے دو ماہ کی مدت ناکافی نظر آتی ہے تاہم اگر اچھی ٹیم میسر آجائے تو اسے جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/10/141030_pm_order_syllabus_amend_hec

Comments

comments